کورونا ویکسین بنانے والی بھارتی کمپنی پرآزمائش میں شریک رضا کار کا مقدمہ

ویب ڈیسک  اتوار 29 نومبر 2020
40 سالہ شخص کی طبیعت ویکسین لگانے کے گیارہویں دن خراب ہونا شروع ہوئی(فوٹو، فائل)

40 سالہ شخص کی طبیعت ویکسین لگانے کے گیارہویں دن خراب ہونا شروع ہوئی(فوٹو، فائل)

نئی دہلی: بھارتی کمپنی کی زیر تکمیل کورونا ویکسین کی آزمائش میں شریک ہونے والے رضاکار نے اعصابی پیچیدگیاں پیش آنے کے باعث 5 کروڑ ہرجانے کا مقدمہ دائر کردیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 40 سالہ شخص  کے وکیل این جی آر پرساد کا کہنا ہے کہ آزمائشی خوراک استعمال کرنے کے بعد میرے موکل کو اعصابی صحت سے متعلق شکایات پیش آئیں۔ اس لیے ہم نے سیرم انسٹی ٹیوٹ، انڈین کونسل فور میڈیکل ریسرچ(آئی سی ایم آر) ، آسٹرا زینیکا، ڈرگ کنٹرولر جنرل انڈیا، اینڈریو پولارڈ، چیف انویسٹی گیٹر، آکسفرڈ ویکسین ٹرائل ، آکسفرڈ یونیورسٹی اور دیگر کے خلاف ہرجانے کا دعوی دائر کیا ہے۔

وکیل کے مطابق دخواست دائر کرنے کے بعد  21 نومبر کو تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے تھے تاہم ابھی تک انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ بھیجے گئے نوٹس کے مطابق مدعی کی عمر چالیس سال ہے، اس کی شادی ہوچکی ہے اور اس کے 12 اور 7 سال کے دو بچے بھی ہیں۔

درخواست میں فریق بنائے گئے اداروں کو بھیجے گئے نوٹس کے مطابق جب مدعی کو معلوم ہوا کہ سری راما چندرا انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں آکسفرڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین کی آزمائش ہورہی ہے تو مفادعامہ کے لیے اس نے اس میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔

رضاکار بننے پر راما چندرا انسٹی ٹیوٹ نے شرکا کو ایک معلومات نامہ فراہم کیا تھا کہ جس کے مطابقیہ  آزمائش سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ اور  آئی سی ایم آر کے زیر اہتمام ہورہی تھی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ آکسفرڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین دنیا میں 18 سے 55 برس کے  500 صحت مند افراد کودی جاچکی ہے اور بڑے پیمانے پر اس کی آزمایش کے لیے برطانیہ ، برازیل اور جنوبی افریقا میں اس کی آزمائشیں جاری ہیں۔

سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے بھی آکسفرڈ یونیورسٹی اور برطانوی دوا ساز کمپنی کے ساتھ ملک کر کمرشل سطح پر کووی شیلڈ کے نام سے ویکسین تیار کی ہے جس کے لیے آزمائش کا اہتمام کیا گیا ۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ویکسین کی آزمائش کے منتظمین کی جانب سے رضاکاروں کو بتایا گیا تھا کہ ویکسین استعمال کے لیے محفوظ ہے اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اس کی مزید آزمائش ہورہی ہے۔ تاہم اس سے کے علاوہ رضا کاروں کو ویکسین کے ممکنہ ضمنی یا مضر اثرات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔

نوٹس میں مدعی کی بیوی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ویکسین لگوانے کے دس روز تک اس کے شوہر کی طبیعت ٹھیک رہی لیکن گیارہویں دن جب اسے صبح اٹھایا گیا تو اس نے سر میں شدید درد کی شکایت کی اور دوبارہ سو گیا جس کے بعد وہ دوپہر دو بچے بیدار ہوا۔

اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ دوپہر کو بیدار ہونے کے بعد سے اس کے شوہر کے معمول میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ اسے بار بار قے ہونے لگی۔ اب وہ روشنی اور ہلکے سے شور کی آواز سے بھی پریشان ہوجاتا ہے اور بستر سے اٹھانے کی ہر کوشش کی مزاحمت کرتا ہے۔

یکم اکتوبر کو ویکسین لگوانے کے بعد مذکورہ رضا کار کی طبیعت 11 اکتوبر کو بگڑنا شروع ہوئی۔  جس کے بعد وہ اسپتال میں داخل بھی رہا ۔ اس کے اہل خانہ کے مطابق طبیعت بگڑنے کے بعد کسی سرکاری ادارے یا ویکسین متعارف کروانے والے انسٹی ٹیوٹ نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔

وکیل کے مطابق 12 نومبر کو اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد آنے ولی ای ای جی ٹیسٹ رپورٹس کے مطابق ویکسین لگوانے والے رضا کار کا دماغ کے حصے متاثر پائے گئے ہیں اور اس کی یادداشت بھی کم زور ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ معمولی سے پیچیدہ سوچنے سمجھنے کے کاموں میں بھی اسے دشواری پیش آرہی ہے۔

ان اسباب کو بنیاد بنا کر رضاکار اور اس کے اہل خانہ نے متاثر فرد کو پہنچنے والی تکلیف اور مستقبل میں صحت سے متعلق لاحق خدشات کے باعث 5 کروڑ ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا ہے اور ساتھ ہی اس ویکسین کی آزمائش، تیاری اور تقسیم فوری طور پر روکنے کی استدعا بھی کی ہے۔

ویکسین کی آزمائش کا اہتمام کرنے والے سری راما چندرا ہائر ایجوکیشن کی جانب سے اسے عدالتی معاملہ قرار دے کر کسی بھی قسم کے تبصرے سے گریز کیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔