اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ اور پاکستان

سالار سلیمان  منگل 1 دسمبر 2020
پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دباؤ موجود ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دباؤ موجود ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں ایک مرتبہ پھر سے یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ کیا پاکستان کو اسرائیل سے روابط کا آغاز کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔ یادش بخیر، گزشتہ بلاگ میں ہم دلیل سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات کا آغاز کرکے کسی بھی قسم کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے۔ اگر یاد ہو تو ماضی قریب میں ایک خاتون ممبر قومی اسمبلی نے ایک مرتبہ اپنی تقریر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اسرائیل ہمارے لیے کتنا ضروری ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کیا فوائد ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی تھی، جو آج بھی اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس پینڈنگ میں موجود ہے۔ اللہ جانے اس کو مسترد کیوں نہیں کیا گیا؟ ویسے قرارداد اگر تسلیم بھی ہوجائے تو بھی کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے بعد دیگر مراحل ہیں۔ تاہم یہ عمل عالمی میڈیا میں ایک نئی بحث اور ہیڈ لائنز کو اچھا مواد ضرور دے سکتا تھا۔ خیر، ہم نے تب بھی یہی لکھا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ہمیں کوئی بھی مالی یا ٹیکنالوجی وغیرہ یا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے، لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کروانے کےلیے نہ ہی تو ناچنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ناچ ناچ کر گھنگرو توڑنے سے کوئی فائدہ ہوگا۔

نئی ڈیولپمنٹ کے مطابق ایک خبر یا افواہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے سعودیہ کا خفیہ دورہ کیا ہے۔ جس میں انہوں نے محمد بن سلمان اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو سے مبینہ طور پر ملاقات کی ہے۔ اب سعودیہ عرب کے اس خطے میں اپنے مفادات ہیں۔ یہ مفادات اس نے کسی نہ کسی طرح حاصل کرنے ہیں بلکہ ایم بی ایس کے آنے کے بعد تو ان مفادات میں اضافہ ہوا ہے اور سعودیہ ان کے حصول میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار لگتا ہے۔ سعودیہ کی جانب سے العربیہ اور قطر کی جانب سے الجزیرہ نے اس حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے اس بحث کو نقطہ عروج پر پہنچا دیا، جس کے بعد پاکستان میں بھی دوبارہ ایک نئی بحث شروع ہوئی کہ پاکستان کو بھی اسرائیل سے تعلقات کا آغاز کرنا چاہیے۔

سب سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ اس معاملے میں العربیہ اور الجزیرہ کی خبروں اور تبصروں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، کیونکہ یہ دونوں ہی ریاستی ادارے ہیں اور اپنی اپنی ریاستی پالیسیوں اور مفادات میں رپورٹنگ کررہے ہیں۔ قطر اور سعودیہ کی آپس میں ٹھن چکی ہے اور ان کے تعلقات بھی خراب ہیں۔ لہٰذا الجزیرہ، جو کہ قطر کی سرپرستی میں کام کرتا ہے، اس کی رپورٹنگ کے مقابلے میں سعودی سرپرستی میں کام کرنے والے العربیہ کو جواب دینا ہی تھا اور پھر پروپیگنڈہ میں اختتام اتنی جلدی نہیں ہوتا۔ ملاقات کی تردید سعودیہ عرب کے فارن منسٹر نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے بھی کی اور کہا ہے کہ وہاں پر ایم بی ایس اور پومپیو کے علاوہ کسی بھی تیسرے ملک کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ واللہ اعلم۔

سعودیہ کی جانب سے تردید آگئی۔ اب پاکستان میں وہ کون سی لابی ہے جو چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرتی ہے؟ یعنی، کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی لیکن اسرائیل کے حوالے سے بحث شروع کروائی اور ملک کے دو مشہور صحافیوں سمیت دیگر صحافیوں نے بھی اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ٹوئیٹس بھی کردیں۔ کیوں؟ کیونکہ ایک لابی چاہتی ہے کہ موجودہ کمزور حکومت سے اسرائیل کو تسلیم کروا لیا جائے۔ ممبر قومی اسمبلی کی تقریر اور قرارداد اور پھر صحافیوں کی جانب سے اس حوالے سے گفتگو اس بات کی عکاسی ہے کہ ریاست کے دو اہم ستون اس حوالے سے بات کر رہے ہیں اور باقی کے دو ستون ابھی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ فی الوقت تو حکومت نے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے لیکن اس یو ٹرن حکومت پر کیا اعتبار کہ وہ کیا کرلے۔ یعنی صورتحال اتنی بھی نارمل نہیں ہے، جتنی بظاہر نظر آرہی ہے۔

وزیراعظم کی یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دباؤ موجود ہے۔ پہلے یہ دباؤ ہمیں مغربی ممالک کی جانب سے بیان بازی کی صورت میں آتا تھا، لیکن اب یہ دباؤ ہمیں عرب ممالک کی جانب سے بھی آرہا ہے۔ اہم عرب ریاستیں اسرائیل سے تعلقات قائم کرچکی ہیں اور اب پاکستان پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرے تاکہ سعودیہ عرب کےلیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوسکے۔ پاکستان کی خواہش اس کے برعکس ہے۔ اس حوالے سے متحدہ عرب امارات نے بھی دباؤ ڈال دیا ہے کہ پاکستانیوں کےلیے جاب اور وزٹ ویزے دونوں ہی بند کردیے ہیں۔ حکومتیں اس بابت کچھ بھی بیان کریں، لیکن یہ اظہر من الشمس ہے کہ درحقیقت یہ پابندی لگائی کیوں گئی ہے۔

یو اے ای میں مقیم پاکستانی سالانہ کروڑوں ڈالرز کا زر مبادلہ پاکستان بھیجتے تھے۔ یو اے ای کی کل آبادی 96لاکھ سے کچھ زائد ہے، جس میں 12 لاکھ پاکستانی بھی آباد ہیں۔ یہ بات تو یو اے ای بھی تسلیم کرتا ہے کہ یو اے ای کو ترقی دلوانے میں اگر حکمرانوں کا وژن تھا تو پاکستانیوں نے بھی خون پسینہ ایک کیا ہے۔ اس کا صلہ البتہ یہ ملا ہے۔ اس پابندی کا پاکستان کو نقصان ہے اور ہمارے ہمسایے بھارت کو اس کا فائدہ ہے، کیونکہ یہ جاب مارکیٹ اب انڈیا کے پاس چلی جائے گی جو کہ پہلے ہی بہت بڑی تعداد میں یو اے ای میں آباد ہیں۔ دوسرے مرحلے میں آباد پاکستانیوں کو تنگ کرنے کی رپورٹس بھی موجود ہیں کہ ان کےلیے حالات ہی ایسے کردیے جائیں کہ وہ یو اے ای سے نکل جائیں۔ یعنی ایک جانب ویزے بند کردیے ہیں اور دوسری جانب پہلے سے موجود پاکستانیوں کےلیے حالات ایسے ہونے جارہے ہیں کہ وہ بھی یو اے ای کو خیرباد کہہ دیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے پاکستانی واپس اپنے وطن آئیں گے اور جن ہزاروں پاکستانیوں نے یو اے ای جانا تھا، وہ یہیں رہیں گے۔

کورونا کی وجہ سے معیشت بیٹھ چکی ہے اور ملازمتیں ہیں ہی نہیں تو پھر یہ جو پاکستانی آئیں گے وہ کیا کریں گے؟ اب کیا کریں؟ احقر کا مشورہ یہی ہے کہ ایک منڈی بند ہوئی ہے تو دوسری منڈیاں دیکھی جائیں۔ ترکی ہے، آذربائیجان ہے، یہاں نظر دوڑائیے۔ یہاں سرمایہ کاری پر منافع یو اے ای جیسا یا اس سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ ہمیں یو اے ای جیسے ممالک سے اسرائیل کے حوالے سے بلیک میل ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حالات پہلے ہی خراب ہیں، لیکن اگر اس بابت بروقت اقدامات اٹھا لیے گئے تو حالات مزید خراب ہونے سے بچ جائیں گے اور آہستہ آہستہ بہتر ہوجائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔