کامیابی دراصل آپ کی ’’سوچ‘‘ ہے

مثبت سوچ، بڑی کامیابی…منفی سوچ، تاعمر ملالؤ


عصارہ چوہدری December 30, 2013
زندگی کے ہر پہلو کا انحصار سوچ پر ہی ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کیا آپ زندگی میںکبھی کسی ایسے انسان سے نہیں ملے، جس نے کسی اونچی عمارت کے قریب کھڑے ہو کر کہا ہو ایک دن اُس کے پاس بھی ایس ہی عمارت ہو گی اور پھر واقعی اس نے ایسا کر دکھایا؟

کہیں نہ کہیں سے ہمیں ایسی کہانیاں سننے کو ضرور ملتی ہیں' دلچسپ بات ہے کہ یہ کہانیاں صرف کتابوں میں لکھی یا افواہ کی طرح پھیلی ہوئی نہیں بلکہ لوگوں کی زندگیوںمیں رونما ہونے والی کامیابی کی زندہ مثالیں ہیں۔ یہ سب وہ لوگ کر دکھاتے ہیں، جو ایسا کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، ایسا تصور کر لیتے ہیں۔ اور ''سوچ'' تصور کا سب سے دلچسپ مضمون ہے لیکن اسے سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ لوگ ''سوچ'' کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ ان کی زندگی کے ہر پہلو کا انحصار اسی پر ہے۔ ''سوچ'' کا کردار کتنا اہم ہے اس کی مثالیں ڈھونڈنے کوئی نکلے تو معمولی سی محنت سے ہی ہزاروں نتائج سامنے آ جائیں۔ کیا ہے آخر یہ سوچ اور کیوں ضروری ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس کے جواب میں ''کامیابی'' چھپی ہے۔ سوچ انسانی ذہن پر بہت اثر ڈالتی ہے۔ جو آپ سوچتے ہیں''میں یہ ہوں'' وہی آپ ہوتے ہیں۔ زندگی کا ہر منظر ''سوچ'' سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ کی مختلف اقسام ہیں جیسے مثبت سوچ' منفی سوچ' اچھی سوچ' بری سوچ' بے غرض سوچ یا مطلبی سوچ اور کامیابی یا ناکامی انہی سوچوں کا نتیجہ ہیں۔ اچھی' مثبت اور بے غرض سوچ کامیابی کی طرف اور بری' منفی اور مطلبی سوچ ناکامی کی طرف لے جاتی ہے۔

آپ کسی چیز سے محبت کرتے ہیں' نفرت یا کسی چیز کو اپنانے یا ٹھکراتے ہیں یہ سب سوچ ہی تو ہے۔ سوچ ایک انسان کے ذہن میں ابھرتی ہے اور بدلتی بھی رہتی ہے۔ پہلی بار میں ابھرنے والی سوچ کبھی کبھی روح تسلیم نہیں کرتی تو پھر ذہن اس سوچ کو بدلتا ہے۔کئی نئے سانچوں میں ڈھالتا ہے اور پھر جسے روح تسلیم کر لے اس پر اتفاق کر لیتا ہے۔ ''سوچ'' مقناطیس کی طرح ہے جو اپنے جیسی سوچ کو مائل کرتی ہے۔ پسند' پسند کو مائل کرتی ہے اور ناپسند' ناپسند کو۔ ''سوچ'' ذہن میں موجود خیالی تصاویر ہیں۔ ''سوچ'' ایک مشین کی طرح ہے اور اسے چلانے کے لئے ایک بٹن کی ضرورت ہے اور وہ بٹن''احساس'' ہے۔ ضروری ہے کہ آپ کسی چیز کو محسوس کریں تبھی یہ مشین (سوچ) کام کرے گی۔ ایک شفاف سوچ اور بار بار آنے والی سوچ ظاہری شکل اختیار کر لیتی ہے۔ بعض اوقات یہ ظاہر ہونے میں وقت لگاتی ہے لیکن ظاہر ہوتی ضرور ہے۔ جیسے آپ کی زندگی میں اگر''محبت'' کی کمی ہے تو آپ اپنے ذہن میں سوچ پیدا کریں' خود کو خوشحال اور محبت میں گھرا ہوا محسوس کریں۔ جو آپ سوچیں گے وہی ہوگا۔ ''ضرورت'' سوچ کو جنم دیتی ہے۔ جو چیز آپ کو چاہئے اسی کی سوچ آپ کے ذہن میں ابھرنے لگے گی اور پھر ہو گا وہی جو آپ سوچیں گے۔

سوچ کیسے کام کرتی ہے؟

''احساس'' کے بغیر''سوچ'' یوں ہے جیسے پٹرول کے بغیر گاڑی''۔ جونہی آپ پٹرول (احساس) ڈالیں گے گاڑی (سوچ) کام کرنا شروع ہو جائے گی۔ کتنے خیال آئے ہوںگے آپ کے ذہن میں جیسے کہ ''فلاں بزنس' فلاں گاڑی' ایسا گھر، ویسا ادارہ' پینٹر بننا یا پھر انجینئر'' لیکن ان میں سے کیا کیا سچ ہوا؟ محض وہی جس میں احساس شامل تھا۔ خواہ وہ احساس ضرورت تھا' احساس شوق یا پھر احساس ذمہ داری۔ احساس ہونے کا مطلب''حساس'' ہو جانا نہیں ہے کہ آپ غیر ضروری باتوں کو بھی محسوس کرنا شروع کردیں۔ ہرگزنہیں! ایسے سوچ بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ جس خاص پہلو پر آپ سوچ رہے ہوںگے آپ کی سوچ اس سے ہٹ کر نہ جانے آپ کو کس افراتفری کے عالم میں لے جائے۔ اپنی سوچ کو ایک وقت میں ایک نقطے تک محدود رکھیں۔ مجھے زندگی میں ہزاروں لوگ ملے کسی نے کہا کہ وہ کے ٹو سر کریں گے' کسی نے کہا وہ فلاں بزنس کریں گے اور کوئی ایسا ملا جس نے کہا کہ وہ کتاب لکھے گا۔ اب تک ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے وہ کر دکھایا جو کہا اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی تک نہیں کر پائے۔ جیسے کوئی کتاب نہیں لکھ پایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس شخص نے اپنی سوچ میں جذبات شامل نہیں کئے۔ اس نے اپنی سوچ کو مضبوط بنانے کی کوشش نہیں کی۔ شاید اسے کوئی ایسا احساس' ایسا پہلو' ایسا جذبہ یا پھر ایسا موضوع نہیں ملا کہ جو اسے لکھنے کی طرف مائل کرتا۔



ہماری کوئی ایسی سوچ جو ہمیں ذرا سا پریشان کر دے ہم اس پر سوچنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اپنی پریشانی کو اپنی سوچ اور باقاعدہ ترکیب بنا لیں اور اسی کو ہتھیار بنا کر واردات کریں اور مثبت نتائج لوٹ لیں۔ اپنی منفی سوچ کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں اور مثبت سوچ کو خود حاوی کر لیں۔ کامیابی پر صرف آپ کا حق ہو گا۔ ہر منفی سوچ میں سے کوئی نہ کوئی مثبت نقطہ ضرور نکلتا ہے۔ بس مثبت سوچنے کی کوشش کریں، مشاہدہ کرنا سیکھیں۔ جب آپ دوسروں کی حرکات کا مشاہدہ کریں گے تو ایک اچھی سوچ کو جنم دیں گے اور ان دوسروں سے بہتر کچھ کر کے دکھائیں گے۔اس کے ساتھ اپنی سوچوں کو منظم کریں۔ جب آپ کی سوچیں منظم ہوںگی تو آپ کے اعمال بھی اسی طرح منظم ہوںگے۔ بعض اوقات دوسرووں کی ادھوری سوچ آپ کی سوچ کا مرکز بن جاتی ہے اور پھر آپ کا ذہن اسے مکمل کرتا ہے۔ وہی ادھوری سوچ اس انسان کے کام تو شاید نہ آ سکی ہو لیکن آپ کے لئے ضرور کار آمد ہو سکتی ہے اگر آپ اس میں اپنی مثبت اور پراحساس سوچ کو شامل کر دیں۔ صحیح سوچ کا انتخاب کریں۔ خود کوغلط سوچ کی طرف مائل نہ ہونے دیں۔ مثبت سوچ مثبت نتائج کی عکاسی کرتی ہے۔ صحیح سوچ ہے کیا؟ وہ سوچ جو آپ کویا آپ سے جڑے لوگوں کو خوشی یا فائدہ دے۔ وہ سوچ جو آپ کو یا آپ سے جڑے لوگوں کو پریشانی دے اور نقصان دے تو وہ یقینا منفی یا غلط سوچ ہے۔

سوچ کا مشاہدہ کیسے کیا جائے؟

اپنے ذہن میں تصویری خاکہ بنائیں، جو آپ سوچ رہے ہیں سمجھیں وہ ہو چکا ہے۔ اب غور و فکر کریں کہ ایسا ہونے سے کسی کو یا خود آپ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچتا۔ اگر نہیں تو یقینا آپ کی سوچ صحیح ہے، اگر آپ کو لگے کہ ایسا ہونے کے بعد کچھ غلط نتائج ہو رہے ہیں تو یہی صحیح وقت ہے، آپ اپنی سوچ بدل لیں۔ سوچ کے بدلنے سے آپ کا مستقبل بھی بدل جائے گا۔ یاد رکھیں سوچ ایک مقناطیس کی طرح ہے' اچھی سوچ اچھے نتائج کو اور بری سوچ برے نتائج کو کھینچے گی۔ بناء سوچے سمجھے مت بولیں۔ آپ کے منہ سے نکلا کوئی ایک بھی برا لفظ پورے گھر کو آگ لگا سکتا ہے۔ دیکھئے اس قدر سوچ اہم ہے۔ اسی طرح آپ کے منہ سے نکلا کوئی ایک اچھا لفظ ناجانے کتنے لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا لے۔ مہربان الفاظ دعائے خیر لاتے ہیں۔ کسی کے منہ سے نکلے دو خوبصورت الفاظ بدلے میں سننے والے کئی لوگوں سے دعائیں پاتے ہیں۔ یہ مہربان الفاظ آپ کی سوچ کا شاہکار ہیں۔ یادیں دھندلا جاتی ہیں' تفصیل کھو جاتی ہے' تقاریب بدل جاتی ہیں' اور جذبات بھول جاتے ہیں، خاص طور پر جب آپ انہیں لفظوں میں اتار کر محفوظ نہیں کرتے۔ لکھے ہوئے الفاظ بہت طاقتور ہوتے ہیں۔

مثال آپ کے سامنے ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی بات یا تو تحمل سے سنتے ہیں یا پھر سن کر بھول جاتے ہیں لیکن جب وہ یہ باتیں کسی کتاب سے پڑھتے ہیں تو یہ باتیں ان کے ذہن کے کسی نہ کسی کونے میں بیٹھ جاتی ہیں۔ لکھنے کی عادت ڈالیں۔ اپنی سوچ کو الفاظ کا ذخیرہ بنا کر محفوظ کر لیں۔ الفاظ وہ دوست ہیں جو دشمن کے دل میں بھی گھر کر لیتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ مہربان الفاظ ہوں' خوش آئند اور خوبصورت سانچے میں ڈھلے ہوں۔ چونکہ ہم ایک اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں' وہ اللہ جو ان گنت صلاحیتوں کا واحد مالک ہے تو لہٰذا اس نے اپنی مخلوق کو بھی کچھ صلاحیتیں' کچھ خوبیاں اور کچھ طاقتیںعطا کی ہیں۔ ہم تو بہت چھوٹی سی ناچیز ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کو اپنے بندوں اور دوسری مخلوقات کی صلاحیتوں اور طاقتوں کے ذریعے متعارف کروایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خدائی طاقت سے نوازا ہے۔ یہ طاقت ہمارے وجود کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔ہمیں اس طاقت کا صحیح استعمال سیکھنا ہے۔ اس طاقت سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ ایک بے مثال طاقت ہے۔ یہ خدائی طاقت اگر آپ کی سوچ میں شامل ہو جائے تو کامیابی زیادہ دیر آپ سے دور نہیں بھاگ سکتی۔

پہلا قدم جو آپ اٹھا سکتے ہیں وہ ہے کہ جو بھی آپ کر رہے ہیں اس میں خوشی محسوس کریں۔ ہو سکتا ہے جو کام آپ کر رہے ہوں وہ آپ کو ناپسند ہو لیکن اگر آپ اس کام میںاپنی بھرپور طاقت شامل کر دیں تو یہ یقینا آپ کے لئے خوشی کا باعث بنے گا۔ ان لوگوں کے بارے میں سوچیں جو زندگی اور موت کا کھیل کھیل کر کچھ حاصل کرتے ہیں۔ کیا یہ کھیل ان کے لئے آسان ہے؟ ہرگز نہیں! تو پھر وہ کیسے ایسے کھیل کھیل لیتے ہیں؟ اس کا جواب''خدائی طاقت پر یقین'' ہے۔ گلوکار' اداکار' مصنف اور دوسرے فنکار سب خدا کی رحمت کی بات کرتے ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ تو وہ جس خدائی مدد کی بات کرتے ہیں وہ وہی خدائی طاقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے سب کو عطا کی ہے لیکن فائدہ صرف انہیں پہنچتا ہے جو اس پر یقین رکھ کر اس کا استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ''سوچ'' ایک مشین ہے اور اس مشین کو چلانے کے لئے''احساس'' بٹن ہے یونہی ''خدائی طاقت'' بھی ایک بٹن ہے جو ''کامیابی'' نام کی مشین چلاتا ہے۔ ا گر ہم خدائی طاقت کے متعلق سوچیں اور اسی کے مطابق عمل کریں تو ناکام ہونا بالکل ناممکن ہے۔ لیکن خدائی طاقت صرف سوچ کا سہارا نہیں مانگتی' اسے کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔



خدائی طاقت کو کارکردگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوا میں تیر چھوڑنے سے نشانہ شکار کو زیر نہیں کرتا' ضروری ہے کہ آپ شکار کو ہی عین نشانے میں رکھیں۔ کارکردگی سے مراد صرف کچھ کرنا نہیں بلکہ صحیح طور پر کرنا ہے۔ جب تک آپ متعلقہ کارکردگی نہیں دکھائیں گے' اطمینان حاصل نہیں کر سکیں گے۔ خدائی طاقت کبھی کبھی ہماری منفی سوچ کو خود پر حاوی ہونے دیتی ہے، جس کے باعث جب انسان کسی مقصد کے حصول میںکامیاب یا مسلسل کامیاب ہوتا ہے تو وہ غرور میں مبتلا ہو جاتاہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی منفی سوچ کو بروقت بدلیں۔ خود کو غرور میں مبتلا نہ ہونے دیں۔ اور سوچ کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنا مزاج بدلیں اور مزاج بدلنے کے لئے اطوار بدلنا شرط ہے۔ انسان کی سوچ ہی اس کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔انسان کو ضرورت ہے کہ وہ سوچ کو کنٹرول کرے نہ کہ سوچ اس کو کنٹرول کرے۔ جب انسان خدائی طاقت اور مثبت سوچ سے مالا مال ہو تو کامیابی جیسی منزل زیادہ دور نہیں رہتی۔ ضرورت صرف اپنے اندر جھانکنے' سوچ کومثبت رکھنے' صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے اور کچھ کر دکھانے کا عزم رکھنے کی ہے۔ ''سوچ'' انتہائی اہم عمل ہے جس پر کسی انسان کی زندگی انحصار کرتی ہے۔ چاہے تو زندگی بنا دے اور چاہے تو بگاڑ دے۔ مثبت سوچ، بڑی کامیابی، منفی سوچ، تاعمر ملال۔
سوچ کے اصول کیا اور کتنے ہیں؟

سوچ کے پانچ اصول ہیں، جو کسی بھی چیز کے حصول کے لئے یقینی ہیں۔ ان اصولوں کو محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو مضبوط سوچ' نظم و ضبط' غور وفکر' صبر' مسلسل کوشش اور یقین کی بھی ضرورت ہے اور ان سب کے لئے عمل ضروری ہے، تبھی آپ کامیابی حاصل کر سکیں گے۔

اصول نمبر1:پہلے یہ فیصلہ کریں کہ آپ چاہتے کیا ہیں' اپنی سوچ اور ارادہ واضح رکھیں۔ یقینا آپ بہت کچھ چاہتے ہوں گے۔ جیسا کہ پیسہ' گھر' گاڑی' ترقی' کوئی خاص رشتہ' شادی یا کوئی اور بڑی کامیابی' لیکن ضروری ہے کہ آپ اپنی اس فہرست کواولین ترجیحات کی رو سے تیار کریں۔ سب سے پہلے آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں۔ اپنی ضرورتوں کو آپس میں الجھا کر آپ کچھ بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

اصول نمبر 2:آپ جو چاہتے ہیں اسے ''ہو چکا'' دیکھیں۔ اگر آپ پیرس جانا چاہتے ہیں تو پیرس کی مہر لگا اپنا پاسپورٹ دیکھیں' اگر آپ شادی کرنا چاہتے ہیں تو خود کو اپنی شادی کے لباس میں دیکھیں' اگر آپ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے سر پر وہ ٹوپی دیکھیں جو ڈگری ملنے پر پہنی جاتی ہے' اگر آپ کوکوئی چوٹی سر کرنا چاہتے ہیں تو خود کو اس چوٹی پر کھڑا دیکھیں۔ مختصراً یہ کہ کسی بھی چیز کا آغاز اس تک پہنچنے کے طریقوں سے پہلے دیکھیں۔ ایسا کیوں؟ کیوں کہ اس سے آپ کے حوصلے بلند ہوں گے' آپ کی سوچ آپ کے ارادوں کو مضبوط کر دے گی۔ آپ کے عزم میں پختگی پیدا ہو گی۔

اصول نمبر 3:لڑکھڑائیں مت! جو بھی آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں' جو بھی فیصلہ آپ کر چکے ہیں' اس پر قائم رہیں' وقت اور حالات کے جھٹکوں سے لڑکھڑائیں مت۔ آزمائش ان پر آتی ہیں جن میں کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کریں اور آزمائشوں پر ثابت قدم رہیں۔

اصول نمبر4:''یقین'' رکھنا ضروری ہے! یقین ایمان ہے۔ جیسے علامہ اقبال نے فرمایا:

ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں

کہ المانی سے بھی پائندہ ترنکلا ہے تُورانی

انسان کی ایسی بہت سی خواہشات ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے اسے کوئی راستہ یا وسیلہ نظر نہیں آتا مگر پھر بھی انسان خواہش کرتا ہے کیوں؟ کیوں کہ ''یقین'' ہی راستہ اور وسیلہ ہے۔ خدا پر یقین اور پھر خود پر یقین۔ یہی کافی ہے کسی انسان کے لئے تا عمر خوشحال زندگی کی ضمانت کے طور پر۔

اصول نمبر5:استقامت، استقامت انعام دیتی ہے! ''ایک استقامت سو کرامتوں پر بھاری ہے''۔ سوچ اور فیصلہ دو مشکل عوامل ہیں لیکن اس سے مزید مشکل عمل استقامت ہے۔ یعنی جو آپ نے سوچ لیا اور پھر جس چیز کا فیصلہ کر لیا، اس چیز کو پانے کے لئے اس فیصلے پر قائم رہنا انتہائی اہم ہے اور جب آپ کچھ حاصل کرنے کے لئے کوششیں شروع کر لیں تو پھر ان کوششوںکو برقرار رکھنا اور اپنے حوصلے بلند رکھنا آپ کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا کسی جاندار کے لئے سانس۔

مقبول خبریں