مولانا آ نہیں رہا آ رہے ہیں

وسعت اللہ خان  ہفتہ 2 جنوری 2021

میرا جو بھی سیاسی نظریہ ہو اس سے قطع نظر کبھی یہ چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ میں حضرت مولانا فضل الرحمان مدظلہ کی شخصیت و سیاست کا کتنا بڑا پرستار ہوں۔اس بابت چند برس پہلے بھی میں نے جو لکھا آج بھی اس پر قائم ہوں کہ قبل از مولانا سیاست برائے سیاست ہوا کرتی تھی مگر مولانا نے اسے فائن آرٹ میں بدل دیا اور اب لگ بھگ ہر سیاستداں کشادہ دل مولانا کے حوضِ سیاست سے بقدرِ ظرف بالواسطہ یا بلاواسطہ جتنے جرعے بھر سکتا ہے بھر رہا ہے۔

جب میں کہتا ہوں کہ مولانا نے کھردری سیاست کو فائن آرٹ میں بدل دیا تو یہ کوئی تعلی یا ہوائی یا محض پرستارانہ بات نہیں ہے۔

بقول کسی مہان لکھاری کے دنیا ایک اسٹیج ہے جس پر ہم سب اپنا اپنا طے شدہ کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔اسٹیج پر لگنے والے سیٹ پر ہر ایکٹ اور سین کی ضرورت کے اعتبار سے کچھ اشیا رکھی جاتی ہیں مثلاً میز کرسی ، گلدان، چھڑی ، کتاب، لاٹھی ، برتن وغیرہ۔ان اشیا کو تھیٹر کی زبان میں پروپس کہا جاتا ہے۔پروپس کسی اداکار کو اس کے مخصوص کردار کی ادائیگی ، نشست و برخواست ، چلت پھرت اور حرکات و سکنات میں مدد دینے کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک پروپ بھی کم ہو جائے تو بہت سے اداکار گڑبڑا جاتے ہیں اور تماشائیوں کی فقرے بازی کے نشانے پر آ جاتے ہیں۔

اگر دنیا ایک اسٹیج ہے جس پر زندگی کا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے تو سیاست بھی اس اسٹیج سے باہر نہیں ہو سکتی۔تھیٹر کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ پرفارمنس کے لیے صرف تین چیزیں درکار ہیں۔جگہ یعنی اسٹیج، ایک اداکار اور ایک تماشائی۔

اس تعریف کی روشنی میں اگر دیگران اور مولانا کا موازنہ کیا جائے تو باقیوں میں سے اکثریت کو نہ صرف بنا بنایا اسٹیج ، پروپس بلکہ تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد درکار ہے۔مگر مولانا کی فنی عظمت یہ ہے کہ انھیں صرف اسٹیج درکار ہے۔وہ جب اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں تو الفاظ اور ان کی ادائی پروپس میں بدل جاتے ہیں اور مجمع خود بخود پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اور اسٹیج پر کھڑے باقی کردار ایکسٹراز میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور فضا مولانا آرہا ہے کہ نعروں اور تالیوں سے معمور ہو جاتی ہے۔

مولانا کی فنی عظمت کا تازہ ثبوت یہ ہے کہ وہ تمام فن کار جو پارلیمنٹ کے اسٹیج پر عددی اعتبار سے چھائے ہوئے ہیں۔انھوں نے اس امر کے باوجود کہ مولانا موجودہ پارلیمانی اسٹیج کا حصہ نہیں اپنی قیادت کے لیے مولانا کا انتخاب کیا ہے۔کیونکہ جتنا دینی و دنیاوی تجربہ ، زیرک نگاہ اور فنی باریکیوں کی سمجھ مولانا کے پاس ہے کسی کے پلے نہیں۔

مولانا اس وقت جس اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں اس میں دو بڑی ’’خاندانی جماعتیں‘‘ بھی شامل ہیں۔ کہنے کو دونوں خاندانی جماعتوں کا اقتداری تجربہ اور محلاتی سمجھ کسی بھی جماعت سے زیادہ ہے۔مگر ان میں سے کسی کے پاس مولانا والی بات نہیں۔بظاہر عددی اعتبار سے مولانا کبھی بھی اپنے تئیں اقتدار میں آنے کی پوزیشن میں نہیں رہے مگر مولانا نے ہر دور میں اپنی بھاری بھرکم شخصیت کو اس آخری باٹ کی طرح استعمال کیا جو جس پلڑے میں بھی ڈل جائے اس کا وزن پورا ہو جاتا ہے اور دوسرا پلڑا ہوا میں لہرانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔

یہ ملک گزشتہ پچاس برس سے بالخصوص خاندانی سیاست کا اسیر ہے اور نہ جانے آنے والے کتنے برس تک یونہی رہے۔مولانا کی دوررس نگاہی سے یہ راز کبھی بھی اوجھل نہیں رہا۔اگرچہ مولانا طبعاً نظریاتی شخصیت ہیں مگر سیاست میں چونکہ سکہِ رائج الوقت خاندانیت ہی ہے لہذا بہ امرِمجبوری مولانا کو بھی یہ سکہ استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔

جیسے آپ اپنی جماعت کے مرکزی سربراہ ہیں۔آپ کے بھائی مولانا عطا الرحمان اسی جماعت کے صوبائی (کے پی کے) امیر ہیں۔آپ کے دوسرے بھائی مولانا لطف الرحمان رکن ِصوبائی اسمبلی (کے پی کے) ہیں۔ آپ کے ایک اور بھائی عبید الرحمان جماعت کے ضلعی امیر ( ڈیرہ اسماعیل خان ) اور مہتمم جامعہ شریعہ ڈی آئی خان ہیں۔آپ کے ایک اور بھائی ضیا الرحمان بیوروکریٹ ہیں۔آپ کے صاحبزادے اسعد محمود رکنِ قومی اسمبلی ہیں۔

بہت سے حاسد اس خاندانی انتظام پر چیں بہ جبیں رہتے ہیں۔مگر حاسدوں کا پیٹ صرف جہنم کی آگ ہی بھر سکتی ہے۔ان لوگوں کو یہ ذرا سی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ جتنے بھی نظریاتی و اصولی ہوں۔بازار میں کام تو سکہ رائج الوقت سے ہی چلے گا۔ویسے بھی اول خویش بعد درویش کی کہاوت مولانا نے توایجاد نہیں کی۔یہ تو ہمارے پرکھوں کی دین ہے۔ایسا ریاستی جہاز جس کے بیشتر مسافر خاندانی سیاست کے ہی اسیر ہوں اگر اس جہاز کا کپتان ہی اس سے بے بہرہ ہو اور اسے خاندانی سیاست کی الف ب کا بھی نہ پتہ ہو تو سوچیے اس جہاز کا کیا ہوگا۔

مولانا کے فن ِ سیاست و فضائل پر بہت بات ہو سکتی ہے۔مگر میرا دھیان ایک اور خبر میں بھی جا اٹکا ہے۔مفتی منیب الرحمان کو رویت ہلال کمیٹی کی سربراہی سے تئیس برس بعد سبکدوش کر دیا گیا۔میں سوچ رہا ہوں کہ جس ارسطو نے بھی یہ فیصلہ کیا اس نے کیا سوچ کے کیا۔اگر چاند کروڑوں برس سے چمک رہا ہے تو مفتی صاحب کے تئیس برس کیوں کسی کی آنکھوں میں کھٹک گئے۔اگلے رمضان کا چاند جب مفتی صاحب کو نہیں دیکھ پائے گا تو سوچیے اس پر کیا گذرے گی۔

مگر مفتی صاحب کو یوں اچانک ہٹایا جانا مہنگا پڑے گا۔آپ نے ہٹتے ہی تحریکِ تحفظ مسجد و مدارس کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔آپ نے مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ نے بین الاقوامی طاغوتی قوتوں کے دباؤ پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کو خوش کرنے کے لیے جو قانون سازی کی ہے نیز اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری وقف بل منظور کیا ہے۔ ان دونوں قوانین کی دینی حلقے سختی سے مزاحمت کریں گے۔ہم مدارس اور مذہبی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔جے یو آئی ف کے سیکریٹری   جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی مفتی صاحب کے موقف کی بھرپور تائید کی ہے اور دونوں قوانین کو خلافِ شریعت قرار دیا ہے۔

اگرچہ مفتی صاحب رکنِ پارلیمان نہیں ہیں مگر رکنِ پارلیمان تو مولانا فضل الرحمان بھی نہیں ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ مفتی منیب الرحمان کا تازہ مطالبہ رویت ہلال کمیٹی سے سبکدوشی کا ردِعمل ہے۔ یا مولانا فضل الرحمان کی جانب سے عمران خان کے استعفی کے مطالبے کا تعلق کاروبارِ ریاست سے مولانا کی دوری کے سبب ہے۔حق بات کے لیے کسی کمیٹی یا پارلیمنٹ کا حصہ ہونا ضروری تو نہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔