نئی اشرافیہ کی توقعات

نصرت جاوید  بدھ 1 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم کی طرف سے نوجوانوں کو روزگار کے لیے قرض فراہم کرنے کے منصوبے پر میرا کالم چھپنے کے بعد تین سرکاری عہدے داروں نے فون کے ذریعے مجھے سمجھایا کہ 65لاکھ کے قریب لوگوں نے اس منصوبے کے حوالے سے بنائی درخواستوں کو Downloadیقیناً کیا ہے۔ مگر قرض کے حصول کے لیے ابھی تک صرف پچاس ہزار کے قریب نوجوانوں نے باقاعدہ درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ ان لوگوں کی طرف سے آئی وضاحت نے میری معلومات کو درست تو کردیا لیکن اس منصوبے کے حوالے سے میری پریشانی کو زیادہ سنگین بنادیا۔

قرض ملنے یا نہ ملنے کے امکانات سے کہیں زیادہ ٹھوس اطلاع یہ ہے کہ 65لاکھ کی ایک بھاری تعداد ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی صورت موجود ہے جو کسی نہ کسی صورت اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتی ہے مگر وسائل میسر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ذات میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاسکتی۔ 65لاکھ کے تناظر میں 50ہزار کی تعداد یہ بات بھی واضح کردیتی ہے کہ شاید وزیر اعظم کی طرف سے قرض فراہم کرنے کا منصوبہ کچھ ایسی سخت شرائط کی نذر ہوگیا ہے جو لوگوں کو قرض کے باقاعدہ حصول کی طرف راغب نہیں کرپائیں۔ پاکستان کے Youth Bulgeکا آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کوئی مثبت اور حوصلہ افزا استعمال نہیں ہوپارہا۔

پاکستانی نوجوانوں کی اس ہیبت ناک تعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے بھوربن میں ہونے والی سیفما کانفرنس میں جو دو دن گزارے انھوں نے مجھے مزید پریشان کردیا۔ ملک بھر سے آئے صحافیوں نے یہ دن ملک میں انتہاء پسندی کے بڑھتے ہوئے رحجان کو سمجھنے میں گزاردیے۔ غالباََ ضرورت سے کہیں زیادہ ہم لوگوں نے خود کو بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ اعتراف کرڈالا کہ جیسے میڈیا اور خاص طورپر ہمارے 24/7چینلوں کے مقبول ٹاک شوز انتہاء پسندی کا مقابلہ کرنے کے بجائے اسے کئی حوالوں سے فروغ دے رہے ہیں۔ خود تنقیدی کے جوش میں ہم بالکل بھول گئے کہ فرقہ واریت کئی صدیوں سے مسلم اُمہ کا سب سے بڑا مسئلہ رہی ہے۔ صرف ٹی وی ٹاک شوز کو اس کا ذمے دار قرار دینا بڑی زیادتی کی بات ہے۔

ہمارے لیفٹ اور لبرل حضرات کابڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ برصغیر پاک وہند کی تاریخی حقیقتوں کو پوری طرح تسلیم نہیں کرپاتے۔ حقیقت کچھ بھی رہی ہو مگر ہمارے یہاں کے عام مسلمانوں کی بے پناہ اکثریت کو یقین کی حد تک گمان رہا ہے کہ وہ محمود غزنوی کے بعد سے برصغیر کے ’’حکمران‘‘ رہے ہیں۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے دنوں میں علمائے کرام کا ایک طاقتور گروہ ابھرا جنہوں نے بڑی موثر تحریروں سے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ’’اصل اسلام‘‘ سے دوری کے باعث حکمرانوں سے غلام بن گئے ہیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا تصور شاہ ولی اللہ جیسے افراد نے ایک تحریک کی صورت پھیلا دیا۔ دو قومی نظریہ اس سوچ کا منطقی اظہار تھا۔ قائد اعظم نے اس سوچ کو بڑی ذہانت کے ساتھ سمجھ کر پوری ثابت قدمی کے ذریعے قیام پاکستان کا سبب بنادیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کی جدوجہد کے دوران قائد اعظم سمیت کسی مسلم لیگی رہنماء کو پنجاب کی ایسی خونخوار تقسیم کا اندازہ نہ تھا جو 1947 کے فسادات کے دوران بڑی وحشت اور درندگی کے ساتھ نظر آئی۔

ان فسادات کے فوری بعد کے برسوں میں فضا قراردادِ مقاصد کے لیے پوری طرح تیار ہوچکی تھی۔ اس کے ہوتے ہوئے قائد اعظم کی 11اگست والی تقریر کے حوالے مجھے تو وقت کا ضیاع دکھائی دیتے ہیں۔ بحیثیتِ قوم ہمیں طے تو یہ کرنا ہے کہ پاکستان ایک ’’نظریاتی مملکت‘‘ ہے یا نہیں۔ اگر اس ملک کو نظریاتی ریاست ہی بننا ہے تو ’’اصل اسلام‘‘ کو جاننا بھی بہت ضروری ہے اور یہ سمجھنا بھی کہ ’’اچھا مسلمان‘‘ کون ہے۔ ہمارے لیفٹ/لبرل حضرات ’’نظریاتی مملکت‘‘ کے مقابلے پر کوئی موثر Narrativeنہیں بناپائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں ’’روٹی،کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے کے ساتھ لوگوں کو متحرک کیا تھا۔ مگر اسی ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار میں آکر اسلامی کانفرنس کرانا پڑی اور بالآخر 1974 میں ’’90سالہ مسئلہ‘‘ بھی حل کرنا پڑا۔ بھٹوہی کے دور میں پاکستان تیل سے مالا مال خلیجی عرب ممالک کے قریب آیا۔ ہمارے لاکھوں ہم وطن چھوٹے دیہاتوں اور قصبوں سے وہاں کام کرنے چلے گئے۔ ان کی ذاتی زندگیوں میں زبردست خوش حالی آئی۔ خلیجی ممالک سے اقتصادی حوالوں سے وابستہ ہوجانے کے بعد ہمارے شہروں میں ایک خاص قسم کا متوسط طبقہ پیدا ہوا ہے۔

مصر کے بہت سارے لکھاریوں نے اپنے ملک میں ابھرنے والے اس طبقے کی سوچ کو سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے۔ پاکستان کے محققین نے اس ضمن میں زیادہ کام نہیں کیا۔ خلیجی دولت کے بل بوتے پربنی ’’اشرافیہ‘‘ کی سوچ سے ہم پوری طرح واقف نہیں۔ یہ اشرافیہ اپنے سماجی رویوں میں کافی قدامت پرست ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ وہ پاکستان میں برابری اور مساوات والا معاشرہ بھی بڑی شدت سے دیکھنا چاہتی ہے جو کرپشن سے پاک ہو۔ 2008 کے بعد سے منتخب ہونے والی حکومتیں ہماری نئی اشرافیہ کی توقعات پر پورا نہ اترپائیں۔ ان کے دلوں میں اب روایتی سیاستدانوں اور صرف الیکشن والی جمہوریت کے خلاف غصہ شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری جیسے سیاستدان اسی غصے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف ریلیوں کی صورت ’’نظام بدلنے‘‘ کی کاوشیں کرتے ہوئے رش لے رہے ہیں۔ جوش اور غصے کا ایسی ریلیوں کے ذریعے بس تھوڑا سا کتھارسس ہوجاتا ہے۔ کوئی ایسی صورت ہرگز نہیں بن پارہی جہاں کوئی رہنما یا سیاسی جماعت ایک بھرپور بیانیے کے ذریعے لوگوں کو معاشرے کی عمومی بہتری کی طرف لے جاتی نظر آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔