کشمیر: ایک لمحہ فکریہ

ناصر الدین محمود  جمعـء 5 فروری 2021

عوام سالہا سال سے 5 فروری کو’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ مناتے آئے ہیں۔ قوم کے پیشِ نظر ہمیشہ قائد اعظم کا یہ فرمان رہا ہے کہ’’کشمیر، پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ یعنی کشمیرکا الحاق، پاکستان کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے آنیوالے تمام حکمرانوں نے قائد اعظم کے فرمان کی اطاعت اس طرح کی کہ مسئلہ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا محور بن گیا۔

اس معاملے میں ہم اتنے حساس رہے ہیں کہ پڑوسی ملک بھارت سے ہمارے تعلقات آج تک کشیدہ ہیں۔ تین جنگیں تک لڑی گئیں، جس میں ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا لیکن کشمیر سے دستبرداری توکجا کشمیر موقف پرکمزوری کو بھی ملک وقوم سے غداری جیسا جرم تصورکیا جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ قوم نے اپنی غیرت وحمیت کی خاطر پیٹ بھرکر روٹی کھانے پر ملک کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کو ترجیح دی۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ملک نے ایٹمی طاقت بننے اور جدید ہتھیاروں کے ذریعے دور تک نشانہ بنانیوالے میزائلوں کی صلاحیت حاصل کرلی،جس کا مقصد صرف یہی تھا کہ کشمیر سمیت وطن عزیزکی سلامتی پرکوئی آنچ نہ آسکے۔

پاکستانی عوام نے ہمیشہ اپنے نہتے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ اپنی اخلاقی حمایت جاری رکھی، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے رہے اور بھارت کی جانب سے ان پر ڈھائے جانے والے وحشیانہ مظالم کے خلاف عالمی ضمیرکو بیدار کرنے میں مصروف رہے۔ بدقسمتی سے ہماری قومی سیاسی تاریخ کا دوسرا سیاہ ترین دن 5 اگست 2019 آ گیا یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اب مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے اپنا تسلط قائم کر لیا۔ بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی کی اور انھیں پس پشت ڈالتے ہوئے کشمیرکی متنازع حیثیت کو یک طرفہ طور پر ختم کر دیا۔

بھارت نے اپنے ہی آئین کی آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا، جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کردیا گیا اور کشمیرکو بھارت میں ضم کر کے اس کا ایک حصہ قرار دے دیاگیا۔کشمیر کے بہادر عوام نے بھارت کے اس غیر اخلاقی، غیر قانونی اور یک طرفہ فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے مزاحمت کی تو اس کے نتیجے میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کا طویل ترین کرفیو نافذ کر کے عوام کی زندگی مفلوج کر کے رکھ دی۔ آزادی کشمیر کے جذبے سے سرشار حریت پسندوں کو باغی قرار دے کر انھیں عبرتناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بھارت نے 5 اگست 2019 کو پاکستان کی شہ رگ کاٹ دی اور اس طرح بھارت نے اپنے برسوں پرانے خواب کی تکمیل اور مذموم مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان پر شب خون مارا۔ بھارت نے اپنی مذموم کارروائی پر عالمی ردعمل سے بچنے اور مخالفت سے محفوظ رہنے کے لیے سفارتی سطح پر اس درجہ سرگرمی کا مظاہرہ کیا کہ اقوام متحدہ سمیت ساری دنیا تو ایک طرف، اسلامی ممالک بھی بھارت کے اس جارحانہ اقدام کے خلاف کھل کر اس کی مخالفت کو تیار نہیں ہوئے، لیکن افسوس کہ ہمارے آج کے حکمراں ملک میں سیاسی استحکام اور قومی یکجہتی پیدا کرکے عالمی برادری اور بالخصوص اسلامی ملکوں میں اپنی سفارتی سرگرمیوں کو فروغ دے کر بھارتی عزائم کو خاک میں ملانے کے بجائے اپنی حزب اختلاف کو غدار اور وطن دشمن قرار دے کر اپنے اقتدار کو طول دینے کے مشن میں پوری تندہی سے مصروف ہیں۔

حکمراں اپنی اچھی کارکردگی اور بہترین نظم حکمرانی کی بدولت ملک میں اپنی حمایت میں اضافہ کرنے کے بجائے آج کی اپوزیشن کے رہنماؤں پر انتہائی غلیظ اور شرمناک الزامات لگا کر اسے غیر اہم و متنازع بنانے کے لیے ہر انتہاء پر جانے کو تیار ہیں۔ ہمیں اس مرحلے پر اس امرکا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آخر 72 برسوں سے مسئلہ کشمیر کے اس متنازع معاملہ کو بھارت نے موجودہ دور حکومت میں بزور طاقت، یک طرفہ طور پر از خود قبضہ کرکے حل کرنے کا فیصلہ کیسے کرلیا؟

اور بھارت میں اتنی جرات کیوں کر پیدا ہوئی کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے روگردانی کرتے ہوئے اس حساس اور متنازع معاملے کو یک طرفہ طور پر اپنی مرضی کے مطابق حل کر لے؟ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ موجودہ حکومت نے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے ہی ملک کی سیاسی فضا کو بہت آلودہ کردیا ہے۔

حکومت، ملک میں سیاسی اختلاف کو نفرت اور دشمنی تک پہنچا کر ملک میں سیاسی تناؤ میں بے پناہ اضافہ اور قومی یکجہتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا چکی ہے لہٰذا اتنا بڑا قدم اٹھانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ پاکستان جتنا سیاسی عدم استحکام اور سیاسی تناؤکا شکار آج ہے، ماضی کی مارشل لاء کی حکومتوں میں بھی اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی، شاید اسی بناء پر ہم ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک اس انتہائی حساس معاملے میں اپنے آپ کو عالمی تنہائی کا شکار ہیں اور خود کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط اور ہماری عالمی تنہائی محض ہماری خارجہ پالیسی کی ہی ناکامی نہیں بلکہ یہ ہماری قومی حمیت، غیرت اور وقارکا بھی معاملہ ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے پر پوری قوم متحدومتفق ہے تو پھر فیصلے کی اس گھڑی میں ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی حمایت آخر کیوں نہیں کر رہے؟

5 اگست 2019 کو جب بھارت نے اپنے آئین کی آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیرکی آزاد اور خود مختار حیثیت کو ختم کیا تھا، اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بھارتی اقدام کی حمایت کی تھی لیکن آج کے امریکی صدر جو بائیڈن نے اس وقت بھارت کے اس جارحانہ اقدام کی نا صرف مخالفت کی تھی بلکہ کشمیر کے حوالے سے بہت واضح موقف بھی اختیارکیا تھا اورکشمیر کے مظلوم عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

یہ ہمارے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کا سربراہ پہلے ہی مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط اور وہاں ہونیوالے مظالم سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ لہٰذا موجودہ حکمرانوں کے لیے یہ نادر موقع ہے کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام کے تعطل کے خاتمے کی جانب پیش قدمی کریں اور اپوزیشن کی جماعتوں کی قیادت کو ساتھ ملا کر سفارتی سطح پر ایسی پالیسیاں وضع کریں کہ امریکا اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے بھارت پر اپنے دباؤکو بڑھائے تاکہ پاک، امریکا تعلقات کو نئی جہت ملے اور امریکا،کشمیر کے عوام کو انصاف دلانے میں بھی ایک اہم کردار ادا کرے ،لیکن یہ سب کچھ پاکستان میں پائیدار سیاسی استحکام اور حقیقی جمہوریت کی بدولت ہی ممکن ہے۔

ہمیں اپنی مختصر قومی تاریخ میں ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کا بہت سامان موجود ہے ، شرط صرف یہ کہ ہم کھلے دل ودماغ کے ساتھ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد سقوطِ مقبوضہ کشمیر جیسے قومی سانحات کا ہمیں کیوں سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔