کٹورے پر کٹورا

منصور ریاض  ہفتہ 3 اپريل 2021
حماد اظہر وزیراعظم کی آشیر باد سے حفیظ شیخ کے ’خفیہ نائب‘ کا کردار ادا کر رہے تھے۔ (فوٹو: فائل)

حماد اظہر وزیراعظم کی آشیر باد سے حفیظ شیخ کے ’خفیہ نائب‘ کا کردار ادا کر رہے تھے۔ (فوٹو: فائل)

2002 کے انتحابات تھے اور مشرف کی فوجی حکومت۔ سابق لارڈ میئر اور گورنر پنجاب میاں محمد اظہر شیروانی سلوا کر استری بھی کروا چکے تھے۔ لگتا یہی تھا کہ انتحابات ہوں گے اور اگلے دن میاں اظہر صدر جنرل پرویز مشرف سے وزیراعظم کا حلف اٹھا رہے ہوں گے۔ لیکن انتحابات والے دن میاں اظہر بطور صدر کنگز پارٹی مسلم لیگ ق لاہور کی دونوں سیٹوں پر متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اور ’فٹ بال‘ کے اپنے پرانے حریف حافظ سلمان بٹ سے شکست کھا گئے۔

اوپر والوں کی مہربانی اور چوہدریوں کی اس کارگزری پر جدہ میں بیٹھے ہوئے میاں نواز شریف بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے کہ ’’میاں اظہر کو ہروایا گیا ہے‘‘۔ میاں اظہر جو نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں علم بغاوت بلند کرچکے تھے، مشرف کی آمریت کا ساتھ دینے پر لوٹے ثابت ہوئے یا نہ ہوں، لیکن 2002 انتحابات میں چوہدریوں کے ہاتھوں چاروں شانے چت ہونے پر ’کٹورے‘ ضرور ثابت ہوئے۔

میاں اظہر کو ناکام کرنے کے بعد مشرف دور میں چوہدریوں نے ہمایوں اختر سمیت پنجاب میں ہر ایک کی پیش قدمی ناکام بنائی۔ شکست کے بعد میاں اظہر نے اپنی روایتی سنجیدگی اور خاموشی میں ہی عافیت جانی اور قریب قریب گوشہ نشینی اختیار کرلی۔

شومیٔ قسمت کہ تقریباً بیس برس بعد میاں اظہر کے ہونہار فرزند بیرسٹر حماد اظہر تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے حکومت کے آغاز میں نظر انداز کیے جانے کے بعد اسی حکومت میں درجہ بدرجہ ترقی پاتے ہوئے ملک کے خزانےکی کنجیاں سنبھال چکے ہیں۔ خوش قسمتی سے بیٹا ’’باپ سے بھی گورا‘‘ نکلا۔ اور پاکستان کی سب سے اہم اور امیدوں کی مرکز وزارت سنبھال لی ہے اور سب سے زیادہ چیلنجنگ بھی، کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کو معیشت پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔

تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے کے بعد بیرسٹر حماد اظہر اولین کا بینہ میں شامل نہ ہوئے، حالانکہ وہ تحریک انصاف کی طرف سے ’اصلی‘ لاہور کے واحد رکن اسمبلی، ہونہار، جوان اور بڑی آرائیں برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اور اس عدم توجہ پر حسن نثار نے شروع میں توجہ دلائی اور تنقید بھی کی۔ اس کے بعد حماد ’وزیر مملکت برائے بجٹ تقریر‘ بنائے گئے اور یہیں سے ان کا ستارہ چمکا جب وزیراعظم عمران خان نے ان کی اپوزیشن کے حملوں کے جواب میں مدافعتی اور پرسکون تقریر سنی۔ وہیں سے عمران خان ان کے فین ہوگئے اور چھوٹے وزیر سے بڑے وزیر برائے ریونیو بنائے گئے۔ لیکن حفیظ شیخ نے فوری ریونیو کے معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے حماد کو ایک ’بے ضرر‘ سی معاشی امور کی وزارت تک محدود کردیا۔ بہرحال وزیراعظم کے ’ریڈار‘ پر تو آ ہی چکے تھے، اور جب مسلم لیگ ق نے بطور اتحادی جماعت صنعت و پیداوار کےلیے اپنے جوہر قابل مونس الٰہی کی وزارت پر اصرار کیا، تو عمران خان نے مسلم لیگ ق کو انکار کے بعد اپنے جوہر کو ادھر تعینات کیا۔

حماد اظہر نے بطور وزیر صنعت و پیداوار فیٹف معاملے اور یوٹیلٹی اسٹورز وغیرہ پر محنت تو کی، لیکن کوئی خاطر خواہ کارکردگی اور نتیجہ سامنے نہیں آیا کہ شاید بیرسٹری کا میدان اور ہے، معیشت کا اور۔ البتہ اب اسی حفیظ شیخ سے انھوں نے خزانے کی چابی لے لی، جو ان کو ریونیو کے معاملات سے باہر کرچکے تھے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!

حماد اظہر پچھلے کچھ عرصے سے وزیراعظم کی آشیر باد سے حفیظ شیخ کے ’خفیہ نائب‘ کا کردار تو ادا کر رہے تھے، لیکن پالیسیوں کے تسلسل، آئی ایم ایف کے پروگرام اور اسٹیبلشمنٹ کے اثر کی بدولت اس بات کا بہت کم امکان تھا کہ حفیظ شیخ، حماد کی جگہ تبدیل کردیے جائیں۔

شیخ صاحب پر تمام تر تنقید، عوام کی مہنگائی پر آہ و زاری کے باوجود یہ گیلانی کی واپسی تھی، جنہوں نے سینیٹ انتحابات میں ’ہماری بلی‘ کو شکست دے کر حفیظ شیخ کی پوزیشن کو کمزور کردیا۔ وہی خفیظ شیخ جو انتحابات کے بعد پکے وزیر بننے جارہے تھے، ان کو ’جونیئر اسدعمر‘ سے ہاتھ دھونے پڑے۔

اس کے علاوہ بھی حسب توقع سینیٹ الیکشن کے بعد کابینہ میں ردوبدل کیا گیا ہے، جیسے گوہر کی بجلی کی ’بے کاری کم اداسی‘ کو پٹرول دے کر کام میں لایا گیا ہے۔ تجربات کا سلسلہ تحریک انصاف کی حکومت میں بدستور جاری ہے اور لگتا ہے کہ رہے گا۔ لیکن جب بھی کابینہ میں کوئی بدل یا اِن آؤٹ ہوتا ہے، تو یہی بحث چلتی ہے کہ یہ ’کٹورا‘ اوپر والوں کا ہے یا اندر والوں کا؟

تاہم تحریک انصاف کی حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ ایسے حکومتی معاملات جن پر پہلے سات سات پردے پڑے ہوتے تھے، اب سب کو معلوم ہی ہوتا ہے۔ پتا پتا بوٹا بوٹا، حتیٰ کہ ’گل‘ بھی اب سب جانتا ہے، ہاں لیکن انجان بنا رہتا ہے۔ بہرحال کٹورا اوپر والوں کا ہو یا اندر والوں کا، کارکردگی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا۔

لوٹے کی اہمیت، افادیت اور مقبولیت سے پہلے کٹورے کی بھی حیثیت نمایاں تھی۔ لوٹا گھمانے سے پہلے چور پکڑنے کےلیے کٹورا استعمال کیا جاتا تھا۔ استعاروں، کنایوں اور مزاح میں بھی کٹورے کو اہمیت حاصل تھی، لیکن اس کے بعد چوروں کی تعداد میں اضافے لوٹے کی افادیت اور خاص کر سیاسی لوٹوں نے لوٹے کو استعارے کا حصہ بنادیا اور کٹورا پہیلی تک محدود ہوگیا:
’’کٹورے پر کٹورا۔ بیٹا باپ سے بھی گورا‘‘ جواب: ناریل

منتحب شدہ، ہونہار، حکومت کے صحیح نمائندے، نوجوان ہونے کی بنا پر حماد اظہر سے امیدیں تو بہت وابستہ ہیں کہ وہ نہ صرف تحریک انصاف بلکہ اپنے والد کا ’مشن‘ بھی پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ناتجربہ کاری، معیشت سے نابلدی، حالات کی سنگینی اور حکومت کی جلدبازی کی بدولت اس بات کا امکان کم ہی ہے۔ میاں اظہر کے ہونہار فرزند اور حفیظ شیخ کے متبادل کی گری بظاہر خوش کن ہے لیکن چھلکا وہی ہے۔ فقط کٹورے پر کٹورا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

منصور ریاض

منصور ریاض

بلاگر اردو میں تھوڑا لکھتے اور انگریزی میں زیادہ پڑھتے (پڑتے) ہیں، پڑھا لکھا صرف ٹیکنالوجی جاننے والوں کو سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔