ہماری جنگ رہی ہے، رہے گی باطل سے

سعید پرویز  پير 12 اپريل 2021

اپنے وطن کا حال دیکھتا ہوں تو ماضی قریب کے چند نام یاد آجاتے ہیں۔ ان چند لوگوں نے اپنی خواہشات آزادی کے لیے قربان کردیں۔ پہلا نام بھگت سنگھ کا  ہے،کیا بانکا سجیلا نوجوان تھا ، اس کے گھر میں آزادی کے چراغ جل رہے تھے۔ بھگت سنگھ کا خاندان انگریزی راج کا باغی تھا۔ بھگت سنگھ ابھی بہت چھوٹا تھا ، جب اس نے اپنے چچا سورن سنگھ کو پھانسی گھاٹ میں مرتے دیکھا ، اس کا خاندان غدر پارٹی میں شامل تھا ، وہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔

وہ قابض انگریز کو اپنے وطن ہندوستان سے نکالنا چاہتے تھے۔ انگریزوں کے ہندوستان سے نکل جانے میں بہت بڑا کردار بھگت سنگھ کا ہے، آزادی کا یہ دیوانہ محض 24 سال کی عمر میں پھانسی کے پھندے پر جھول گیا، اس کے ساتھ اس کے دو ساتھی راج گرو اورسکھ دیو بھی پھانسی چڑھ کر امر ہوگئے۔

24 مارچ 1931 بھگت سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں کو پھانسی دینا قرار پائی تھی، مگر پورے ہندوستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاہور میں جمع ہو چکے تھے۔ انگریز نے حالات قابو سے باہر ہوتے دیکھے تو مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے یعنی 23 مارچ کی رات بوسٹل جیل لاہور (موجودہ شادمان ٹاؤن) میں بھگت سنگھ ، سکھ دیو اور راج گروکو پھانسی دے دی ، بعد کو ان شہیدوں کو دریائے ستلج کے کنارے لاشوں کے ٹکڑے کرکے نذرآتش کر دیا۔ 24 مارچ کی صبح لوگوں کو اس اندوہناک صورتحال کا پتا چلا تو ہزاروں لوگ لاہور کی سڑکوں پر نکل آئے ، لاکھوں آنکھیں شعلہ بار تھیں۔ لوگ ستلج کے کنارے پہنچے اور تینوں  کے بچے کچے جسموں کو لاہور لائے اور دریائے راوی کے کنارے ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔

بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھ دیو کی عظیم جدوجہد اور پھانسیاں نہ ہوتیں تو انگریز نے ہندوستان پر اپنا قبضہ جاری رکھنا تھا۔ یہ تینوں اور ان کے ساتھی برصغیر کی آزادی کے لیے جان قربان کردینے والے برصغیر میں رہنے والوں کے محسن ہیں۔ انھی کی وجہ سے ہمیں آزاد ملک پاکستان نصیب ہوا۔ ہندوستان بھی آزاد ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ ’’کالے انگریزوں‘‘ نے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ پاکستان کو دولخت ہی نہیں کیا اس کی رگوں سے جونکوں کی طرح خون چوس چوس کر اسے ادھ موا کردیا اور یہ سلسلہ آج 74 سال بعد بھی جاری ہے۔

پاکستان لاغر ،کمزور، بیماریوں میں گھرا ہوا پڑا ہے اور ’’ کالے انگریز ‘‘ بچا کچا ، رہا سہا بھی نوچ رہے ہیں ، چوس رہے ہیں، بھنبھوڑ رہے ہیں ، ہر چیز تار تار کر رہے ہیں، لوٹ رہے ہیں، کھسوٹ رہے ہیں۔ یہ ’’کالے انگریز‘‘ باقی ماندہ آدھے پاکستان (44 فیصد) کو بھی چٹ کرکے چھوڑیں گے، مگر ’’ات خدا دا ویر‘‘ یوم حساب بہت قریب ہے۔

پاکستان بن گیا تو حیدرآباد دکن کے نواب خاندان کا ایک نوابزادہ حسن ناصر پاکستان آگیا اور کراچی میں مزدوروں کی بستیوں میں رہنے لگا ، جھونپڑیوں میں سوتا ، وہیں لکھتا پڑھتا اور مزدوروں ، محنت کشوں،ہاریوں کسانوں کی فلاح کے خواب بنتا۔ فخر الدین جی ابراہیم بتاتے ہیں کہ بحیثیت وکیل انھوں نے پہلا مقدمہ حسن ناصر اور اس کے ساتھیوں کا لڑا تھا،جوکراچی سینٹرل جیل میں پابند سلاسل تھے۔ حسن ناصر کو اپنا گھر بار ، ماں باپ یاد آتے تھے ، مگر وہ غم انسانیت سے ناتا جوڑ چکا تھا۔

حسن ناصر کی زندگی یہی تھی۔ ’’ خفیہ والے ‘‘ اس کے پیچھے سائے کی طرح لگے رہتے اور ان سے بچنے کے لیے وہ اپنے  ٹھکانے بدلتا رہتا تھا۔ ’’مسافر ہوں یارو / نہ گھر ہے نہ ٹھکانہ / مجھے چلتے جانا ہے/ بس چلتے جانا / یوں ہی چلتے چلتے منزل ایوب کا دور حکومت آگیا۔ ملک میں مارشل لا نافذ ہوگیا اور حسن ناصر پکڑا گیا۔ کراچی کا علاقہ گرومندر جہاں بس اسٹاپ سے اسے خفیہ والوں نے پکڑا اسے سمجھایا کہ ’’ غریبوں کا دکھ درد بھول جا ‘‘ مگر حسن ناصر نے کہا ’’میں نہیں مانتا‘‘ تب حسن ناصر کو لاہور کے قلعے میں پہنچا دیا گیا۔

لاہور کا قلعہ بادشاہوں کی یادگار ، قلعے کی اونچی اونچی مضبوط دیواریں، باغیوں کے لیے یہ جگہ نہایت مناسب تھی۔ حسن ناصر کی مدد کو میاں محمود علی قصوری جو اپنے زمانے کے بڑے جانے مانے وکیل تھے، میدان میں کود پڑے۔ مقدمہ بغاوت چلتا رہا اور قلعہ لاہور کے عقوبت خانے میں ’’ باغی حسن ناصر‘‘ پر ٹارچر جاری رہا ، اور ایک دن قلعہ لاہور کے عقوبت خانے میں اسے مار دیا گیا، شہید کی والدہ اپنے بیٹے کی لاش لینے ہندوستان سے آئی۔ ماں نے لاش کو دیکھا۔ ماں نے کہا ’’یہ میرے بیٹے کی لاش نہیں ہے۔‘‘ماں واپس چلی گئی۔

لاہور میں حسن ناصر کہاں دفن ہے؟ کچھ پتا نہیں۔ بھگت سنگھ کے بعد حسن ناصر نے بھی لاکھوں انسانوں کے دلوں کو آباد کر لیا۔ بھگت سنگھ اور حسن ناصر کی طرح ایک دیوانہ شاعر حبیب جالب تھا۔ حکومت اس سے عاجز رہی۔ نہ اس کے پاس دولت تھی نہ کھیت تھے، نہ مکان تھا، بس لے دے کے اس کی شاعری تھی۔ تو حکومتیں اس کی شاعری کو ضبط کرلیتیں۔ اس شاعر کا کہنا تھا ’’نہ موڑا جھوٹ سے منہ حاکموں نے/ نہ میں سچ بولنے سے باز آیا/ اور آج بھی سیاست دان جھوٹ ہی بولے جا رہے ہیں۔ قتیل شفائی نے ایک بار کہا تھا ’’اوہ یارو! کبھی تو سچ بول دو‘‘ مگر کہاں؟

حسن ناصر کے لیے جالب نے لکھا ’’ ترا لہو ہمیں دیتا ہے یہ پیام کہ ہم/ تمام دہر میں لہرائیں امن کا پرچم/ تجھے نظر میں رکھیں، تیرے راستے پہ چلیں/ سر زمانہ کریں سامراج کا سر خم/ نہ تجھ کو اور نہ تری سوچ کو بھلائیں گے / ترے خیال و نظر کی قسم حسن ناصر/ ترے خیال و نظر کے دیے جلائیں گے/ یہ رہزنوں کی حکومت نئی نہیں یارو/ ہر ایک چہرے سے پردہ ہمیں اٹھانا ہے/ ہماری جنگ رہی ہے، رہے گی باطل سے/ ہمیں دوام ہے‘ ہم کو جہاں پہ چھانا ہے/ ہم آ رہے ہیں، ہم آئیں گے، ہم ہی آئیں گے/ ترے خیال و نظر کی قسم حسن ناصر/ ترے خیال و نظر کے دیے جلائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔