یورپ جھلس رہا ہے

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 6 مئ 2021
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

مغرب اسلام دشمنی کی آگ میں جل رہا ہے، یہ دو چار برس کا قصہ نہیں ہے بلکہ دہائیوں پر مشتمل کئی ابواب کی کہانی ہے تاہم اس کہانی کا جو باب لمحۂ موجود میں جاری ہے اس کا آغاز سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد ہوا۔

جب مغرب کے ایک نہام نہاد دانشور سیموئیل ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب ’’کلیش آف سویلائزیشن‘‘ میں اسلام کو مغرب کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا۔ یہ آگ نائن الیون کے بعد شدت پکڑ گئی۔ رفتہ رفتہ ناپاک جسارتوں کے سلسلے نے زور پکڑا۔ یوں پورے یورپ میں اسلامو فوبیا کی ایک لہر نے جنم لیا اور اس لہر کے اثرات پوری دنیا میں پھیل گئے۔

چند برس قبل پیو ریسرچ سینٹر واشنگٹن ڈی سی نے ایک سروے کیا ، یہ ایک غیر جانبدار امریکی تحقیقی ادارہ ہے، جو معاشرتی مسائل، رائے عامہ اور ریاستہائے متحدہ امریکا اور دنیا کی تشکیل دینے والے آبادی کے رجحانات کے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے نے اپنے ایک سروے میں بتایا تھا کہ اٹلی میں 69فیصد، ہنگری میں 72فیصد ، پولینڈ میں 71فی صد ، برطانیہ میں 9فی صد اور فرانس میں 5فی صد عوام مسلمانوں کے خلاف تحفظات رکھتے ہیں۔ جرمنی میں نسل پرست تحریک پگیڈا اس معاملے میں پیش پیش ہے، جس نے بڑی تیزی سے اپنے قدم جمائے ہیں۔

2014ء میں پگیڈا کو سات ریاستوں میں یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں سات فی صد ووٹ ملے تھے اور اس کے بعد ہونے والے الیکشن میں جرمنی کی سولہ ریاستی پارلیمنٹوں میں سے دس میں اسے نمایاں نمایندگی حاصل ہوئی۔ دوسری طرف ہالینڈ میں گریٹ وایلڈر کی قیادت میں اسلاموفوبیا کا شکار پارٹی پی وی وی حکومتی ایوانوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ گریٹ وایلڈر کا یہ مطالبہ ہے کہ ہالینڈ کے آئین میں ترمیم کر کے مسلم ممالک سے امیگریشن پر مکمل پابندی عائد کردی جائے اور ہالینڈ میں آباد مسلمانوں کی شہریت منسوخ کر کے ان کو ملک بدر کر دیاجائے۔

گریٹ وایلڈر نے انٹرنیشنل فریڈم الائنس کے نام سے عالمی اتحاد منظم کرنے کا اعلان بھی کیا۔ سوئٹزر لینڈ میں گزشتہ سالوں میں برقع اور نقاب پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ رواں دہائی کے آغاز سے پہلے ایک ریفرنڈم میں مساجد کے میناروں کی تعمیر ممنوع قرار دینے کافیصلہ کیا گیا تھا۔ آسٹریا میں اسی لہر کے نتیجہ میں وہاں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کو 46فی صد ووٹ ملے۔ فرانس میں صدارتی انتخاب میں نسل پرست تنظیم نیشنل فرنٹ کی میری لے پین کی کامیابی اور ایمانوئل میکروں کا صدر بننا اسی لہر کا نتیجہ ہے۔

مغرب میںشدت اختیار کرتی اسلاموفوبیا کی لہر کو ہم نظر انداز کرتے رہے۔ فرانس میں توہین آمیز خاکے بنانے کے معاملے پر بجائے اس کے کہ وہاں کی حکومت ایسی ناپاک جسارت کو روکتی اس کے برعکس فرانسیسی صدر ان کے حق میں کھڑا ہوگیا۔

گزشتہ دنوں یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف ایک قرار داد پیش کی گئی ہے جسے 6 کے مقابلے میں 681 ووٹوں سے منظور کیا گیا ہے اس قرار داد میں پاکستان کے بعض قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی آڑ میں شدید تنقید کی گئی ہے۔ معاملہ صرف تنقید تک محدود نہیں بلکہ اس قرار داد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس کی حیثیت پر نظرثانی کی جائے۔

پارلیمنٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اقلیتوں، حقوق انسانی کے سرگرم کارکنوں، مذہبی رواداری اور برداشت کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے۔ یورپی پارلیمنٹ نے وزیر مملکت علی محمد خان کے بیان کی سخت مذمت کی ہے جو انھوں نے تحفظ ناموس رسالت کے حق اور فرانسیسی صدر کے اقدام کے خلاف دیا۔

قرارداد میں یورپی کمیشن اور یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کا جائزہ لے کر یہ طے کرنے کی کوشش کریں کہ آیا عارضی طور پر پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس معطل کیا جا سکتا ہے یا نہیں، اس معاملے پر جلد از جلد یورپی پارلیمنٹ کو مطلع کیا جائے۔ یورپی پارلیمنٹ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں مذہبی عدم برداشت، تشدد اور امتیازی سلوک کا ماحول تیزی سے پھیل رہا ہے۔

قرارداد میں پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ اس کے بعض قوانین حقوق انسانی کے عالمی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے کیونکہ انھیں اقلیتی گروپس کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا حکومت پاکستان ایسے قوانین پر نظرثانی کرے اور انھیں ختم کیا جائے، تاکہ سوچ، ضمیر، مذہب اور اظہار کی آزادی کو ملک بھر میں یقینی بنایا جا سکے۔

یورپ جو خواب دیکھ رہا ہے وہ کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ حکومت پاکستان کو اس قرارداد کے جواب میں فوری طور پر دو کام کرنے چاہئیں، پہلا کام فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے اور یہ مسئلہ وہاں رکھا جائے، او آئی سی کی سطح پر یورپی پارلیمنٹ کو جواب دیا جائے۔

اگر آج او آئی سی اس ایشو پر کھڑا ہونے کو تیار نہیں تو پھر ایسے مردہ گھوڑے کی امت مسلمہ کو قطعی ضرورت نہیں اسے ختم کرکے نیا اتحاد تشکیل دینا چاہیے جس میں ترکی، ملائیشیا اور پاکستان نمایاں کردار ادا کریں۔ دوسرا کام پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے اور اس مسئلے پر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر متفقہ طور پر یورپ کو سخت جواب دیا جائے۔ حکومت نے اس حساس مسئلے پر بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا تو یاد رکھے اس کے دن تھوڑے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔