وہ آدمی
حاذق کی تحریر اور زبان و بیاں میں بڑی کشش ہے۔ اﷲ نے انھیں ایک مخصوص قسم کے حس مزاح Sense of Humour سے نوازا ہے۔
ڈرامہ ادب کی دیگر اصناف سے قدرے مختلف ہے۔ شعر، افسانہ یا ناول کی طرح یہ صرف پڑھنے یا سننے کی چیز نہیں ہے۔ اس میں نظارہ بھی ہے، آواز بھی ہے اور حرکت بھی۔ فنون لطیفہ کی دوسری اصناف کے برعکس اس کی کامیابی کا انحصار کسی ایک فرد واحد پر نہیں۔ اس کی تشکیل اور تکمیل میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کا حصہ ہوتا ہے۔ جب یہ عملی صورت میں اسٹیج پر پیش کیا جاتا ہے تو ہدایت کار، اداکار، سیٹ ڈیزائنر، ملبوسات، سنگھار کے فن سے تعلق رکھنے والے اس کا حصہ بن جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈرامہ اپنا پیغام زیادہ موثر انداز میں دیکھنے والوں تک پہنچاتا ہے۔
ڈرامے کی تعریف کرتے ہوئے ہم مختصر طور پر یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ زندگی کا آئینہ بھی ہے اور نشتر بھی۔ اپنے اسلوب اور تکنیک کے اعتبار سے یہ وہ فن ہے جو زندگی اور ماحول کے منظرنامے میں کرداروں کے توسط سے اپنے جوہر آشکار کرتا ہے۔ قدیم یونان، لاطینی، امریکا، فرانس، اطالیہ، انگلستان، جرمنی، مصر، ایران اور برصغیر میں جو نظریات سامنے آئے ہیں اور وہ سب ہی ڈرامے کی اس تعریف اور تشریح سے متفق نظر آتے ہیں۔ برصغیر میں کالی داس سے لے کر پاکستان میں امتیاز علی تاج اور آج کے معروف ڈرامہ نگاروں تک سب ہی اسے تسلیم کرتے ہیں۔
آج کے دور میں ہمارے ہاں ڈرامے کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اشاعتی ڈرامے، جو عموماً مختصر ہوتے ہیں اور ادبی رسالوں میں شایع ہوتے ہیں۔ فلم اسکرپٹ جو سینما کے لیے ہیں۔ نشری ڈرامے جو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے لکھے جاتے ہیں اور تھیٹر ڈرامے اسٹیج پر کھیلے جاتے ہیں۔ یہی ڈرامے کا اصل مقام ہے۔
ڈرامے کا اطلاق ہر اس صنف ادب پر ہوتا ہے جس کے لفظوں میں گفتار کی متحرک قوت ہو اور کردار میں عمل کی کیفیت موجود ہو۔ ڈرامے کے چند فنی لوازم بھی ہیں جن کے بغیر یہ ایک مکمل شکل اختیار نہیں کرسکتا۔ ان میں پلاٹ یعنی نفس مضمون اور مکالمہ وغیرہ کہانی کو آگے بڑھانے میں تسلسل، تذبذب اور کشمکش کی ضرورت ہے اور جب یہ کشمکش تصادم کی صورت اختیار کرلے تو ڈرامہ نقطہ عروج یعنی Climax تک پہنچ جاتا ہے۔ ہم اب جس دور میں رہتے ہیں اس میں ڈرامہ صرف ٹیلی ویژن کی اسکرین تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
مجھے بہت سے نئے لکھنے والے ملتے رہتے ہیں جو ڈرامہ لکھنا چاہتے ہیں مگر ڈرامے کی گرامر اور فنی لوازمات سے ناواقف ہوتے ہیں۔ میں ان کے شوق اور خواہش کو بخوبی سمجھتا ہوں چونکہ میں خود اس دور سے گزر چکا ہوں۔ ایسے نوجوانوں سے میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ ڈرامہ ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس کے لیے اس کی قواعد اور بنیادی اصولوں کا جاننا بیحد ضروری ہے۔ آپ زیادہ ڈرامے پڑھیں اور ڈراموں کے بارے میں جانیں۔میری اور حاذق الخیری کی دوستی کالج کے زمانے سے ہے۔ اس بات کو اب تقریباً پچاس پچپن سال گزر گئے لہٰذا حفیظ جالندھری کی زبان میں یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
وہ ایک بہت مہذب اور شائستہ مزاج کے انسان ہیں۔ اگر ایک لفظ میں ان کا سراپا بیان کرنا ہوا تو یہ کہنا چاہیے کہ وہ بے حد نستعلیق آدمی ہیں۔ کالج میں وہ مجھ سے شاید ایک سال سینئر تھے اس لیے وہ بے تکلفی جو ہم جماعتوں میں ہوتی ہے میں نے ان سے روا نہ رکھی، البتہ کالج سے فراغت کے بعد ہماری قربت زیادہ ہوتی گئی۔ چونکہ حاذق الخیری کا تعلق بھی شعر و ادب اور ثقافت سے تھا اس لیے گاہے گاہے ملاقاتوں کا سلسلہ رہتا تھا۔ وہ کالج کے زمانے سے افسانے لکھتے تھے۔
ان کی پہلی کہانی سندھ مسلم کالج کی بزم ادب میں سنی، اس کا عنوان تھا ''زینہ زینہ اتر رہی تھی رات''۔ بڑی خوبصورت کہانی تھی، اس کے بعد ماہنامہ ساقی، ماہ نو اور افکار میں ان کے افسانے پڑھتا رہا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ ''گزرتی شب'' بھی شایع ہوا۔ کچھ عرصہ وہ پاکستان رائٹرز گلڈ سے بھی وابستہ رہے جہاں میں پہلے ہی سے موجود تھا۔ حاذق الخیری نے بہت کم لکھا لیکن جو کچھ بھی لکھا بہت خوب لکھا۔ ڈراموں کی حد تک تو ان کی تصانیف کی تعداد صرف تین ہے۔ ''وہ آدمی''، ''دوسری کہانی'' اور ''بندریا کی گود'' ۔۔۔۔ اب ان تینوں ڈراموں کو یکجا کرکے انھوں نے ایک کتاب کی شکل میں شایع کرادیا ہے۔ جس نے بھی ان سے یہ کام کرایا وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔
حاذق الخیری کے یہ ڈرامے سہل سادہ اور شفاف ہیں، ان پر کسی طرح کا تبصرہ کرنا دشوار ہے۔ تنقید کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر ڈرامے کی کہانی میں کوئی قابل ذکر جھول نظر نہیں آتا، نہ کہیں میلو ڈرامہ۔ نہ کسی کی Morbidly ہے۔ کوئی غل غپاڑہ نہیں ہے، چیخ و پکار نہیں ہے۔ سارے کردار تہذیب اور شائستگی کو اپنا شعار سمجھتے ہیں اور ایسی زبان بولتے ہیں جو کسی کے لیے بھی رنجش یا آزردگی کا باعث نہ ہو۔ ہر ڈرامے کی کہانی اپنے مخصوص رفتار سے چلتی ہے اور اختتام تک پہنچتی ہے۔ یقیناً تحریر کی یہ تہذیب حاذق الخیری کو ورثے میں ملی ہے۔
حاذق الخیری کی شخصیت کی طرح ان کی تحریر بھی پاکیزہ اور صاف ستھری ہے۔ کہانی بنانے کا ڈھب انھیں آتا ہے۔ شاید یہ ہنر انھیں ورثے میں ملا ہے چونکہ وہ جس خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں اس میں مرد اور خواتین سب ہی قلم کار ہیں۔ مصور غم علامہ راشد الخیری ان کے دادا تھے جو اردو ادب میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں، ان کے والد رازق الخیری اور والدہ آمنہ نازلی بھی ادبی حوالے سے معروف شخصیات ہیں۔ ان کے چچا صادق الخیری کو بھی میں اس طرح جانتا ہوں کہ جب وہ کراچی سے ایک ادبی مجلہ شایع کرتے تھے تو میرے بڑے بھائی ان کی معاونت کرتے تھے۔ حاذق کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس تو وہ ہیں ہی مگر عدل و انصاف کے شعبے میں بھی ان کا شمار پاکستان کے بڑے قد آور وکیلوں اور نامی گرامی ججوں میں ہوتا ہے۔ شاید جج ہونے کے سبب وہ زیادہ سوشل تو نہیں رہے مگر ادبی، عدالتی اور سیاسی حلقوں میں لوگ بڑی تعداد میں انھیں جانتے ہیں اور ان کا حد درجہ احترام کرتے ہیں۔
حاذق کی تحریر اور زبان و بیاں میں بڑی کشش ہے۔ اﷲ نے انھیں ایک مخصوص قسم کے حس مزاح Sense of Humour سے نوازا ہے۔ شگفتگی، رنگین بیانی اور شعریت ان کے ہاں مدھم انداز میں ہوتی ہے۔ جس سے پڑھنے والے کو ایک خاص تازگی ملتی ہے۔ جہاں ان کے ڈراموں کا تعلق ہے اس کے کردار حقائق پر مبنی ہیں۔ یہ وہی کردار ہیں جو انھوں نے عدالتوں اور کچہریوں میں دیکھے ہیں اور جن سے دن رات ان کا واسطہ رہا ہے۔ عدلیہ سے تعلق رکھنے والے جب ادیب بنتے ہیں تو ان کا ایک خاص وصف ہوتا ہے۔ وہ خواہ جسٹس جاوید اقبال ہوں، رستم کیانی یا حاذق الخیری۔
کتاب کا پہلا اور دوسرا ڈرامہ بڑی حد تک ایک دوسرے سے کچھ ملتے جلتے ہیں۔ کہانی کے اعتبار سے بھی اور کرداروں کے لحاظ سے بھی۔ یہ دونوں انسانی رشتوں کی کہانیاں ہیں۔ جن کے کردار ایک مخصوص مماثلت اور یگانگت رکھتے ہیں۔ ان کرداروں کو نفسیات کی کسوٹی پر پرکھنا ہے یا شاید Neurology اور transplant brain computer-interface کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہر دو ڈراموں میں مرکزی کردار transformation of character کے مراحل سے گزرا ہے۔ صورت حال کچھ ایسی ہے کہ دماغ کسی اور کا ہے اور جسم کسی اور کا۔ یہ بڑی دلچسپ مگر ساتھ ہی انتہائی تشویشناک بات ہے۔ دونوں ڈراموں کے انجام مختلف ہیں، ''وہ آدمی'' میں مرکزی کردار frustrate ہوکر گھر چھوڑ دیتا ہے۔ دوسرا ڈرامہ ''دوسری کہانی'' کا ہیرو عدالت تک پہنچتا ہے اور فیصلے کے بعد واپس اپنے گھر کو لوٹ آتا ہے۔ تیسرا ڈرامہ ''بندریا کی گود'' میرے خیال میں خواتین اور بچوں کو زیادہ پسند آئے گا۔
ان سب ڈراموں کے کردار ہماری زندگی کے عام لوگوں کی طرح ہیں۔ یہ کردار وہی زبان بولتے ہیں جو ہمارے گھروں میں بولی جاتی ہے۔ حاذق کا طرز تحریر بہت شگفتہ ہے۔ پڑھتے ہوئے ذہن پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔ یہ ڈرامے صحت مندانہ تفریح کی اعلیٰ مثال ہیں۔ کہانی بیان کرنے یا سننے کا انداز اتنا سہل اور رواں ہے کہ بلا کسی رکاوٹ کے آپ پڑھتے چلے جائیں، واقعات کرداروں سے مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ایسے ڈراموں کا بنیادی مقصد صحت مند تفریح بہم پہنچانا ہے جس کی اس زمانے میں بہت ضرورت ہے۔ ایسے کھیل دیکھ کر ڈپریشن اور غم زدگی سے شاید کچھ سکون حاصل ہوسکے۔ اس وقت اس کی بہت ضرورت ہے جو ہلکی پھلکی تفریح فراہم کریں جو ذہنی دباؤ سے نکال سکیں۔ میں اپنے دوست حاذق الخیری کو اس کتاب کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔