افغانستان ۔۔۔کورونا کی لپیٹ میں

ایڈیٹوریل  ہفتہ 19 جون 2021
ہلال احمر انٹرنیشنل کے مطابق کورونا کی وبا افغانستان میں بھی پھوٹ پڑی، اسپتال بھر گئے۔فوٹو: سوشل میڈیا

ہلال احمر انٹرنیشنل کے مطابق کورونا کی وبا افغانستان میں بھی پھوٹ پڑی، اسپتال بھر گئے۔فوٹو: سوشل میڈیا

کورونا نے افغانستان کی دہلیز بھی دیکھ لی۔ ہلال احمر انٹرنیشنل کے مطابق کورونا کی وبا افغانستان میں بھی پھوٹ پڑی، اسپتال بھر گئے، جنگ، شورش، غربت اور سیاسی بحران کے باعث افغانستان کثیرجہتی سماجی، صحت کے مسائل اور جنگی خطرات میں محصور ہو گیا۔

میڈیا کے مطابق افغانستان کے تمام جنگ زدہ علاقے کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں، کیسز بڑھتے جا رہے ہیں، بے بسی، افلاس، علاج کی ناکافی سہولیات اور خانہ جنگی کے باعث افغان عوام کی مشکلات ناقابل بیان بتائی جاتی ہیں، صحت کے عالمی ادارہ کے مطابق افغانستان کو فوری امداد کی اشد ضرورت ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی درد ناک سیاسی و سماجی صورتحال نے اب کورونا کی وبا پھیلنے سے خطے کو آتش فشاں بنا دیا ہے، پاکستان کو پیدا شدہ صورتحال میں افغان عوام کی امداد اور کورونا کے سدباب کے لیے غیر معمولی طور پر الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان پر افغانستان امن عمل میں بگاڑ کا الزام لگایا گیا تو وہ ذمے داری نہیں لے گا۔ اسلام آباد میں پاک۔ افغان دوطرفہ مذاکرات کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی اور کور گروپ جلد واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان پوری ایمانداری سے افغان امن عمل کی کامیابی کے لیے تعمیری کردار ادا کر رہا ہے اور ہم پر الزامات لگانے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور پرامن اور پائیدار افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے، افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا، امریکا سمجھتا ہے کہ خطے کے مسائل کا حل پاکستان کی مدد سے ممکن ہے۔

وزیر خارجہ نے ایک بار پھر افغان نائب صدر و قومی سلامتی کے مشیر کے پاکستان کے خلاف بیانات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ الزام تراشی کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے، ایسے بیانات امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر سکتے ہیں، افغانستان کی قیادت اور دیگر پاکستان پر اعتماد کریں اور ماضی کو بھلا کر آگے بڑھیں۔

انھوں نے سرحد پار کرکے افغانستان میں مسائل پیدا کرنے والے عناصر کی پاکستان میں موجودگی کے الزامات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان سرحد پر بہتر نظم و نسق کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا آ رہا ہے لیکن اب ان کی باوقار واپسی کا وقت آ گیا ہے۔

ایک معاصر انگریزی اخبار کے مطابق گزشتہ ماہ افغانستان میں تیزی سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اثرات کی میڈیا نے اطلاع دی، اسپتال بھر گئے ہیں، طبی ضروریات بے پناہ ہیں تاہم سہولتوں کا فقدان ہے، ملک حالت جنگ میں ہے۔

ہلال احمر کے عالمی ذرایع کے مطابق صورتحال تشویشناک ہے، انٹرنیشنل ہلال احمر کے مطابق گزشتہ تین ہفتے میں کورونا کیسز میں اضافہ کی رفتار میں مسلسل اضافہ کی اطلاعات ملیں جس میں بتایا گیا کہ افغانستان کو ایک طرف سیاسی اور داخلی صورتحال کا سامنا ہے۔

ملک ایک ہولناک بحران سے بھی نمٹنے میں مصروف ہے تیسری جانب جنگ بھی ہو رہی ہے، حکومت کورونا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن کیسز تیزی سے رپورٹ ہو رہے ہیں، اسپتالوں میں گنجائش سے زیادہ مریضوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، صحت حکام، عالمی امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ صورتحال سنگین ہو گئی ہے، افغانستان میں شدید غربت ہے، صحت انفرااسٹرکچر کے مسائل بھی بے شمار ہیں، عوام کو شدید مصائب کا سامنا ہے، بڑے اسپتالوں نے کورونا کے نئے مریض بھی لینا بند کر دیے ہیں۔

صحت ماہرین نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ حالات کا سدباب نہ کیا گیا تو افغانستان جو پہلے سے جنگ اور داخلی شورش کے باعث غیر معمولی اور غیر انسانی صورتحال سے دوچار ہے کورونا کے پھوٹ پڑنے سے نئے بحران کا شکار ہو جائے گا، افغان حکام نے عالمی برادری سے ریسکیو آپریشن کی اپیل کی ہے۔

ادھر افغانستان میں فوجی اڈوں پر کنٹرول کے دوران طالبان نے امریکی ہتھیاروں پر قبضہ کر لیا ہے، افغان میڈیا کے مطابق متعدد اضلاع میں جنگ جاری ہے، اہم شہروں کا محاصرہ کر لیا گیا ہے، صوبہ فاریاب میں سابق افغان جنرل عظیمی کے بیٹے سمیت 23 افغان فوجیوں کو ہلاک کیا گیا، غزنی کے فوجی کیمپ میں اترنے والا ہیلی کاپٹر گرا دیا گیا، متعدد افغان فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔

میڈیا کے مطابق افغانستان کے شمالی صوبے سرائے پل دارالحکومت کے سامنے واقع ایک بڑے فوجی اڈے شرکت میدان پر بھی طالبان نے قبضہ کر لیا ہے اور بڑی تعداد میں اسلحہ، ٹینکس اور فوجی گاڑیاں قبضے میں لینے کی اطلاعات ہیں۔

میڈیا نے افغانستان کا جو منظرنامہ بیان کیا ہے اس کے مطابق اگر کورونا کی وبا اور دیگر شواہد یکجا کیے جائیں کہ خطے میں کیا کچھ ہونے والا ہے تو اس کے تصور سے بھی دل لرز کر رہ جاتا ہے، کیونکہ افغان امن عمل کے لیے پاکستان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، لیکن جو صورتحال عالمی قوتوں اور ان کے گٹھ جوڑ سے بننے جا رہی ہے وہ سوالیہ نشان ہے۔

پاکستان کے لیے بنیادی سوال پاک افغان سرحد کی حساسیت اور اہمیت کا ہے، پاک فوج نے پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کے عمل کو سنجیدگی سے لیا، دہشتگردی کے سدباب اور سرحدی علاقے میں نقل و حمل کو روکنے کے لیے اس پٹی کو سیل کرنے کی ضرورت پہلے ہی زیادہ تھی، لیکن پاکستان کی مثبت کوششوں کے باوجود افغان حکام نے پاک افغان بارڈر کو محفوظ کرنے کے تزویراتی تقاضوں پر کوئی سنجیدگی دکھانی چاہی تھی مگر کوئی مثبت رسپانس نہیں ملا، مگر پاکستان نے باڑ کی تنصیب کا کام سخت محنت و جد و جہد سے مکمل کیا۔

افغان حکام نے دوسرے حساس موضوع یعنی افغان مہاجرین کی واپسی میں بھی دوطرفہ کوششوں کو مستقبل کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے پر توجہ نہیں دی، بلیم گیم اور دہشتگردی کی کارروائیوں کے خاتمہ کے لیے پاکستان کی خیر سگالی کا بھی مناسب اور صائب جواب دینے کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے جو اسٹرٹیجی اور گھناؤنی چال چلی ہے اس پر عالمی ماہرین کو سخت حیرت ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کا کون سا فارمولا آزمایا جا رہا ہے، کون سی جلدی تھی کہ جوبائیڈن کو قطر دوحہ مذاکرات بات چیت، جنگ بندی اور معاہدات کی پوری بساط الٹنا پڑی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا خطے میں چین کے محاصرے کے لیے نئے ہم خیالوں کو اکٹھا کرنے کی پلاننگ کر رہا ہے، دوسری جانب تجزیہ کاروں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ طالبان نے افغان مسئلہ کا حل ملٹری آپشن میں تلاش کر لیا ہے۔

بہر کیف ارباب اختیار کو سب سے پہلے پاک افغان بارڈر کی حساسیت پر توجہ دینی چاہیے، یہ درست ہے کہ افغانستان جنگی کیفیت ’وار ہسٹیریا‘ میں ہمیشہ سے مبتلا رہا ہے، مگر پاکستان نے نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کے جتنے مصائب، نقصانات، سیاسی و سفارتی دھچکے سہے اس کی داستان دراز بھی ہے اور دلگداز بھی لیکن ہمارے حکمرانوں کے لیے بیداری کا وقت ہے، ملک میں سیاست کے نام پر چوہے بلی کا جو کھیل جاری ہے، وہ افسوس ناک ہے۔

وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کو افغان ایشو پر پارلیمنٹ میں بیان دینا چاہیے، کوئی تو پالیسی بیان کہیں سے آئے، ملکی سالمیت اور عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے افغان ایشو کو وقت کا اہم چیلنج قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ پر بجٹ اجلاسوں میں گالم گلوچ کے معاملات جلد سے جلد حل ہونے چاہئیں، سیاست میں داخلی ٹھہراؤ، سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اہم فیصلے ہونے چاہئیں، یہ تشویشناک اطلاع ہے کہ عین حالت جنگ میں افغانستان میں کورونا پھیل گیا ہے، کئی اضلاع اور جنگی بیسز پر طالبان کا قبضہ ہے۔

حقیقت کیا ہے، ہمیں عوام کو پارلیمنٹ میں بتانی چاہیے، جب کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کورونا کی روک تھام میں مثالی اقدامات کیے، ویکسین کی فراہمی میں کچھ مشکلات پیدا ہوئی ہیں لیکن یہی وقت ہے کہ سیاسی بلیم گیم ختم ہو، ویکسین کا ٹارگٹ پورا ہو، جمہوری عمل اپنے مفاہمتی ردھم کے ساتھ عوام کو بجٹ کے ثمرات سمیٹنے دے، معیشت کو استحکام ملے، غربت اور مہنگائی ختم ہو، اس تاریخی مصالحت اور مفاہمت کی جھلک ملکی سیاست میں بھی قوم کو نظر آئے، جو نسلی امتیاز کی پالیسیوں کے دور میں جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا نے دکھلائی تھی، ہمارے پارلیمنٹیرینز کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، ایوان کی ایک حرمت ہوتی ہے، منتخب اراکین رول ماڈل ہوتے ہیں، تہذیب و شائستگی ہمارا شعار ہونا چاہیے۔

اصولی بات تو یہی ہے کہ ملکی سیاست خطے کے چیلنجز اور عوام کو درپیش معاشی نصب العین سے ہم آہنگ نہیں ہوگی تو جمہوریت کبھی سرخرو نہیں ہوسکتی، سیاست دانوں کو کثیر جہتی چیلنجز کا سامنا ہے، اتفاق رائے کا کلچر مستحکم ہونا شرط ہے، صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ اسمبلیوں میں جس کلچر کے تذکرے ہوئے، جواب دیجیے ایسا کیوں ہونے دیا گیا، ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، بیان بازی کے مقابلے ہو رہے ہیں، کردار کشی کی سیاسی سیریز جاری ہیں، دھیان رہے کہ افغان صورتحال خراب ہوئی تو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد افغان مہاجرین کی نئی لہر بھی ہماری ہی طرف آئیگی، ملکی معیشت اور کووڈ 19 کے تھمنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں، ان ثمرات کو برباد ہونے سے روکنا ایک اہم ذمے داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔