سندھ کا بجٹ اور شفافیت

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 24 جون 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سندھ کے بجٹ میں کچھ مدوں کے لیے مختص رقوم حکومت کے غیر سنجیدہ رویے اور بد انتظامی کی صورتحال کو آشکارکر رہی ہے۔

سندھ کے بجٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سال 50 ہزار ملازمتیں فراہم کی جائیں گی ، مزدوروں کی کم از کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے اور ٹرانسپورٹ ماس ٹرانزٹ کے لیے 82 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ 250 ڈیزل ہائیبرڈ الیکٹرک بسیں خریدنے کی خوش خبری سنائی گئی ہے اور محکمہ بلدیات کے بجٹ میں 31.3 فیصد کا اضافہ کر کے 10.48 ارب روپے کیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے گزشتہ 12 سال کے کارناموں میں ایک کارنامہ یہ ہے کہ سرکاری آسامیاں فروخت کی جاتی ہیں۔ ان آسامیوں کی فروخت کا معاملہ سندھ حکومت کی پالیسی طے کرنے والے مقتدر قوتوں سے منسلک ہوتا ہے۔ گزشتہ 12 برسوں کے دوران متعدد وزراء، محکموں کے سیکریٹریوں اور دیگر عہدیداروں کے خلاف ملازمتوں کی فروخت کے الزام میں نیب نے ریفرنس داخل کیا۔

سندھ کے محکمہ تعلیم میں امتحان پاس کیے بغیر ہزاروں افراد کو اساتذہ کا درجہ دیا گیا تھا مگر سندھ میں پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کی فنڈنگ کرنے والے عالمی بینک نے جب بغیر ٹیسٹ پاس کیے اساتذہ کے تقرر پر احتجاج کیا اورگرانٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو تعلیم کے متعلقہ وزیرکو رخصت کیا گیا اور کئی ہزار اساتذہ کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا تھا۔ یہ اساتذہ کئی برسوں تک کراچی ، حیدرآباد اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے۔ ان میں سے بہت سو نے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔

ان اساتذہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے تقرری کے حصول کے لیے دو دو لاکھ روپے تک رقم دی ہے۔ سندھ حکومت نے آئی بی اے سکھر سے ٹیسٹ پاس کرنے کی شرط عائد کی، بعض حلقوں نے آئی بی اے سکھرکے ٹیسٹ کے نظام کی شفافیت پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ ختم ہوگئی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے SPSC کے کئی عہدیداروں کو بدعنوانیوں پر نااہل قرار دیا تھا۔ اب سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے تمام فیصلوں کو بدعنوانیوں کے الزامات ثابت ہونے پر کالعدم قرار دیا۔

یہ بھی کہا گیا کہ حکومت سندھ نے مختلف عہدوں پر تقرر کے لیے کوٹہ سسٹم کے قواعد کی خلاف ورزی کی۔ کراچی کے مختلف اضلاع کی ایک سے 15گریڈ کی آسامیاں دیگر اضلاع کو منتقل ہوئیں مگر سندھ حکومت نے 50 ہزار نئی آسامیوں کا اعلان کیا مگر سندھ پبلک سروس کمیشن کو شفاف بنانے اور کوٹہ سسٹم پر مکمل طور پر عمل درآمد کرائے بغیر اور گریڈ 1سے 15گریڈ تک کی تقرریوں کے لیے شفاف نظام وضع کرنے پر خاموشی اختیار کر لی گئی۔

اسی طرح مزدوروں کے لیے کم از کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا مگر اس فیصلہ پر حتمی طور پر پہنچنے کے لیے تاجروں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

ایک سینئر مزدور رہنما کا کہنا ہے کہ سندھ کا محکمہ لیبر کم از کم اجرت کے فیصلہ پر عملدرآمد کا ذمے دار ہے مگر محکمہ لیبر دیگر محکموں کی طرح رشوت اور سفارش کا شکار ہے، یوں گزشتہ سال حکومت نے جب کم از کم اجرت مقرر کی تھی تو اس پر صوبہ بھر میں کہیں عمل درآمد نہیں ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ سندھ سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوٹ مزدوروں کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس ادارہ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کا سربراہ وزیر محنت ہوتا ہے مگر اس ادارہ میں سیکیورٹی کے فرائض انجام دینے والے سیکیورٹی گارڈ کی اجرت 12ہزار روپے  ہے۔

مزدور رہنما ناصر منصور کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہیں ہے۔ حکومت کی سنجیدگی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب محکمہ لیبرکے انسپکٹرز کم ازکم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کے لیے کارخانوں پر جرمانے عائد کریں اور قانون توڑنے والے اداروں کی انتظامیہ کا احتساب ہوگا مگر گزشتہ 12برسوں کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کسی ادارے کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔

سندھ حکومت نے محکمہ ٹرانسپورٹ کے لیے 182 ارب روپے مختص کرنے اور 250ڈیزل ہائیبرڈ الیکٹرک بسیں خریدنے کا فیصلہ کیا۔ سندھ کے سابق وزیر ٹرانسپورٹ سید ناصر شاہ نے کئی سال قبل اعلان کیا تھا کہ 630 کے قریب بسیں سڑکوں پر نظر آئیں گی۔ 2018 میں موصوف نے پھر یہ اعلان کیا تھا کہ جلد ہی ٹرانسپورٹ کی نئی اسکیمیں شروع ہونگی مگر کراچی شہر میں پیپلز پارٹی کے دور میں نہ تو پبلک ٹرانسپورٹ کی کوئی اسکیم شروع ہوئی اور صرف 10بسیں سڑکوں پر چلتی نظر آئیں اور بیچارے ناصر شاہ کو ایک ٹی وی پروگرام میں ندامت کا اظہار کرنا پڑا۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بسوں کے ٹریک اور اورنج لائن اور ریڈ لائن وغیرہ کی تعمیر کی نوید سنائی تھی مگرموجودہ بجٹ  پیش ہونے کے بعد کراچی شہر میں نہ تو بسیںچلائی گئیں نہ کسی نئی لائن کے منصوبہ پر عملدرآمد ہوا۔ وفاقی وزیر حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے الزام لگایا کہ سندھ میں آٹا باقی صوبوں سے زیادہ مہنگا ہے ، مگر حیرت ہے کہ صوبائی وزراء نے اس الزام کی تردید نہیں کی۔

بلاول بھٹو نے وفاق میں مالیاتی کمیشن کی تشکیلِ نو کا مطالبہ کیا ہے مگر ان کی حکومت سندھ میں صوبائی مالیاتی کمیشن قائم کرنے کو تیار نہیں۔ اسی طرح حکومت نے بلدیات کے بجٹ میں 31.43 فیصد تک 10.48 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ سندھ میں بلدیاتی نظام مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ چکا۔ ہرگلی کے کونے پرکوڑے کے ڈھیر اب ٹیلوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ شہر میں گٹرکا پانی سڑکوں پر بہتا ہے اور سیوریج کا پانی، پینے کے پانی سے ملنے کے واقعات عام ہیں۔ خراب بلدیاتی نظام کی بناء پر کتوں کے کاٹنے کے واقعات اور بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنتے جارہے ہیں۔

دنیا کے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز اس بارے میں دستاویزی فلمیں پیش کررہے ہیں۔ بلدیات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے لیے مختص بجٹ کا ایک بڑا حصہ غیر شفافیت کی وجہ سے دسمبر کے بعد سندھ کے میونسپل اداروں کے افسران فنڈز کی عدم دستیابی کا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں۔

بلدیاتی مسائل کا حل میگا میونسپل کارپوریشن نظام ہے جس کو پورے شہر پر بالادستی ہو اور کارپوریشن مکمل طور  پر خود مختار ہوا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت سابق وزیر اعظم  بے نظیر بھٹو کے نئے سوشل کنٹریکٹ کے نظریے کو قبول کرنا نہیں چاہتی۔

سندھ حکومت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کا سب سے بڑا مسئلہ غیر شفافیت کا ہے۔ ہر منصوبہ کے لیے کمیشن لینے ، آسامیوں پر تقرر اور تبادلوں کے لیے رشوتیں لینے کی داستانیں عام ہیں۔ اس دفعہ بجٹ میں مختص رقم شفاف طریقے سے استعمال میں آجائے تو سندھ ترقی کی دوڑ میں دیگر صوبوں سے آگے نکل سکتا ہے مگر ایک سینئر صحافی کہتے ہیں کہ یہ بات ناقابلِ عمل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔