کیا آپ بھی خیالی پلاؤ بناتے ہیں؟

شایان تمثیل  منگل 29 جون 2021
خیالی دنیا میں مستقل رہنے والے عملی طور پر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

خیالی دنیا میں مستقل رہنے والے عملی طور پر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

خیالی پلاؤ… اس مشہور و معروف ڈش کا نام تو یقیناً آپ نے سنا ہی ہوگا، لیکن کیا آپ کو کبھی یہ پلاؤ کھانے کا بھی اتفاق ہوا؟… نہیں! ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ ارے بھئی یہ پلاؤ کوئی کھانے کی چیز تو ہے نہیں، یہ تو محض خیالی ہے، لیکن پھر بھی ہمارے اکثر ساتھی اسے بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ہمارے کئی قارئین بھی خیالی پلاؤ بنانے کے ماہر ہوں۔

ویسے تو خیالی پلاؤ بنانا کوئی زیادہ بری بات نہیں لیکن بسا اوقات یہ معاشرے میں منفی رجحان کی بڑھوتری کا باعث بن سکتی ہے۔ آج کے تیز رفتار معاشرے کی افراتفری، انتشار اور ٹیکنالوجی کی بھرمار نے عام انسان کو منتشرالخیالی کا شکار کردیا ہے۔ حد سے بڑھی حساسیت اور ذہنی دباؤ کی بیماریاں اور کئی قسم کے مسائل انسان کو اپنے گھیرے میں لیے رہتے ہیں۔ ایسے ہی مسائل کا شکار لوگ اکثر خیالوں میں کھوئے رہتے ہیں۔

زیادہ خیالی پلاؤ بنانے والا شخص حقیقی دنیا سے فرار چاہتا ہے۔ ایسے لوگوں کی سوچ کا محور زیادہ تر مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ خوشگوار لمحات اور خوشیوں کا حصول ہوتا ہے۔ وہ حقیقت سے منہ پھیر کر اپنے اپ کو یہ باور کراتے نظر آتے ہیں کہ موجودہ مسائل محض عارضی ہیں اور آنے والے دن ان کےلیے خوشیوں کی نوید لے کر آئیں گے۔ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کی سوچ کا دھارا ہمیں مثبت نظر آئے گا، لیکن تصویر کا دوسرا رخ نہایت بھیانک ہے۔ بے شک مثبت پہلو سوچنا اور دیکھنا اچھا طرزِ عمل ہے، اپنے عارضی مسائل سے چھٹکارا پانے کےلیے وقتی طور پر خوشگوار یادوں کا سہارا لینا بھی غلط نہیں۔ لیکن خیالی پلاؤ بنانے والے ہمیں اکثر خیالی دنیا کی باتیں کرتے ہی نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ بتدریج عملی طور پر ناکارہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ذہنی لڑائی تو خوب لڑتے ہیں لیکن عملی میدان میں ان کا بدن شکستہ حالی کی مثال بن جاتا ہے۔ ان لوگوں کی حیثیت کسی پتھریلے مجسمے سے زیادہ نہیں ہوتی، جو ایک ہی جگہ جما لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنا رہتا ہے لیکن کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر چیز میں اعتدال پسندی کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

کوئی بھی اچھا عمل اس وقت تنقید کا نشانہ بنتا ہے جب وہ اپنی مقررہ حد عبور کرجائے۔ اس دنیا میں ہر شے کی ایک حد مقرر ہے اور اس حد سے تجاوز کرنا اعتدال کے زمرے سے باہر چلا جاتا ہے۔ خیالی پلاؤ بنانے کا یہ عمل بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

اگر کوئی شخص محض وقتی طور پر اپنی کوفت دور کرنے کےلیے سہانے سپنے بُننا شروع کردے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ خیالی دنیا کا باسی ہے، لیکن جب وہ شخص ہمیشہ ان ہی خیالوں میں کھویا رہے تو یقیناً وہ اعتدال کی حد پار کرچکا ہے۔ ایسے شخص کی خیالی دنیا میں موجودگی اس کی ہلاکت کا باعث ہوسکتی ہے۔ جی ہاں! عملی طور پر دنیا سے دور رہنا بھی ایک طرح کی موت ہی ہے۔

خیالی پلاؤ بنانے والے اکثر لوگ ہمیں احساس کمتری کا بھی شکار نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ جو عملی طور پر اپنے آپ کو نااہل محسوس کرتے ہیں، اپنے اندر کوئی خامی پاتے ہیں تو وہ اپنی تشنہ کامی سے نجات کےلیے خیالی دنیا کا سہارا لیتے ہیں اور جو کام وہ حقیقی دنیا میں محض ناکامی کے خوف سے نہیں کرپاتے، وہ خیالی دنیا میں کسی خوف و خطر کے بغیر نہ صرف انجام دیتے ہیں بلکہ اس میں کامیاب بھی ٹھہرتے ہیں۔ خیالی دنیا کے باسی وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو حقیقی دنیا میں کرنے کی اہلیت اپنے اندر نہیں پاتے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی کامیابی و جیت بھی محض خیالی ہی ہے۔

خیالی پلاؤ بنانے والوں سے صرف یہی کہنا ہے کہ آپ کو خیالی پلاؤ بنانا پسند ہے… تو ٹھیک ہے ضرور بنائیے، لیکن ایک بات کا خیال رہے کہ خیالوں کی دنیا میں کھو کر یہ نہ بھول جائیں کہ یہ ایک عملی دور ہے۔ یہاں صرف وہی لوگ کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں جو حقیقی دنیا کی سچائیوں کا سامنے کرتے ہوئے عملی میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دیں۔ اگر آپ خیال کی دنیا میں گھوڑے دوڑاتے ہوئے فلک شگاف چوٹیاں سر کرلیں تو آپ کا یہ خیالی کارنامہ صرف ذہن تک ہی محدود رہے گا، جبکہ حقیقی دنیا کے لوگ آپ کے عملی کاموں کو سراہیں گے۔ تو پھر کیوں نہ آپ اپنے خیالوں میں انجام دیے گئے کارناموں کو حقیقت کا روپ دینے کےلیے عملی جدوجہد کریں اور اپنے سپنوں کی تعبیر پائیں۔ سپنے لازمی دیکھئے لیکن انھیں کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی کیجئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Shayan Tamseel

شایان تمثیل

بلاگر کوچہ صحافت کے پرانے مکین ہیں اور اپنے قلمی نام سے نفسیات وما بعد النفسیات کے موضوعات پر ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ معاشرت، انسانی رویوں اور نفسانی الجھنوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ صحافت اور ٹیچنگ کے علاوہ سوشل ورک میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔