بانی پاکستان کی پیروی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 18 ستمبر 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

آئین کے تحت صدر پاکستان پارلیمانی سال کے آغاز پر اپنی اساسی تقریرکرتے ہیں۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی کے اس دفعہ خطاب کا جب اعلان ہوا تو ایک غیر متوقع صورتحال پید ا ہوئی۔ پہلے صدرکے خطاب کی تاریخ کا اعلان دیر سے ہوا اور پھر تقریرکے اعلان میں تبدیلی ہوئی۔

انھوں نے سہ پہر میں پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے خطاب میں میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے مجوزہ قانون کے تناظر میں قرآنی آیات کے حوالے سے جعلی خبروں کے نقصانات کا ذکرکیا ، مگر صدرکی تقریر تیارکرنے والے زیرک صاحبانِ دانش صدرکی تقریر کے مسودہ میں مجوزہ قانون کی ان شقوں کا حوالہ دینا بھول گئے جن کے نفاذ سے پرنٹ ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر جعلی خبروں (Fake news) کے نشر کرنے اور وائرل کرنے پر قدغن عائد ہوتی ہے۔

صدر عارف علوی کے ساتھ صورتحال یہ ہوئی کہ جب وہ میڈیا کا شکریہ ادا کررہے تھے ، اس وقت پریس گیلری خالی تھی۔ اس اجلاس میں حزب اختلاف کے اراکین آزادی صحافت کے حق میں نعرے لگاتے رہے اور پارلیمنٹ کے باہر سیکڑوں صحافی میڈیا کو پابند زنجیرکرنے کے مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔

پاکستان اور آزادی صحافت کی جدوجہد کی تاریخ بانی پاکستان کی انسانی حقوق کی جدوجہد سے منسلک ہے۔ بیرسٹر محمد علی جناح کی عوامی زندگی (Public Life) کا آغاز ہی آزادی صحافت کی جدوجہد سے ہوا تھا۔ انھوں نے سب سے پہلے ہندو قوم پرست بال گنگا تلک کے اخبارکسیری پر پابندی کا مقدمہ لڑا۔ اخبارکسیری نے مرض طاعون کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے خلاف مہم چلائی  تو حکومت نے اخبارکے ایڈیٹرکوگرفتارکیا اور اخبار پر پابندی عائد کردی گئی۔

بیرسٹر محمد علی جناح نے عدالت میں حکومت کے اس اقدام کو آزادی اظہار رائے کوکچلنے کی کوشش قرار دیا تھا۔ بیرسٹر محمد علی جناح یہ مقدمہ جیت گئے۔ جب انڈین لیجسلیٹو کونسل کی کارروائی الہٰ آباد سے شایع ہونے والے ایک اخبار نے شایع کی تو حکومت نے اخبار بند کر دیا۔ بیرسٹر جناح جب کونسل کے اجلاس میں گئے تو انھوں نے یہ تاریخی اعلان کیا کہ اگر اخبارات کو کونسل کی کارروائی شایع کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو عوام یہ نہیں جان سکیں گے کہ ان کی نمایندگی کرنے والے عوامی نمایندے کیا خدمات انجام دے رہے ہیں، تو اس صورت میں بہتر ہے کہ میں اس کونسل سے مستعفی ہو جاؤں اور پھر جناح صاحب نے کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیاتھا۔

انگریزی اخبار ’’ بمبئی کرانیکل‘‘ اپنے انگریز ایڈیٹر سر ہیورمن کی ہندوستان کی آزادی سے غیر معمولی دلچسپی کی بناء پر آزادی کی تحریکوں کو خصوصی کوریج دیتا تھا۔ بمبئی کرانیکل میں شایع ہونے والی خبروں اور تصاویر کی اشاعت سے حکومت خوفزدہ تھی ، جب متحدہ بنگال میں قحط پڑا تو لاکھوں افراد اس قحط کا شکار ہوئے۔

بمبئی کرانیکل کی قحط بنگال کے بارے میں خصوصی کوریج سے دنیا بھر میں اس سانحہ کا علم ہوا تھا۔ حکومت کے دباؤ پر اخبارکی انتظامیہ نے اپنے ایڈیٹرکو نکال دیا تھا۔ بیرسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں بمبئی کے شہریوں نے ایک مہم شروع کی، جس کے نتیجے میں اخبار کے بورڈ آف ڈائریکٹر مستعفی ہوئے۔ بانی پاکستان کو بورڈ آف ڈائریکٹر کا سربراہ منتخب کیا گیا۔

انھوں نے ایڈیٹرکو بحال کردیا۔ جناح صاحب نے اخبارکی پالیسی میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ جلیانوالہ باغ امر تسر کے قتل عام کی بمبئی کرانیکل میں تفصیلی کوریج ہوئی۔ حکومت نے اخبار پرسنسرشپ عائد کردی اور اخبارکے ایڈیٹرکو ہندوستان بدرکردیا گیا۔ جناح اور ان کی اہلیہ نے پہلی دفعہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے احتجاجی ریلی کی قیادت کی اور یہ اعلان کیا کہ سنسر شدہ اخبار شایع کرنے سے بہتر ہے کہ اس کو بند کردیا جائے۔

بیرسٹر محمد علی جناح نے آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت تمام شہریوں کے لیے یکساں حقوق کے بیانیہ کے ساتھ پاکستان بنایا تو پاکستان کو آزادئ صحافت اور جمہوریت ورثہ میں ملی۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے آزادئ صحافت کی تحریک کا آغاز کیا۔ ایڈیٹروں کی تنظیم کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز نے پی ایف یو جے کے شانہ بشانہ اس جدوجہد کو تقویت دی۔

برسر اقتدار حکومتوں نے پہلے سیفٹی ایکٹ کے سیکیورٹی ایکٹ اور امن و امان کے برطانوی دور کے قوانین کے ذریعہ اخبارات کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی تھی۔ جنرل ایوب خان نے 1959 میں پاکستان پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پاکستان ٹائمز ، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار پر قبضہ کیا۔1960 میں پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس کا اجراء کیا۔ اس قانون کے تحت ڈیکلریشن کے اجراء کو مشکل کیا گیا اور اخبارات پر نئی پابندیاں عائد کی گئیں۔ حکومت نے اعلان کیا کہ اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ ہوگئے۔

اس بناء پر اخباری مالکان ڈیکلریشن کی نئی درخواستیں دیں۔ صحافیوں اور ایڈیٹرزکے احتجاج کے بعد یہ شقیں واپس ہوئیں۔ 1963 میں پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس کا ترمیمی آرڈیننس جاری ہوا۔ اس قانون کے تحت اخبارات سے قومی اورصوبائی اسمبلیوں اور عدالتوں کی رپورٹنگ کا حق چھین لیا گیا ۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اخباری مالکان کی تنظیم اے پی این ایس، ایڈیٹروں کی تنظیم سی پی این ای اور صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے نے مشترکہ جدوجہد کی اور ایک دن پورے ملک میں اخبارات شایع نہیں ہوئے۔ ایوب خان کی حکومت نے مجبوراً اخبارات کی رپورٹنگ کے حق کو بحال کردیا اور باقی پابندیاں موجود رہیں۔ اخباری تنظیموں نے 20سال تک اس قانون کے خلاف جدوجہد کی اور 1988 میں یہ قانون منسوخ ہوا۔

میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قانون ایسٹ انڈیا کمپنی کے نافذکردہ پہلے قانون اور جنرل ایوب خان کے نافذ کردہ پریس اینڈ پبلکیشنزآرڈیننس کا ملغوبہ ہے۔ اس قانون میں اخبارات ، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے لیے لائسنس لازمی قرار پایا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے 1823میں اخبارات کے لیے لائسنس لازمی قرار دیا تھا اور حکومت کو اخبارات پر سنسر لگانے کا اختیار حاصل ہوا تھا۔

اس قانون میں لائسنس کا حصول لازمی قرار دیا گیا ہے اور ہر سال لائسنس کی تجدید لازمی ہوگی، یوں میڈیا میں سرمایہ کاری ختم ہوجائے گی۔ صحافیوں کی طویل جدوجہد کے نتیجہ میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیوز پیپرز ایمپلائز سروس ایکٹ نافذ ہوا تھا۔

اس قانون کے تحت سرکاری ملازمتوں کے ڈھانچہ کی طرح اخبارات ، صحافیوں اورکارکنوں کے لیے سروس اسٹرکچر قائم کیا گیا تھا۔ مجوزہ قانون کے نفاذ کے ساتھ اس قانون کے تحت دیگر قوانین ختم ہوجائیں گے، یوں صحافیوں اور غیر صحافتی عملے کے سروس اسٹرکچر کے خاتمہ کے بعد صحافیوں اور دیگر عملے کو حاصل قانونی تحفظ ختم ہوجائے گا۔

اس قانون میں صحافیوں کو ٹریبونل میں جانے کا حق دیا گیا مگر جب سروس اسٹرکچر ختم ہوجائے گا تو ٹریبونل سے داد رسی کا معاملہ بھی ختم ہوجائے گا۔ صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک ٹریبونل قائم کیا جائے گا جو کروڑوں روپے کے جرمانے عائد کرے گا۔ صحافی داد رسی کے لیے ہائی کورٹ میں رٹ داخل نہیں کرسکیں گے۔

صحافیوں کو اپیل کے ذریعہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ میں اپیلوں کی سماعت برسوں بعد ہوتی ہے۔ یہ مسودہ میڈیا کی صنعت کے لیے ڈیتھ وارنٹ کے مترادف ہے۔ صحافی اس مسودہ کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں، وہ دراصل بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کی پیروی کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔