اب بھی حقائق تسلیم نہیں کیے گئے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 25 ستمبر 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع ہوتے ہی قطرے پلانے والے کارکنوں اور ان کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں کی شہادت کی خبریں آنے لگتی ہیں۔ کوہاٹ سے متصل علاقہ تحصیل شہزادی میں اس مہم کا تیسرا دن تھا۔ پولیو ورکر گھر گھر جا کر بچوں کو قطرے پلانے میں مصروف تھے۔

ایک ٹیم کی حفاظت کے لیے پولیس افسر سید سجاد حسن تعینات تھے۔ یہ ٹیم سڑک کے کنارے خدمت میں مصروف تھی۔ نامعلوم مسلح افراد اچانک نمودار ہوئے اورگولیوں کی بوچھاڑ کردی اور اپنا ’’ مقدس مشن‘‘ پورا کرکے کمین گاہ میں روپوش ہوگئے۔

پولیس حکام نے روایت کے مطابق قاتلوں کی گرفتاری کے لیے احکامات جاری کیے، علاقہ کو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے گھیرے میں لیا۔ ڈی پی او نے ہمیشہ کی طرح دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں کی فوٹیج مل گئی ہے۔ پولیس قاتلوں کو ضرورگرفتارکر لے گی ۔

پاکستان کے ایک انگریزی کے اخبار کے صفحہ اول پر شایع ہونے والی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ 2012سے اب تک پولیو کی مہم کے دوران 40کے قریب ہیلتھ ورکرز اور 16کے قریب پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔

پولیو کے قطرے پلانے کی مہم گزشتہ صدی کے آخری عشرہ میں شروع ہوئی تھی تب سے اب تک اس مہم میں شامل ہیلتھ ورکرز اور پولیس اہلکاروں کی شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب تک سیکڑوں کارکن اور پولیس اہلکار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ ان شہید ہونے والوں میں خواتین ہیلتھ ورکرز میں ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ ادھر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں مسلسل جنگ جیسی صورتحال ہے۔

دہشت گرد حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ بھی اسی حملہ میں فوج کے ایک اعلیٰ افسر کی شہادت کی خبریں آرہی ہیں۔ گزشتہ ماہ جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو کابل سے متصل بلگرام جیل کے دروازے کھول دیے اور وہ تمام مجرم بھی رہا ہو گئے جو آرمی پبلک اسکول پشاور سمیت عبادت گاہوں اور فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث تھے، یوں پاکستان میں جنونی عناصر کی تحریکوں کو تقویت ملی۔

خیبر پختون خوا سے متصل افغانستان کے حالات مسلسل خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ طالبان کے رہنما نے پالیسی بیان میں وضاحت کی کہ امارات اسلامیہ میں مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں ہوگی اور خواتین مختلف شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام نہیں کرسکیں گی۔

گزشتہ روز کابل کے بلدیاتی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ کام پر نہ آئیں اورگھر پر مقید رہیں۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کابل اور دیگر شہروں میں اپنے حقوق کے لیے خواتین نے مظاہرے کیے۔ اب حکام نے ہر قسم کے مظاہروں پر پابندی عائد کردی ہے۔ طالبان نے گزشتہ دنوں کابینہ کا اعلان کیا تھا۔ اس کابینہ میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے۔

اب طالبان حکومت نے خواتین کی وزارت کا نام تبدیل کردیا ہے ، جب بھی پولیو کی ٹیموں پر حملہ ہوتا ہے بے گناہ کارکن اور پولیس اہلکار شہید ہوتے ہیں تو صدر اور وزیر اعظم سمیت صوبائی وزراء اعلیٰ ان حملوں کی مذمت کرتے ہیں اور اعلان کیا جاتا ہے کہ اس دفعہ ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا، پھر اگلے معاملات موخر ہوجاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ان واقعات کے پسِ پشت مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔

تحریک انصاف کی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لینے والے ماہرین کی یہ رائے ہے کہ رجعت پسند مائنڈ سیٹ اعلیٰ سطح پر موجود ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں انتہاپسندی کی لہر افغانستان کے راستہ آئی۔

طالبان کی گزشتہ حکومت میں خواتین کی تعلیم اور زندگی کی دوڑ میں شرکت کو روکنے کے لیے پابندیاں عائد ہوئیں۔ اس دور میں پولیو سمیت مختلف وبائی امراض کے خاتمہ کی کوئی مہم افغانستان میں نہیں چلی۔ یہ منظم پروپیگنڈہ ہوا کہ امریکا اور یورپ پولیو کے قطروں کے ذریعہ لڑکوں کو جنسی طور پر معذور کرنے کی مہم چلا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کی آبادی کم ہوجائے۔

سوات کے ملا فضل اﷲ نے تو فتویٰ دیا تھا کہ وبائی امراض سے بچاؤ کے اقدامات شریعہ کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ملا فضل اﷲ اور ان کے ساتھیوں نے سوات سے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لی، پاکستانی طالبان نے جہاد کا اعلان کیا۔ اس جہاد میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلانے والے براہِ راست نشانہ تھے۔

سعودی منحرف اسامہ بن لادن کی تلاش کے حوالے سے یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ امریکا نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے اسامہ کے محلہ میں رہنے والوں کے ہیپاٹائٹس کے مرض کا پتہ چلانے کے نام پر خون کے قطرے جمع کرانے کی مہم چلائی تھی تو ان رجعت پسندوں کو ایک نیا جواز مل گیا۔

حکومت پاکستان نے جس طرح توہین آمیز کارٹون کے تنازع پر فرانس کے صدرکی مذمت کی تو فرانس سے تعلقات خراب ہوئے۔ اب حکومت  نے کابل پر طالبان کے قبضہ کو غلامی کی زنجیر توڑنے اور آزادی حاصل کرنے کا واقعہ قرار دیا۔

پاکستان نے طالبان حکومت سے بار بار مطالبہ کیا کہ ٹی ٹی پی کے جنونیوں کو پاکستان پر حملوں سے روکا جائے۔ گزشتہ ہفتہ پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت اور پولیو ٹیم کی حفاظت پر معمور پولیس افسروں کی شہادت کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورتحال جوں کی توں ہے۔ گزشتہ اور اس ہفتہ عالمی منظرنامہ پر حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے ہیں۔

پہلے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کا دورہ منسوخ ہوا۔ نیوزی لینڈ کی حکومت نے یہ فیصلہ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل انٹیلی جنس نیٹ ورک کے خبردارکرنے پرکیا۔ برطانیہ نے بھی ایسا ہی فیصلہ کیا۔ برطانیہ کی ٹیم 12 سال بعد پاکستان آرہی تھی۔ اب آسٹریلیا ٹیم کی آمد کے امکانات بہت کم ہیں۔

یورپی اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئی ہیں کہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کو ختم کرنے کی قرارداد پیش کردی گئی ہے۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب مکمل طور پر خارجہ امور میں تنہائی کا شکار ہوگیا ہے، مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ وزیر خارجہ کے بجائے وزیر داخلہ خارجہ پالیسی پر بیان دے رہے ہیں اور نیوزی لینڈ کی حکومت کی مذمت کررہے ہیں۔

وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امریکا کو ہوائی اڈے نہ دینے کی سزا دی جا رہی ہے۔ امریکی اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ انھوں نے کبھی اڈے مانگے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت بیرونی ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے کے بجائے ملک میں موجود رجعت پسند گروہوں کے جذبات کو تسکین دینے کی کوشش کرتی ہے۔

پولیو کی ٹیم پر حملے ، وزیرستان میں مسلسل پاکستانی فوجیوں کی شہادت اور پاکستان کی بین الاقوامی منظرنامہ پر تنہائی کے پیچھے مذہبی انتہاپسندی کا آتش فشاں ہے۔ اب بھی حقائق تسلیم نہ کیے گئے تو پھر کیا ہوگا؟ ضروری ہے کہ پولیو کے قطرے ملک کے تمام بچوں کو پلائے جائیں اور WHO کے اصول کے مطابق تمام احتیاطی تدابیر اختیارکی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔