امن کی خواہش

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 16 فروری 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

نو مسلم برطانوی صحافی مریم ریڈلے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے دورے پر ہیں۔ طالبان کی قید میں ان کے رویے اور اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنیوالی یہ خاتون مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف سب سے پر جوش اور متحرک شخصیت ہیں۔ جیل کا بھوت نامی قیدی نمبر 650 کے متعلق بھی انھوں نے ہی انکشاف کیا تھا کہ یہ قیدی پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر کے حکومت، سیاستدانوں اور عوام کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوششیں کی تھیں۔ اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران بھی پریس کلب، کراچی بار ایسوسی ایشن اور دیگر فورمز سے خطاب کرتے ہوئے حکومت طالبان مذاکرات اور عافیہ صدیقی سے متعلق بڑی فکر انگیز باتیں کی ہیں۔ مذاکرات کے سلسلے میں انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ وہ بیرونی طاقتیں جو پاکستان میں شدت پسندی جاری رکھنا چاہتی ہیں امن عمل کو ڈی ریل کرنے کی پوری کوششیں کریں گی لیکن حکومت اور طالبان کو امن عمل کو سبوتاژ ہونے سے بچانے کے لیے اپنے اعصاب پر قابو رکھنا ہوگا۔

امن عمل بہت پیچیدہ مسئلہ ہے لیکن اس میں اچھی بات یہ ہے کہ فریقین نے ایک دوسرے پر حملوں کے بجائے مذاکرات کا عمل شروع کیا ہے۔ انھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں غنڈہ عناصر کو امن عمل تباہ کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں جو کہ مرکزی طالبان گروپوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ انھوں نے شمالی آئرلینڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دہائیوں کی بغاوت کا خاتمہ ایک امن فارمولے سے ہو گیا، میں نے وہاں بہت برا وقت دیکھا اب وہاں بہترین وقت دیکھ رہی ہوں، آئرلینڈ کے واقعے سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی وزرا عوامی اجتماعات میں ڈاکٹر عافیہ سے متعلق جذباتی بیانات دیتے ہیں، امریکیوں کے سامنے ایک لفظ بھی نہیں کہتے، ان وزرا کو عافیہ سے متعلق شاندار جذباتی اداکاری پر آسکر ایوارڈ دینا چاہیے۔ اس نو مسلم اور نو وارد غیر ملکی خاتون کے اسلام اور پاکستان اور افغانستان سے متعلق جذبات، مشاہدات اور تجزیے لائق تحسین اور قابل غور ہیں اور اس کی دانشورانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔

حکومت طالبان مذاکرات پر ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے کچھ لوگ اس سے ناامید نظر آتے ہیں لیکن وقت گزارنے کی حکومتی تدبیر سے تعبیر کر رہے ہیں، کچھ لوگ ان مذاکرات کے شدت سے مخالف ہیں، دوسری جانب ایک طبقہ پرامید ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی مثبت پہلو ضرور نکلے گا اور قیام امن میں مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں ایک طبقہ طالبان کی شدت پسندی کا جواز پیش کر کے مذاکرات کی ناکامی کا دعویٰ کر رہا ہے تو دوسرا طبقہ ماضی میں ہونے والے امن معاہدات میں حکومت کی عہد شکنی اور امریکی جارحیت کو مثال بنا کر مذاکرات کی ناکامی کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں مذاکرات اور امن معاہدے کے سلسلے میں ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ایک غل غپاڑہ مچا ہوا ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی، منشا، ترجیحات، سیاسی، مذہبی، لسانی اور نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر اپنی عقلی اختراع، دروغ گوئی و مبالغہ آرائی کے ذریعے عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔

مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی میں یہ عناصر فریقین اور بیرونی طاقتوں سے زیادہ کارگر ثابت ہو سکتے ہیں لہٰذا امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ٹی وی چینلز پر امن مذاکرات کے دوران اس قسم کی عوامی بحث سے اجتناب برتا جائے جن سے امن کوششوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم نے کہا ہے کہ دوران ملاقات طالبان نے انتہائی مثبت و حوصلہ افزا جواب دیا ہے تاہم اس مرحلے پر ان کی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی جا سکتی ہیں، مسئلے کی حساسیت کی وجہ سے ہر چیز میڈیا کے سامنے بیان نہیں کی جا سکتی، اس سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے بالکل صحیح کہا ہے کہ یہ وقت کسی سیاست بازی، پوائنٹ اسکورنگ، نئے نئے سوالات اور خدشات اٹھا کر بحث و مباحثوں میں الجھنے کا نہیں ہے بلکہ پوری قوم اور ملک کے انسانوں کی جانوں کے تحفظ کا ہے، ہر پاکستانی کا فریضہ ہے کہ استعماری قوتوں اور بین الاقوامی طاقتوں کی لگائی اس آگ نمرود کو بجھانے میں اپنا حصہ ڈالیں یہ نہیں کہ اسے پھونکے مار کر مزید بھڑکا دیں۔

حکومت اور طالبان کی جانب سے جو کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں با اختیار نہیں بلکہ پیغام رسانی کی حد تک کردار ادا کر رہی ہیں، اسی لیے طالبان کی ثالثی کمیٹی نے وزیر اعظم، فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اب تک حکومتی و طالبان کمیٹیوں کی جانب سے مذاکرات کے سلسلے میں جو پیش رفت، خوش دلی افہام و تفہیم کی خبریں سامنے آئی ہیں وہ خوش کن اور امید افزا ہیں  فریقین ہٹ دھرمی و ضد کے بجائے نرم خوئی اور لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں دونوں نے ایک دوسرے کے رویوں کی تعریف بھی کی ہے، اگر مذاکراتی عمل کی یہی فضا رہی تو کسی مثبت نتیجے کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس موقعے پر امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنیوالی قوتوں سے ہوشیار رہنا بہت ضروری ہے، مذاکرات کو ناکام بنانا امریکا اور اس کی آلہ کار لابیوں کی اولین ترجیح ہے۔ ماضی میں مذاکراتی عمل اور معاہدوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکا قبائلی علاقوں پر ڈرون حملہ کرتا رہا ہے۔ نیک محمد، ولی الرحمن محسود اور حکیم اﷲ محسود کو ایسے وقت پر نشانہ بنایا گیا جب انھوں نے حکومت سے معاہدہ کیا تھا۔ حکیم اﷲ محسود کو ڈرون کا نشانہ بنانے پر تو وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی امریکا پر سخت الفاظ میں تنقید کی تھی۔

حالیہ مذاکرات کے دوران بھی آٹھ گھنٹے امریکی ڈرونز کی پروازیں جاری رہیں، جس کے باعث مذاکراتی کمیٹیوں کو بار بار مذاکرات کے مقام کو تبدیل کرنا پڑا جس کے باعث مذاکرات میں تاخیر ہوئی۔ اس پر بھی چوہدری نثار کا محتاط ردعمل سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا پاکستان دشمنی کے مترادف ہو گا۔ ایک طرف ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز فرما رہے ہیں کہ حکومت پر طالبان مذاکرات کے سلسلے میں کوئی بیرونی دباؤ نہیں ہے دوسری جانب زمینی حقائق کچھ اور نظر آ رہے ہیں۔ طالبان حکومت مذاکرات اور قیام امن کی کوششوں کا ٹاسک کوئی معمولی ہدف نہیں ہے اس سلسلے میں حکومت کو تن تنہا متحارب عسکری گروہوں، سازشی عناصر اور بیرونی آلہ کار قوتوں سے پنجہ آزمائی کرنا ہو گی، ان تمام قوتوں کو شکست دے کر ہی قیام امن کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم حکومت کا طرز عمل ہو گا کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں لیکن ناکامی حکومت کے کھاتے میں ہی آئے گی جیسا کہ ماضی میں پرویز مشرف اور آصف زرداری کی حکومتوں کے حصہ میں آئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔