کراچی کے ماہی گیروں کے ہاتھ نایاب مچھلی لگ گئی

آفتاب خان  منگل 1 مارچ 2022
یہ شارک پاکستان کے ساحل سے لے کر 800 میٹرز کی دوری تک گہرے سمندر میں پائی جاتی ہے (فوٹو، ایکسپریس)

یہ شارک پاکستان کے ساحل سے لے کر 800 میٹرز کی دوری تک گہرے سمندر میں پائی جاتی ہے (فوٹو، ایکسپریس)

 کراچی: کنڈ ملیر کے سمندر میں ماہی گیروں نے شکار کے دوران 5 من وزنی بگ نوز نامی شارک مچھلی پکڑ لی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق بحیرہ عرب کے کنڈ ملیر سے جڑی سمندری حدود سے تقریباً دو سو کلو گرام وزنی شارک مچھلی ماہی گروں کے ہاتھ لگی۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف (پاکستان) کے تکنیکی مشیر معظم خان نے بتایا کہ کئی سالوں کے بعد اتنی بڑی  شارک مچھلی سمندر میں نمودار ہوئی، ماہی گیروں کو شکار کے دوران ملنے والی بھاری بھرکم مچھلی بگ نوز شارک نسل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا سائنٹیفک نام کارکیرنس آلٹی مس ہے، یہ شارک پاکستانی ساحل سے لے کر 800 میٹرز کی دوری تک گہرے سمندر میں پائی جاتی ہے، یہ سمندر کی تہہ میں رہنے والی مچھلی ہے، پوری دنیا کے گرم اور ٹروپیکل واٹرز اس کا مسکن ہیں، جن میں بحراوقیانوس، بحرالکاہل اور بحرہند شامل ہیں۔

معظم خان کا کہنا ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ لمبائی 3 میٹرز کے قریب ہوتی ہے، عموماً یہ 13 بچے دیتی ہیں جبکہ اوسط بچوں کی تعداد 9 ہے، شارک کی اس قسم کو سندھی میں ہام اور بلوچی میں جگڑی ہام کہا جاتا ہے، اسے عالمی سطح پر خطرے سے دوچار  سمجھا جاتا ہے، آئی یو سی این نے بھی دنیا میں اس کو معدوم ہوتی مچھلی قراردیا۔

تکنیکی مشیر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں اس کے شکار پر کوئی پابندی نہیں، تاہم اس کی معدومیت کے پیش نظر دنیا بھر میں اس کے تحفظ کے لیے اقدامات کے حوالے سے عالمی سطح پر تقاضا کیا جارہا ہے، بگ نوز شارک کا گوشت مقامی طور پر کھایا جاتا ہے اور پنکھ ہانگ کانگ کو برآمد کیا جاتا ہے، اس شارک کے جگر کا تیل کشتیوں کے پیندے میں استعمال کیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔