کیا نج کاری ہی واحد حل ہے؟

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعـء 21 فروری 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کے پاس چند ایک ٹیکسٹائل ملز کے علاوہ کوئی قابل ذکر صنعتی سیکٹر نہیں تھا پھر لیاقت علی خان کے دور سے لے کر یحییٰ خان کے دور تک بہت سے صنعتی اور فولاد ساز اداروں کا قیام عمل میں آیا اور ان کے معاہدات ہوئے جس کے تحت واہ فیکٹری سے لے کر پاکستان اسٹیل ملز جیسے دیوہیکل صنعتی اداروں کا قیام عمل میں آیا مگر اس کے ساتھ ہی لوٹ مار، کرپشن اور ارتکاز دولت کا سلسلہ بھی تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔ 22خاندانوں کی تعداد بائیس سو خاندانوں سے بھی آگے بڑھ گئی۔ سوویت یونین کے زوال کے ساتھ ہی سرمایہ داری کمیونزم پر غالب آگئی۔ محنت کشوں کے حقوق، یونین سرگرمیاں اور اس کی جدوجہد پر قدغنیں عائد ہوتی گئیں ان کے حقوق کے خلاف قانون سازی بھی ہوتی گئی اور ان پر ریاستی جبر و تسلط کا سلسلہ بھی بڑھتا گیا نتیجتاً طلبا یونینز کی طرح عملی طور پر ٹریڈ یونینز کا کردار اور وجود بھی ختم یا معطل ہوکر رہ گیا اب ان کی حیثیت علامتی قسم کی رہ گئی ہے جن سے کچھ سیاسی عناصر تو ذاتی یا گروہی فائدہ حاصل کرلینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن محنت کشوں کے مجموعی مفادات کا تحفظ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔

بین الاقوامی طور پر صنعت و تجارت کا سرکاری تحویل میں کام کرنے کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے، اس رجحان نے سب سے زیادہ متاثر اور تباہ کن صورت حال سے پاکستان کو دوچار کیا ہے جہاں اداروں کی بحالی، بیمار اور خسارہ زدہ اداروں کی نج کاری Economic Drive اور Restructuring جیسی اصطلاحات استعمال کرکے بددیانتی اور گھپلے بازی سے ملکی منافع بخش اداروں کو کوڑیوں کے دام نجی و غیر ملکی کمپنیوں کو فروخت کرکے ملک کے خزانے کو نقصان پہنچایا گیا اور اس کے مستقبل کو گروی رکھ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے آج پاکستان اقتصادی اور بالخصوص توانائی کے بحران میں مبتلا ہے۔ گھر کے چولہوں سے لے کر کارخانوں کی بھٹیاں اور لومیں تک بند ہونے کی نوبت آگئی ہے۔ صنعتکار سے لے کر مزدور اور عام شہری تک بری طرح متاثر ہیں۔ پیداواری لاگت میں اضافہ، برآمدی ہدف میں ناکامی، لاکھوں مزدوروں کی بیروزگاری، صنعتوں کی بندش کی وجہ سے ملک سے سرمایہ اور صنعتوں کی منتقلی اور برین ڈرین اور اسکل ڈرین کا سلسلہ جاری ہے۔ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشین بینک جیسے سامراجی ممالک کے ایجنٹ ادارے ہم جیسے غریب ممالک پر اجارہ داری اور بالادستی قائم رکھنے کے لیے اپنی پالیسیوں کے ذریعے پہلے تو قرضوں کے جال میں پھنساتے ہیں، پھر ان سے من مانے اقدامات کراتے ہیں، قومی اداروں کی نج کاری کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ کوڑیوں کے مول اپنی پسندیدہ شرائط پر قومی ادارے خریدنے والی غیر ملکی کمپنیاں اور ادارے ملکی معیشت پر حاوی اور پالیسیوں پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔

ماضی میں پیپکو 5 کروڑ میں، پاک عرب فرٹیلائزر صرف  13 ارب میں اور عظیم تر اسٹیل ملز کو 22 ارب میں بیچا گیا اور تمام اختیارات ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں میں دے دیے گئے۔ اگر سپریم کورٹ کارروائی نہ کرتی تو صنعتی ٹائی ٹینک اسٹیل ملز بھی قومی افق سے غائب ہوچکا ہوتا۔ تیل اور سی این جی گیس کی قیمتوں کے تعین میں بھی سپریم کورٹ نے ہی حکومت کو من مانی ظالمانہ کارروائیوں سے روکا اور جہاں میگا کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں علاوہ ازیں سول سوسائٹی اور میڈیا پر بھی بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اس سلسلے میں اپنا قومی کردار ادا کریں۔ قومی اثاثوں کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرنیوالی سیاسی بیوروکریسی اور جاگیردار طبقے نے بیمار صنعتوں کو فروخت کرنے کی بجائے بینکوں اور اسٹیل ملز جیسے منافع بخش یا قومی نوعیت کے حامل حساس اداروں پر شب خون مارا۔ عظیم فولاد ساز ادارہ پاکستان اسٹیل کو دانستہ طور پر تباہ کیا گیا۔ ہر دور میں سیاسی و سرکاری لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم رکھا گیا، پھر قومی خزانے کو 6 ارب سالانہ ریونیو دینے والے اس ادارے کو محض 22 ارب میں فروغ کیا گیا، وہ بھی ادھار قیمت پر۔

ایسا ادارہ جو 40 مربع کلومیٹر کے بیش قیمت صنعتی زون کی زمین پر واقع ہے، جہاں 4 ہزار مکانوں پر مشتمل اسٹیل ٹاؤن، 7 ہزار سے زائد مکانوں پر مشتمل گلشن حدید، نصف صد سے زائد فائیو اسٹار گیسٹ رومز ہیں، فروٹ فارم، ہارٹیکلچر ڈپارٹمنٹ، 100 بستروں کا اسپتال، اسپورٹس اسٹیڈیمز، سپر آسٹرو ٹرف سے مزین ہاکی کلب، قائداعظم پارک، کیڈٹ کالج ودیگر ڈگری کالجز، ڈپلومہ اور ڈگری کرانے والا میٹلرجیکل ٹریننگ سینٹر، آڈیٹوریمز، میٹھے پانی کی نہر، اپنا بجلی گھر جو ماضی میں KESC کو بھی بجلی فراہم کرتا تھا، اس کا ہزاروں گاڑیوں پر مشتمل ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ ہے اپنا بڑا ریلوے نظام، پورٹ بن قاسم پر اپنی برتھیں، ایشیا کے سب سے بڑے ان لوڈرز اور طویل ترین کنویر بیلٹ الغرض یہ ادارہ ایک چھوٹے سے مکمل شہر کی مانند ہے جس کو اس کے دیوہیکل کارخانوں، دیگر جائیداد اربوں روپوں کی تیار پروڈکٹس اور خام مال کے ساتھ 22 ارب میں کچھ نقد کچھ ادھار کی صورت میں فروخت کرنے کی کوششیں کی گئیں، اس گھپلا بازی کے سودے کو سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا تھا۔ بنا سوچے سمجھے اور ترجیحات کا تعین کیے ماضی بعید کی نیشنلائزیشن پالیسی اور اس کے بعد تاحال جاری پرائیویٹائزیشن پالیسی کے تباہ کن نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اس قسم کے اقدامات کرتے وقت قومی ترجیحات اور مفادات کو مدنظر رکھا جانا چاہیے اور اس عمل میں صرف دیانتدار، اہل اور ہائی پروفیشلز کو ہی شامل کیا جانا چاہیے، ایسے افراد کی قلت تو ہوسکتی ہے لیکن یہ نایاب نہیں ہیں۔

حکومت کو قومی خزانے پر سالانہ 500 ارب کا بوجھ بننے والے خسارہ زدہ اداروں کے لیے نج کاری کے واحد آپشن پر عمل کرنے سے پہلے دیگر متبادل آپشنز کو بھی زیر غور لانا چاہیے کہ اس کے ملکی معیشت اور مستقبل پر پڑنے والے دوررس اثرات اور مضمرات کیا ہوں گے پھر اگر اداروں کی نج کاری کی ضرورت محسوس بھی کی جائے تو ان کی غیر منقولہ جائیدادیں فروخت نہ کی جائیں، ملازمین کی بیروزگاری یا جبری ریٹائرمنٹ کی اسکیموں سے اجتناب برتا جائے۔ اس سلسلے میں تحریری یقین دہانی اور معاہدے کیے جائیں اور نج کاری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ اداروں کی نج کاری کے بجائے انھیں پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے چلانے کی حکمت عملی کا جائزہ بھی لیا جائے جیساکہ لاکھڑا پاور پلانٹ کی نج کاری کے سلسلے میں حکومت سندھ نے تجویز کیا ہے۔ وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل اور ایوان ہائے صنعت و تجارت سے خطابات کے دوران نج کاری سے متعلق کہا ہے کہ حکومت کے پاس سرکاری اداروں کے نقصانات برداشت کرنے کے بڑے محدود وسائل ہیں، سابقہ ادوار میں غیر ضروری بھرتیوں اور بدعنوانیوں کے سبب سرکاری اداروں میں بدانتظامی و کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہے۔

ملک کے بہترین مفاد میں ان کی نج کاری واحد حل ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے قومی اداروں کی نج کاری کو قومی مفاد میں واحد حل قرار دیا جانا قابل بحث و تمحیص ہے، ملکی اداروں اور معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کو دیگر پہلوؤں پر بھی غوروخوض کرلینا چاہیے، مثلاً سرکاری اداروں کو پرائیویٹ پارٹنرشپ سے چلایا جائے، غیر ملکی اداروں اور سرمایہ کاروں کو مشترکہ منصوبوں کی ترغیب دی جائے، ڈیمز اور متنازعہ ڈیمز پر اتفاق رائے قائم کیا جائے، قدرتی وسائل اور افرادی قوت کو صحیح طور پر استعمال میں لایا جائے، سائنس و ٹیکنالوجی کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جائے، ناقابل استعمال اراضی کو زیر کاشت لایا جائے، ٹیکس سسٹم کو بہتر بنایا جائے اور میرٹ کے قیام اور قومی اداروں میں سیاسی مداخلت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی مربوط و دائمی پالیسی کا نفاذ کرکے قومی اداروں اور معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششیں کی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔