زبردست یارکر سے تین وکٹیں

شکیل فاروقی  منگل 5 اپريل 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

یہ کالم یکم اپریل کو تحریر کیا جارہا ہے یہ وہ تاریخ ہے جو لوگوں کو اپریل فول بنانے کے حوالہ سے پہچانی جاتی ہے، ہمیں اپنے بچپن کا وہ زمانہ یاد آرہا ہے جب لوگ ایک دوسرے کو طرح طرح سے بیوقوف بنا کر مزے لیا کرتے تھے۔

ہماری نئی نسل اِس بدعت سے ناواقف ہے لیکن ہماری لیڈرشِپ شاید اِسی روایت یا بدعت کی پیروی کرنے میں مصروف ہے جس کا ہدف اب ہمارے عوام ہیں جو پے در پے دھوکے پر دھوکا کھا رہے ہیں۔ کبھی بنیادی جمہوریت کے نام پر تو کبھی مغربی جمہوریت کے نام پر تو کبھی کسی اور نام پر’’پاکستان اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پہ کھڑا ہے۔‘‘

یہ جملہ سنتے سنتے عوام کے کان پک چکے ہیں لیکن یہ موڑ وقفہ وقفہ کے بعد جوں کا توں موجود ہے۔چہرے بدلتے رہتے ہیں مگر تماشہ وہی رہتا ہے ہر گائیک اپنی اپنی دھن میں گا کر چلا جاتا ہے اور بھولے بھالے عوام تماشائی بن کر تکتے رہ جاتے ہیں سو اِس وقت بھی عوام کے سامنے ایک سیاسی ڈرامہ اسکرین پر چل رہا ہے جس کے حوالے سے لمحہ موجود میں صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ:

یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سِین

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

اِس ڈرامہ کا نام ہے تحریک ِ عدم اعتماد ۔ یاد دہانی کے طور پر ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے صرف یہ عرض کردینے کی جسارت کروں گا کہ ہم ایک ایسے ہی بھیانک ڈرامہ کے نتیجہ میں 1971 میں اپنے مشرقی بازو سے محروم ہوگئے تھے لیکن افسوس صد افسوس ہمارے سیاسی اداکاروں نے اقتدار کی ہوِس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اِس عظیم سانحہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ طوائف الملوکی کا جو سلسلہ شہید ملت کی شہادت کے بعد سے شروع ہوا تھا وہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا اور حال یہ ہے کہ بقولِ شاعر:

ہربوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی

جب سے تحریکِ عدم اعتماد کا قصّہ چھڑا تھا پوری قوم اِس سوچ اور فکر میں تھی کہ اِس کا انجام کیا ہوگا اور یہ سیلابِ بَلا کہاں جا کر رُکے گا۔ آخرکار 3 اپریل کو اُس وقت انتظار کا سحر ٹوٹا اور وہ گھڑی آگئی کہ جب وزیرِ اعظم پاکستان نے اپنا یہ فیصلہ سنا کر سب کو حیران کردیا کہ قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی ہے اور آیندہ انتخابات کرائے جائیں گے۔

ہوا آیندہ کیا رخ اختیار کرے گی، عبوری حکومت کیسی ہوگی اور انتخابات کی شفافیت کی کیا ضمانت ہوگی؟ یہ سوالات ایسے ہیں کہ جن پر غور کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ پریشان حال عوام کو اُس مسیحا اور ایسے نظام کی تلاش ہے جو اُن کے مسائل کو بلا تاخیر حل کرسکے۔اِس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اِسے ابھی تک وہ رہنما نہیں مل سکا جو مطلوبہ اہلیت، دیانتداری اور ملک و قوم کو درپیش مسائل کے فوری حل کی صلاحیت کا حامل ہو ۔

عمران خان ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک مضبوط، مستحکم اور مکمل طور پر خودمختار فلاحی اسلامی ریاست بن جائے۔بدقسمتی سے اُن کے دورِ اقتدار میں کورونا کی وبا نے بھی حملہ کرکے دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح وطن عزیز کو بھی مشکلات میں مبتلا کر دیا جس کی وجہ سے اُس کی معیشت بری طرح سے متاثر ہوئی۔ اِس کے علاوہ روز افزوں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کو لگام دینے میں بھی وہ کامیاب نہ ہوسکے۔۔

انھوںنے ایک زبردست یارکر پھینک کر تینوں وکٹیں اڑادیں اور سب ہَکّا بَکّا رہ گئے۔ انھوں نے امریکا سے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ مشہورِ زمانہ امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کے اِس قول کے مصداق ہے کہ’’امریکا سے دشمنی مول لینا خطرناک ہوسکتا ہے، لیکن امریکا سے دوستی اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔‘‘

یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر امریکا کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اپنا حق سمجھتا ہے اور اپنے مقصد کو پانے میں وہ کسی بھی بین الاقوامی ضابطے یا عالمی قوانین کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتا اور قطبِ جنوبی تک اور مریخ سے لے کر سمندروں کی تہوں تک وہ کسی بھی معاملے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔

یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر امریکا کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اپنا حق سمجھتا ہے اور اپنے مقصد کو پانے میں وہ کسی بھی بین الاقوامی ضابطے یا عالمی قوانین کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتا اور قطبِ شمالی سے لے کر قطبِ جنوبی تک اور مریخ سے لے کر سمندروں کی تہوں تک وہ کسی بھی معاملے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔امریکا اِس خطے میں بھی مصروفِ عمل ہے۔

اوّل تو وہ چاہتا ہے کہ اِس خطہ کے رہنے والے ہمیشہ اُس کے دست نگر رہیں۔ دوم تیل پر کنٹرول ایک ایسا ہتھیار ہے جو اگر امریکا کے ہاتھ لگ جائے تو وہ تمام تیل استعمال کرنے والے ممالک پر اپنی سیاسی، اقتصادی اور دفاعی پالیسی مسلط کرسکتا ہے، سوم اِس خطے کی جغرافیائی حیثیت کو وہ دور دراز علاقوں میں پہنچنے کے لیے بیس کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کے حوالے سے امریکا کا کردار ہمیشہ سے ایک ’’آقا‘‘کا رہا ہے اور وہ دوستی کا کوئی تقاضہ پورا نہیں کرسکا۔ پاکستان کی تاریخ میں ہم ہر لمحہ امریکی نگرانی، دباؤ اور اُس کی من مانی پالیسیوں کی زد میں رہے ہیں۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کبھی تو امریکا نے پاکستان کے خلاف امداد کا ’’ہتھیار‘‘استعمال کیا، کبھی اقتصادی دباؤ کا ہتھکنڈا اور کبھی پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانے کے بہانے ہراساں کیا۔

پاکستان کا جغرافیائی محل و وقوع، ایٹمی صلاحیت، زرعی اور تکنیکی ہُنرمندی اور خاص طور پر اسلامی نظریاتی بنیاد ایسے عوامل ہیں جو امریکی پالیسی سازوں کی خاص توجہ کا مرکز ہیں۔ امریکا نے کبھی پاکستان کو اپنے معاملات خود چلانے کی اجازت نہیں دی۔ہماری تاریخ کے ابتدائی برسوں میں ہی امریکا نے ہمارے قومی مفادات کو ہائی جیک کرلیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکا نے پاکستانی حکام کے ارد گرد ایک ایسا جال بن دیا کہ پاکستان کسی صورت اس سے آزاد نہ ہوسکے۔

کبھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی واپسی کے لیے دباؤ، کبھی ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کا عزم، کبھی چین اور ایران سے دوستی پر خفگی اور کبھی چرس اور افیون پر پکڑ دھکڑ۔ پاکستان کو اِن مسائل میں اس بری طرح سے الجھا کر رکھ دیا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان نہ صرف اقوامِ عالم میں اپنا منفرد مقام اور تشخص کھوتا جا رہا ہے بلکہ سیکیورٹی اور اقتصادی لحاظ سے بہت سے خطرات سے بھی دو چار ہوتا جا رہا ہے، ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور تمام جھوٹے آقاؤں سے نجات حاصل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔