لمحہ پہچاننے کا سلیقہ آنا چاہیے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 10 اپريل 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

آپ اگر ابھی تک اپنے آپ کو تلاش نہیں کر پائے ہیں اور ایک کامیاب انسان نہیں بن پائے ہیں تو یہ پریشان ہونے اور فکر کرنے کی بات ہے کیونکہ آپ کافی وقت ضایع کرچکے ہیں۔

یاد رکھیں صرف آپ ہی ہیں جو اپنے آپ میں چھپے ایک کامیاب آدمی کو آزادی دلا سکتے ہیں اور کوئی دوسرا دنیا میں ہے ہی نہیں جو یہ کام کرسکے۔ اس لیے آپ اور وقت ضایع نہ کریں اور اپنے آپ میں چھپے ایک کامیاب آدمی کو کھوجنے کی کوشش آج ہی سے شروع کردیں ۔

اس سے پہلے آئیں ، پہلے مائیکل اینجلوکا قصہ سنتے ہیں وہ 1475میں Capressکے ایک گائوں میں پیدا ہوا ۔وہ کہتا تھا’’ ایک ظلم یہ ہے کہ بڑے بڑے اعلیٰ شاہکار پتھروں میں قید کردیے گئے ہیں ۔‘‘اس کا خیال تھا کہ ہر پتھر میں ایک مجسمہ ہے۔ سقراط نے برسوں پہلے یہ ہی بات کہی تھی 1501میں اینجلو کو ایک مشکل کام سونپا گیا۔کہانی کچھ یوں ہے کہ فلورنس کے کیتھڈرل میں 13 فٹ اونچا سنگ مرمرکا ٹکڑا کئی برسوں سے پڑا ہوا تھا۔

اس وقت کے عظیم مجسمہ سازوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اس میں سے کچھ تخلیق کریں۔ ان میں لیونار ڈوڈاونسی بھی شامل تھا لیکن سب نے اسے بے کار تصورکرتے ہوئے مستردکر دیا۔ پھرکئی برس بعد اینجلو نے اس’’ بے وقعت اور بے قدروقیمت ‘‘ سنگ مرمرکے ٹکڑے پر اپنے کام کا آغازکیا ایک دن ایک چھوٹا سا لڑکا اینجلزکے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ ’’وہ کیا کررہا ہے‘‘ تو اس نے لڑکے کو جواب دیا کہ ’’ اس چٹان کے اندر ایک نیک روح قید ہے میں محض اسے آزاد کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔‘‘

اینجلو نے اس پر اڑھائی سال محنت کی اور اس نے اس بے کار پتھر کے ایک ایک انچ میں جان ڈال دی اور اسے The Statue of David بنا دیا ، جسے نشاۃ ثانیہ کا اہم ترین شاہکار قرار دیا جاتا ہے ، اس مجسمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جدید اور قدیم عہدکے لاطینی اور یونانی مجسموں میں اسے اولیت حاصل ہے، اگر ہم غورکریں تو ہم سب سنگ مر مرکے بڑے پتھروں کی مانند ہیں۔ ہمارے اندر ایک انتہائی کامیاب ، خوشحال اور ذہین آدمی قید ہے بس وہ اپنی رہائی چاہتا ہے۔ ہم سب ایک عظیم مجسمہ سازکا انتظارکررہے ہوتے ہیں کہ وہ آئے اور ہمارے اندرقید ایک کامیاب آدمی کو رہائی دلوا دے۔

یاد رکھیں وہ عظیم مجسمہ سازکوئی اور نہیں آپ خود ہیں آپ ہی اینجلو ہیں ، بس آپ کو اپنے آپ کی پہنچانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے سماج کا المناک المیہ ہے کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت ہمیشہ خود شناسی سے محروم رہی ہے جیسا انھیں بننا چاہیے تھا وہ نہیں بن سکے بلکہ اس کے بجائے وہ بن گئے جیسا انھیں نہیں بننا چاہیے تھا۔ اینجلو پیٹری جنہوں نے ’’ تربیت اطفال ‘‘ کے موضوع پر تیرہ کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے ہیں۔

کہتے ہیں ’’ اس شخص سے زیادہ بدنصیب کون ہوگا جو وہ بننا چاہتا ہے جو وہ جسمانی اور دماغی اعتبار سے خود نہیں ہے‘‘ جیسے بھی ہو ویسا بننے کے لیے تیار ہونے کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ تاریخ۔ ڈاکٹر جیمز گورڈن کے الفاظ میں ’’ اور اتنا ہی آفاقی ہے جتنی کہ زندگی۔‘‘ آئیں! اب ہم آپ کو آپ میں چھپے ایک کامیاب ، خوشحال آدمی کو تلاش کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔

ایک اخباری نمایندہ بڑے جوش وخروش سے ونسٹن چرچل کے پاس اس کی عظمت کا راز معلوم کرنے کے لے گیا ’’آخر زندگی میں جیتنے اور چھا جانے کا کیا راز ہے؟ کیا صلاحیتیں ، توانائی اور تعلیم ہی مٹی کو سونا بنانے کا گر ہے؟‘‘ اخباری نمایندے نے اپنے دل کی بے ترتیب دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے پوچھا ’’ اوں … ہوں ‘‘ چرچل نے اپنا بھاری بھرکم سر ہلایا اور پھر مسکرا کر بولا ’’یہ چیزیں بھی مدد دیتی ہیں لیکن میرے خیال میں عظمت اور جیتنے کا ایک ہی راز ہے ، آپ کو لمحہ پہنچاننے کا سلیقہ آنا چاہیے۔‘‘

’لمحہ پہچاننے کا سلیقہ ‘ اخباری نمایندے نے حیرانی سے چرچل کی طرف دیکھا ’’ ہاں لمحہ پہچاننے کا سلیقہ ‘‘ چرچل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جیتنے والا ، فتح پانے والا جانتا ہے کہ لمحے کو کیسے پہچانا جائے۔ کس لمحے فیصلہ کیا جائے کس لمحے آگے بڑھا جائے یا پیچھے ہٹا جائے۔ وہ ضرورت کے وقت بولتا ہے ورنہ خاموش رہتا ہے وہ اسٹیج کے کسی کردار کی طرح عین وقت پر سامنے آتا ہے اور چھا جاتا ہے۔ زندگی میں کامیابی کی کنجی موزوں لمحے کی پہچان ہے شادی میں ، ملازم میں ، محبت میں ، تعلقات میں ہر جگہ یہ کنجی کام دیتی ہے ، کھل جا سم سم کی طرح آپ پر کامرانی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ فتح یابی اور مسرتیں آپ کا تعاقب کرتی ہیں بس درست لمحہ پہچانیں اور کر گزریں گے۔

کامیابی کے اسی راز کو شیکسپیئر اپنے انداز میں بیان کرتا ہے کہ ’’ ہر شخص کی زندگی میں ایک دن ایسا آتا ہے جو اس کی پوری زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے وہ دن سمندر کی دیوقامت لہر کی طرح اس کی زندگی میں داخل ہوتا ہے اگر وہ شخص اس لہر کو پہچان لے تو اچھل کر اسے کامیابی کی بلندیوں پر لے جاتی ہے ، ورنہ وہ پوری زندگی ناکامی اور پچھتائوے کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے۔‘‘ اگر آپ اب بھی اپنی زندگی میں ناکام رہتے ہیں تو اس کے سارے کے سارے ذمے دار آپ خود ہونگے،کوئی اور نہیں ہوگا اور نہ ہی دنیا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔