پاکستان سیاسی اور معاشی ڈیفالٹ سے کیسے بچ سکتا ہے

سرور منیر راؤ  اتوار 29 مئ 2022

پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک صاحب راز ایک محفل میں بتا رہے تھے کہ میاں نواز شریف 1999میں سنگاپور کے دورے پر گئے تو انھوں نے سنگاپور کے وزیراعظم ’’لی کو آن یو‘‘سے لیڈرشپ اور ترقی کی ٹپس لینا چاہیں۔

سنگاپور کے وزیراعظم سے ہونے والی اس ملاقات میں نواز شریف کے ساتھ چند اور ساتھی بھی تھے۔سنگاپور کے وزیراعظم سے یہ ملاقات سنگاپور کے وزیراعظم ہاس میں ہوئی،گفتگو کے آغاز میں لی کو آن یو نے انکشاف کیا وہ مختلف حیثیتوں سے 8مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں لہٰذا وہ پاکستان کے جغرافیے، رسم و رواج اور لوگوں سے پوری طرح واقف ہیں۔

گفتگو کے دوران نواز شریف نے ان سے پوچھا ،کیا آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کبھی سنگا پور بن جائے گا؟ لی کو آن یو نے ذرا دیر سوچا اور پھر انکار میں سر ہلادیا۔ ان کا رد عمل کھرا اور غیر سفارتی تھا۔ حاضرین پریشان ہوگئے۔

لی کو آن یو ذرا دیرخاموش رہے اور پھر بولے ،اس کی تین  وجوہات ہیں، پہلی وجہ آئیڈیالوجی ہے، آپ لوگوں اور ہم میں ایک بنیادی فرق ہے، آپ اس دنیا کو عارضی سمجھتے ہیں، آپ کا خیال ہے آپ کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی چنانچہ آپ لوگ اس عارضی دنیا پر توجہ نہیں دیتے، آپ عام آدمی کی سماجی زندگی شہری مسائل سڑک، عمارت، سیوریج سسٹم ، ٹریفک اور قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جب کہ ہم لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں لہٰذا ہم اس دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا رہے ہیں، آپ خود فیصلہ کیجیے جو لوگ اس دنیا پر یقین ہی نہ رکھتے ہوں، وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے؟

دوسری وجہ آپ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپروچ درست نہیں، میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں، ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں اس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا۔ میرے موکل کلکتہ سے کراچی تک ہوتے تھے، میں نے ان دنوں ہندو اور مسلمان کی نفسیات کو بڑے قریب سے دیکھا، میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا تمہارے کیس میں جان نہیں، تم اگر عدالت میں گئے تو کیس ہار جاو گے تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا آپ مہربانی فرما کر میری دوسری پارٹی سے صلح کرادیں۔

میں اس کی صلح کرا دیتا تھا اور یوں مسئلہ ختم ہو جاتا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں جب کوئی مسلمان کلائنٹ میرے پاس آتا تھا اور میں اسے صلح کا مشورہ دیتا تھا تو اس کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا تھا، وہ کہتا تھا وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں، میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا۔ میرے بعد میرے بچے لڑیں گے اور اس کے بعد ان کے بچے لڑیں گے۔

لی کو آن یو رکے اور مسکرا کر بولے ، میرا تجربہ ہے جو قومیں اپنی نسلوں کو ورثے میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں اور تیسری اور آخری وجہ یہ ہے آپ کے ملک میں سیاست دان کمزور ہیں اور مجھے پوری دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں ملا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اثر میں رہ کر ترقی کی ہو۔ وہ رکے اور دوبارہ بولے آمر اور سیاستدان کی سوچ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ چنانچہ میرا تجربہ ہے جس ملک میں حکومت اور سیاست پر اسٹیبلشمنٹ کا اثر ہوگا ، وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرتا.

سنگاپور کے وزیراعظم “لی کو آن یو” کی باتوں سے آپ اختلاف کریں یا اتفاق لیکن ان کی باتوں میں حکمت اور دانائی کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 75 سال گزرنے کے باوجود ہمارے سیاستدان ہمارے سیاسی نظام کی سمت کو درست کیوں نہیں کر سکے؟ غیرجانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو اس عمل میں دوسری قوتوں کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی برابر کے شریک ہیں۔ سیاست دانوں کی اکثریت اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول اور اقتدار میں آنے کے عسکری اداروں کی مداخلت کی راہ ہموار کرتے ہیں۔

سیاستدان اپنے باہمی اختلافات اور اور سیاسی معاملات آمنے سامنے بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے بجائے “دوسری طاقتوں”سے مدد لینا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے بارہا ایک دوسرے کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے مدد حاصل کی اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ دونوں سیاسی جماعتیں جب اقتدار سے باہر ہوگئی تو “میثاق جمہوریت” کی دستاویز پر دستخط کیے اور دوبارہ جمہوریت کے اکھاڑے میں اتر آئین لیکن جب ان کے سیاسی اور گروہی مفادات پر زک پڑی تو دونوں ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے لگے اور دوبارہ وہی کھیل پھر شروع ہوا اور سیاست کی باگ ڈور سیاستدانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ آ گئی۔

اسی آنکھ مچولی کے درمیان ایک تیسری قوت تحریک انصاف جو گزشتہ 20سال سے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے پیچھے پڑی ہوئی تھی نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں پیپلز پارٹی،نون لیگ اور مذہبی جماعتوں کو پچھاڑتے ہوئے اقتدار حاصل کر لیا۔

عمران خان ہماری سیاسی سمت کو مستحکم اور درست نہ کر سکا۔ گڈ گورننس کے فقدان معاشی صورتحال کو نہ سنبھالنے اور ساتھی سیاستدانوں پر ذاتی حملوں کی بنا پر تمام سیاسی مخالف قوتیں عمران خان کے خلاف اکھٹی ہو گئیں اور بیک وقت زبان ھو کر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کو عوامی جلسوں میں نشانہ بنانا شروع کیا تو عمران خان کے سر سے محفوظ چھتری ہٹنے لگی۔ سیاست دانوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کی سیاسی کی تاریخ میں پہلی بار کسی بھی وزیر اعظم اور اس کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پارلیمنٹ میں شکست دی۔

اس طرح عمران خان ملک کے پہلے وزیراعظم قرار پائے جس سے پارلیمنٹ نے اقتدار چھین لیا۔لیکن عمران خان نے انتہائی چابکدستی اور کمال فن سے اپنی اس شکست کو بیرونی سازش قرار دینے کا بیانیہ بنا لیا اور اپنے فالورز کو بھی ساتھ ملایے رکھا۔انھوں نے اپنی حکومت کی اس شکست کو دل سے تسلیم نہ کیا اور جلسے جلوس اور لانگ مارچ کے ذریعے سیاسی نظام کو مزید تلاطم کا شکار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن حکومت کے سخت گیر رویے، اپوزیشن کے متحد رہنے اور اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری اور لانگ مارچ میں توقع کے مطابق عوام کی شرکت نہ ہونے سے عمران خان کو مایوسی کا شکار ہونا پڑا۔

قرائین بتا رہے ہیں کہ عمران خان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ھے، اس موقع کا فائدہ اٹھانا ہمارے سیاسی نظام کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کو ایک ٹیبل پر بیٹھ کر ایسے قومی ایجنڈے پر بات کرنی چاہیے جس سے نہ صرف یہ کہ ہمارا سیاسی نظام مستحکم ہو،انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے ہو۔ انتخابات کے نتائج سب سیاسی جماعتیں تسلیم کریں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے پا جائے کہ “جس کا کام اسی کو سانجھے”پر بھی سب سیاستدان عمل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔