وزیراعظم کی بریت کا تحریری فیصلہ؛ایف آئی اے کی ناقص پراسکیوشن اور تفتیش کا پول کھل گیا

کورٹ رپورٹر  جمعرات 13 اکتوبر 2022
موجودہ کیس پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو سزا نہیں ہوسکتی، فیصلہ:فوٹو:فائل

موجودہ کیس پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو سزا نہیں ہوسکتی، فیصلہ:فوٹو:فائل

 لاہور: اسپیشل سینٹرل کورٹ لاہور نے وزیراعظم شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

اسپیشل سینٹرل جج اعجاز اعوان نے 31صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا تحریری فیصلہ میں ایف آئی اے کی ناقص پراسکیوشن اور تفتیش کا پول کھول کھل گیا۔

تحریری فیصلے کے مطابق ایف آئی اے نے شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے بے نامی اکاؤنٹس کو ثابت کرنے کےلیے 66 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے۔ کسی گواہ نے حمزہ شہباز اور شہباز شریف اور سلمان شہباز کا نام نہیں لیا اور نہ ہی  کسی بینکر نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف بیان  دیا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کوئی ثبوت نہیں دے سکا کہ یہ تمام بے نامی اکاؤنٹ شہباز شریف اور حمزہ شہباز آپریٹ کرتے تھے۔کسی بھی بے نامی اکاؤنٹس سے شہباز شریف اور حمزہ کے اکاؤنٹ میں ایک دھیلا بھی ٹرانسفر نہیں کیا گیا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں جس سے ظاہر ہو کہ شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس میں براہ راست کوئی ٹرانزیکشنز ہوئی ہوں۔ عدالت کو پیش  کیا گیا ریکارڈ مکمل خاموش ہے کہ درخواست گزار نے کوئی فائدہ حاصل کیا ہو۔شہباز شریف کبھی بھی رمضان شوگر ملز کے ڈائریکٹر اور شئیرہولڈر نہیں رہے۔ پراسکیوشن  اس حوالے سے کوئی بھی ریکارڈ فراہم نہیں کرسکی۔

تحریری فیصلے کے مطابق موجودہ تفتیشی افسر نے گواہ اسلم زیب بٹ کے بیان پر اعتماد ہی نہیں کیا۔ جب پراسکیوشن خود ہی گواہ پر اعتماد نہیں کرتی تو قانون کی نظر میں اس گواہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تفتیش کے دوران اسلم زیب بٹ نے بیان کہ اس نے سیلمان شہباز کے کہنے پر  پارٹی آفس میں 2 لاکھ 50 ہزار جمع کرائے  بعد ازاں سلیمان شہباز کے کہنے پر مزید 10 لاکھ جمع کروائے۔

موجودہ تفتیشی افسر نے بیان دیا کہ گواہ اسلم زیب نے حمزہ شہباز یا شہباز شریف کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ الزام تھا کہ ملزم مسرور انور نے شہباز شریف کے کیش بوائے گلزار احمد کے اکاؤنٹس میں 4 بار ٹرانزیکشنز کیں۔ تفتیشی افسر اور پراسکیوشن کو اس حوالے سے شواہد پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔

تحریری فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ تفتیشی افسر اور پراسکیوشن ایسا کوئی شواہد پیش نہیں کر سکے جس سے الزمات ثابت ہوں۔گواہ محمد توقیر نے بیان دیا کہ اسکا اکاؤنٹ  سی ایف او شریف کمپنی محمد عمثان نے کہنے پر کھولا گیا۔ تفتیشی افسر اس جوائنٹ اکاؤنٹ کی تفصیلات عدالت میں فراہم کرنے میں ناکام رہا۔چالان میں لکھا گیا کہ ملک مقصود کا اکاؤنٹ رمضان شوگر ملز کے جنرل مینجر عشرت جمیل آپریٹ کرتے تھے۔ پراسکیوشن نے اس حوالے سے کوئی دستاویزی یا زبانی شواہد فراہم نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز بری

 

مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف سیاستدانوں ،کنٹریکٹر سمیت دیگر نے بے  نامی اکاؤنٹس میں  چیک اور رقم  جمع کرائی جبکہ  پارٹی ٹکٹ کےلیے ایک سیاستدان نے 14ملین جمع کروائے۔ پراسکیوشن نے ناں ہی اس سیاستدان کا نام بتایا اور ناں ہی ان کنٹریکٹر کے نام  بتائے ۔ موجودہ کیس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کوپر فرد جرم عائد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ان کو سزا ملنے کا امکان  ہے۔

ایف آئی اے نے مقدمے میں 25ارب کا الزام لگایا تاہم چالان  16ارب کرپشن کا جمع کرایا۔ایف آئی اے نے بے نامی اکاونٹس کھلوانے کے دستاویزی شواہد کو چالان کا حصہ بنایا۔ریکارڈ کے مطابق بینک اکاؤنٹس رمضان شوگر ملز کے کم تنخواہ دار ملازمین کے سیلری اکاؤنٹ  کے طورپر کھلوائے تھے۔  اوپننگ فارم کے مطابق شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے کسی اکاؤنٹ کےلیے کوئی اثر رسوخ استعمال نہیں کیا۔

فیصلے کے مطابق حمزہ شہباز نے تسلیم کیا کہ وہ  رمضان شوگر ملز کے شئیر ہولڈر اور ڈائیریکٹر رہے۔ کیا اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ کہ حمزہ شہباز نے کوئی بے نامی اکاؤنٹ بنوائے یا آپریٹ کیے۔ محض تفتیشی کی زاتی رائے اور تجزیے کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حمزہ شہباز بے نامی اکاؤنٹس آپریٹ کرتے رہے۔ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ شہباز شریف نے بطور پبلک آفس ہولڈر 16ارب کی منی لانڈرنگ کی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔