عمران خان کا ون مین شو

شاہد کاظمی  جمعـء 21 اکتوبر 2022
ضمنی انتخابات میں جیت کو عمران خان کی طلسماتی شخصیت کا جادو بتایا جارہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ضمنی انتخابات میں جیت کو عمران خان کی طلسماتی شخصیت کا جادو بتایا جارہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان کو ضمنی انتخابات کی جیت بہت مبارک ہو۔ کوئی شک نہیں کہ جشن منانا بنتا بھی ہے، خاص طور پر قومی اسمبلی کے چھ حلقوں میں خان صاحب نے میدان مارا ہے۔

قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی کے حلقہ NA-237 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ سے ہار گئے۔ جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی بیٹی، قومی اسمبلی کے حلقے NA-157 میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے، علی موسیٰ گیلانی سے ہار گئیں۔

ضمنی انتخابات کی اس جیت کو نہ صرف پورے ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے تعبیر کیا جارہا ہے بلکہ یہ عمران خان کی طلسماتی شخصیت کا جادو بھی بتایا جارہا ہے، جو اتنا سر چڑھ کر بولا کہ وہ اکھٹے چھ حلقوں میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن کچھ معروضی حالات کے مطابق ان ضمنی انتخابات کو دیکھا جائے اور بالکل غیر جانبدار رہتے ہوئے پوری صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بنیادی طور پر جیت کے باوجود پاکستان تحریک انصاف ایک قدم پیچھے جاتی محسوس ہوئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں حکمران جماعت ہے اور وہاں عبدالحکیم بلوچ اور عمران خان کے ووٹوں کا فرق دس ہزار سے زائد ہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ عبدالحکیم بلوچ نہ تو طلسماتی شخصیت ہیں نہ ہی ان کی کرشمہ سازیاں ایسی ہیں کہ انہیں ایسا سیاستدان شمار کیا جائے کہ لوگ جوق در جوق ان کی محبت میں دوڑے چلے آئیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعت کے سربراہ کا صرف بائیس ہزار ووٹ حاصل کرنا یقینی طور پر تحریک انصاف کےلیے لمحہ فکریہ ہے کہ پچھلے عام انتخابات میں عبدالحکیم بلوچ نے 32054 ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ اس حلقے سے جیتنے والے جمیل احمد خان نے پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے 33522 ووٹ حاصل کرتے ہوئے فتح سمیٹی تھی۔ اس حساب سے دیکھیے تو اس مرتبہ عبدالحکیم بلوچ چند سو ووٹ پہلے سے بھی زیادہ لے گئے۔ جب کہ دوسری جانب طلسماتی شخصیت ہونے کے باوجود عمران خان کے ووٹ عام انتخابات سے بھی دس ہزار کم ہوگئے۔

بے شک ضمنی انتخابات تھے لیکن ووٹ تو دونوں پارٹیوں کے کم ہونے چاہیے تھے۔ NA-24 میں پاکستان تحریک انصاف کی جیت کا مارجن بھی کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ عام انتخابات میں فتح سے اس مرتبہ کم وبیش پانچ ہزار ووٹ کم ملے جب کہ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی نے اس مرتبہ عام انتخابات سے کم و بیش 8 سے 9 ہزار ووٹ زیادہ لیے۔ بات وہیں آجاتی ہے کہ ضمنی انتخابات کی عوامی عدم دلچسپی کا نقصان تو دونوں پارٹیوں کا ہونا چاہیے تھا اور دونوں جماعتوں کا ووٹ بینک کم ہونا چاہیے تھا، جب کہ ایسا نہیں ہوا۔

قرائن بتاتے ہیں کہ خان صاحب پہلے سے ہی قومی اسمبلی کے ممبر ہیں اور ان کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا، لہٰذا انہیں بہرصورت جیتے گئے چھ کے چھ حلقے چھوڑنا ہوں گے۔ ایسا کرنے سے مزید ایک سے دو حلقے پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھ سے جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مزید سونے پہ سہاگہ تو یہ ہوا کہ پہلے NA-237 اور NA-157 دونوں حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ جب کہ اس دفعہ دونوں نشستیں پاکستان پیپلز پارٹی کی جھولی میں جاگریں۔ نقصان کس کا ہوا؟ فائدہ کسے پہنچا؟ جشن کس بات کا؟ خوشی کیسی؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔

ایک اور اہم حقیقت جو ان ضمنی انتخابات سے کھل کر سامنے آئی کہ پاکستان تحریک انصاف ’ون مین شو‘ بنتی جارہی ہے۔ اور یقینی طور پر یہی وہ پہلو ہے جس کا نقصان پاکستان تحریک انصاف کو اگلے عام انتخابات میں ہوگا۔

ایک لمحہ تصور کیجیے کہ پیپلز پارٹی کے مضبوط گڑھ میں پاکستان تحریک انصاف اپنا جادو چلانے میں ناکام رہی جب کہ جہاں امیدوار عمران خان کے علاوہ کوئی تھا وہاں بھی اُسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تو پھر پاکستان تحریک انصاف کے پاس آپشنز کیا بچتے ہیں فیس سیونگ کےلیے؟ مان لیا کہ عمران خان نے بری طرح شکست دی 6 حلقوں میں قومی اسمبلی کے، لیکن کیا عام انتخابات میں عمران خان 300 حلقوں سے انتخاب لڑیں گے؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ اگر ایسا ممکن نہیں تو ان کے نامزد امیدوار اگر صوبائی حکومت ہوتے ہوئے بھی پٹ گئے تو پھر کامیابی کیسی؟

یہ تو مقامِ فکر ہے پارٹی قیادت کےلیے کہ سوائے عمران خان، پارٹی کا وائس چیئرمین تک اپنی نشست نہیں بچا پارہا تو کیا پورے ملک میں تمام قومی اسمبلی کے حلقوں میں عمران خان اکیلے بھاگتے پھریں گے؟ بے شک ہیلی کاپٹر موجود ہے لیکن کسی انسان کے بس کی بات تو بہرحال ہو نہیں سکتی کہ اتنا بکھیڑا اکیلے سنبھال لے۔

حالیہ ضمنی انتخابات میں جیت کا جشن تو منا لیا لیکن ان انتخابات سے جو خطرناک صورتحال پاکستان تحریک انصاف کےلیے سامنے آئی ہے اس پر پارٹی پالیسی ساز نہ سوچ رہے ہیں نہ ہی چیئرمین کی توجہ اس جانب مبذول کروا رہے ہیں۔ وہ تو بس ’سب اچھا‘ کی رپورٹ دیتے ہوئے فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ لیکن الفاظ کو بطور سند رکھ لیجیے گا کہ چھ کی چھ نشستیں عمران خان کو چھوڑنی پڑیں گی تو انہی نشستوں پر مزید ضمنی انتخابات ہونے پر ایک سے دو مزید نشستیں ان کے ہاتھ سے چلی جائیں گی۔ ابھی تو ہم اسے دیوانے کی بڑھک سے تعبیر کرسکتے ہیں لیکن اگلے عام انتخابات میں پٹے ہوئے مہرے جب میدان عمل میں کودیں گے تو ہرا سوکھا سب واضح ہوجائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔