وہ کون ہے کہاں ہے

سعد اللہ جان برق  بدھ 9 نومبر 2022
barq@email.com

[email protected]

بات بے شک رسوائی کی ہے لیکن ’’سچ ‘‘ ہے، اس لیے چھپا بھی نہیں سکتے، اس لیے اعتراف کرتے ہیں کہ ہم اپنے ایک تحقیقی پروجیکٹ میں بری اوراچھی دونوں طرح ناکام ہوچکے ہیں، ذاتی طور پر تو ہم اس ناکامی پر اتنے زیادہ شرمندہ نہیں ہیں کہ اپنے حکمرانوں کی صحبت میں رہ کر شرمندگی ’’پروف‘‘ ہوگئے ہیں ۔

پہلے آتی تھی حال دل پر ’’شرم‘‘

اب کسی بات پر نہیں آتی

البتہ اس بات پر تھوڑی سی پریشانی ہے کہ جس اکیڈمی سے ہم نے تحقیق میں ڈگری لی ہوئی ہے اور جن تفتیشی اورقانون نافذ کرنے والے اداروں سے تربیت لی ہے، ان کو کیا منہ دکھائیں گے۔

ان اداروں کے ہائی فائی تحقیقی معیار کااندازہ آپ اس سے لگائیں کہ اکیڈمی نے صرف بارہ سال کے قلیل عرصے میں اورصرف چالیس لاکھ روپے خرچ کرکے یہ عظیم الشان اورتاریخی تحقیق کی ہے کہ خو شحال خان خٹک ، رحمان بابا سے  عمرمیں بڑے تھے اور رحمان بابا ،خوشحال خان خٹک سے ’’داڑھی‘‘ میں بڑے تھے یعنی ان میں کوئی تو ایک دوسرے سے بڑا یاچھوٹا تھا ۔

تحقیقی تفتیشی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بلکہ بین الاقوامی کارکردگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک مرتبہ ان اداروں کے لوگ ایک دہشت گردکا پیچھا کررہے تھے جو ایک جگہ دھماکا کرنے کے بعد ’’اپناسر‘‘ وہیں چھوڑکر فرار ہونے میں کامیاب ہواتھا لیکن ادارے کے ماہر کارکن بھی پیچھاچھوڑنے والے نہ تھے۔

دہشت گرد بھاگتے بھاگتے عجائب گھر میں گھس گیا اور وہاں گوتم بدھ کے بے شمار مجسموں میں روپوش ہوگیا لیکن ادارے کے ماہرین نے ایک مجسمے کو آخر کار پکڑ ہی لیا اورتفتیشی کمرے میں جب زیرتفتیش کرلیا تو مجسمہ آدھے گھنٹے کے بعد چیخ چیخ کر اعتراف کرنے لگا کہ وہ تمام دھماکے اسی نے کیے ہیں جو ماہرین بتارہے ہیں۔خود ہم نے بھی بڑے بڑے پروجیکٹ کرکے تحقیق کی دنیا میں بڑا نام کمایا ہوا ہے۔

مثلاً دنیا کے سب سے مشہور اور سب سے بڑے سوال کہ پہلے مرغی پیدا ہوئی تھی یا انڈا۔ یونان سے لے کر پاکستان تک کے تمام دانا دانشور اس سوال کا جواب نہیں دے سکے ہیں یہاں تک کہ ’’معاونین خصوصی برائے‘‘ بھی ناکام ہوچکے ہیں لیکن ہم نے چٹکی بجاتے ہی اس کا جواب یاحل ڈھونڈ لیا تھا۔

پہلے نہ مرغی پیداہوئی ہے نہ انڈا، بلکہ پہلے انڈے اورمرغیاں کھانے والے پیدا ہوئے تھے جو کسی بھی چیزکو مرغی یا انڈا بنا کر کھاسکتے ہیں یا نر مرغ کو پکڑ کو اسے انڈا دینے پر مجبورکرسکتے ہیں اورمرغ کے دیے ہوئے اس انڈے کے اندر سے مرغی بھی برآمد کرلیتے ہیں بلکہ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہلے مرغ پیدا ہوا اور پھر اپنے اندر سے ہی سے مرغی باہر نکال لی جس کے پیٹ میں انڈا بھی تھا، پھر اس انڈے کو مزید ڈویلیپ کرکے ووٹ بنا دیاگیا جس نے آگے چل کر نوٹوں کی پیداوار دینا شروع کی۔ خیریہ سب چھوڑئیے اس تحقیقی پروجیکٹ کی بات کرتے ہیں جس میں ہم اچھی اور بری دونوں طرح ناکام ہوچکے ہیں۔

ایک دن ہم اخبار پڑھ رہے تھے، بیانات، بیانیے، کالم، مضامین ،ادارئیے وغیرہ کہ اچانک ہمیں خیال آیا کہ یہ سب لیڈر، وزیر،مشیر،معاون وغیرہ، سب کے سب ’’کس ‘‘ سے کہہ رہے ہیں یعنی ان کا ہدف کون ہے؟ پھر کالموں میں دانا دانشوروں کو موتی بکھیرتے ہوئے دیکھا تو بھی یہی سوال کہ ’’کس کو کہہ رہے ہو‘‘ اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بات نکلتی ہے تو پھر دورتک جاتی ہے چنانچہ اخبار سے خیال جلسوں جلوسوں اور دھرنوں پر گیا، ٹی وی ٹاک شوز پر گیا اور ان سب پر جو ’’کہہ رہے ہیں ‘‘ بول رہے ہیں۔

آخر یہ سب کے سب کس کو ’’مخاطب‘‘ کیے ہوئے ہیں یاکس سے مخاطب ہیں ۔اوریہ کوئی آج کل کی بات نہیں بلکہ پچھتر سال سے یہ کہنا اور بولنا جاری ہے ، لاوڈ اسپیکر آنے کے بعد تو لاوڈاسپیکر کے ذریعے بول رہے ہیں اور ان سب ’’کہنے بولنے ‘‘ سے اندازہ ہوتاہے کہ کوئی ہے جو گمراہ ہے ، بے راہ ہے، بھٹکا ہوا ہے اور یہ سب کے سب اسے سیدھی راہ پر لانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے وہ مل بھی نہیں رہا ہے، اس ہدف ،اس مخاطب اور اس گم شدہ کو ڈھونڈنے کا بیڑہ اٹھا لیا لیکن سعی بیسارکے باوجود اسے نہیں پاسکے ورنہ ہم بھی اس سے کہنے والے تھے کہ سیدھے ہوجاؤ ورنہ ۔۔

تمام شہر ہی اس کی تلاش میں ’’گم ‘‘تھا

ہم اس کے گھر کا پتہ کس سے پوچھتے یارو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔