علم دشمن حکمران

راؤ منظر حیات  پير 5 دسمبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

کسی بھی اچھے حکمران کی بنیادی خوبیوں میں شامل ہوتا ہے کہ وہ کتنا علم دوست اور ادب نواز ہے۔ تہذیب یافتہ لکھاریوں‘ شاعروں اور اہل علم سے اسے کتنی نسبت ہے۔ پرانے دور میں جاہل ترین بادشاہ‘ اپنے دربار میں زرخیز ترین ذہن کے افراد کو سرکا تاج بنا کر رکھتے تھے۔

برصغیر میں یہ روایت کافی حد تک مضبوط بلکہ توانا تھی۔ امیر خسرو جیسے بڑے انسان کو دیکھیے ۔ دہلی کے پانچ سلاطین کے ساتھ وابستہ رہے۔ طویل عرصے تک مشیر اور وزیر رہے۔ کمال کے شاعر‘ اور اس سے بھی بڑھ کر خدا نے انھیں موسیقی کے علم کا وہ سمندر عطا کر رکھا تھا جس کی بدولت وہ آج تک امر ہیں۔ آلات موسیقی سے لے کر قوالی کی صنف انھیںکے ذہن کی حسین اختراع ہے۔

ذرا سوچیے۔ شہنشاہوں کے پاس دنیا کی کثیر دولت موجود ہوتی تھی۔ لاکھوں مستعد فوجی اور جنگجو ان کے ایک اشارے پر جان دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ کوئی ایسی نعمت نہیں ‘ جو ان کے اختیار سے باہر ہو۔ پھر سوال تو اٹھتا ہے کہ ‘ تمام کچھ حاصل کرنے کے باوجود ‘ اہل فکر کو اپنے ساتھ کیوں رکھتے تھے؟ کیا وجہ تھی کہ دانشوروں کے بغیر ان کی ذاتی اور سرکاری زندگی ادھوری رہتی تھی۔

دراصل وہ زندگی کی ضخیم گتھیوں کو سلجھانے کے لیے اہل دانش کو ہر وقت اپنے ساتھ لیے پھرتے تھے۔ صائب مشورہ ‘ دلیل پر معقول تدبیریں اور اپنی فکری استطاعت کو نمو دینے کو حکومت کرنے کا ضروری جزو سمجھتے تھے۔ اگر انھیں جری سپہ سالار چاہیے تھے تو اس کے ساتھ ساتھ انھیں علمی نگینوں اور جواہرات کی بھی ضرورت رہتی تھی۔ جو عقل ‘ فن اور ہنر کی بنیاد پر انھیں برمحل مشورے دے سکیں۔

کسی بھی پرانے بادشاہ کے دربار کو دیکھ لیجیے۔ ایسے ’’کمال ذہین بزرگ‘‘ نظر آئیں گے جو اپنے دور کے فقید المثال سمجھ دار افراد گردانے جاتے تھے۔ کیا حافظ شیرازی کے بغیر امیر تیمور کا ذکر مکمل ہو سکتا ہے۔ بہت کم افراد جانتے ہیں کہ دور اکبری میں عبد الرحیم خانخاناں جیسا سپہ سالار اور ایک عظیم شاعر بھی موجود تھا۔ اکبر نے اسے اپنابیٹا بنا رکھا تھا۔

عرض صرف یہ کرنا مقصود ہے کہ حکمران کی علم دوستی‘ رعایا اور عوام کے لیے بھی حد درجے سازگار ہوتی ہے۔ اسے عام لوگوں کے مسائل تک دسترس ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حکمران کی ذہنی تربیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مبنی اندرونی شخصیت بھی بہتر ہوجاتی ہے۔

اپنے ملک کی طرف نظر دوڑایئے ۔ آپ کو سیاسی اور غیر سیاسی حکمران نظر آئیں گے۔ کسی کی اچھائی یا برائی کی طرف اشارہ نہیں کر رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جنھیں نا اچھے سیاسی قائدین نصیب ہوئے اور نہ ہی معتبر غیر سیاسی رہنما مل پائے۔ ان تمام بادشاہوں کو ایک اور زاویہ سے دیکھیے۔ ان میں سے کتنے ہیں جو کتابیں پڑھنے کا ذوق رکھتے تھے یا ہیں۔ حد درجہ کم۔ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔

دولتانہ صاحب‘ بھٹو صاحب‘ محترمہ بے نظیربھٹو ‘شاید ایک دو اور ۔ ان کے علاوہ تو اکثریت علم دشمن طرزکے حکمران رہے۔ ایک جید سابقہ وزیراعظم سے جب منیر نیازی جیسے عظیم شاعر کا ذکر کیا گیا۔ تو انھوں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے۔ اس جواب پر صرف سر پیٹا جا سکتا ہے۔ ہاں پالتو ادبی قزاق‘ انھیں لطیفے ‘ دیسی کشتیوں کے اوقات اور پہلوانوں کی معلومات باہم فراہم کرتے رہتے ہیں۔

ہوا یہ ہے کہ ہمارے حکمران ناجائز دھن کمانے کے فن میں تو ید طولی رکھتے ہیں۔ مگر فکری اعتبار سے زیادہ ذہن نہیں رکھتے۔ ان کی شخصیات میں علم دوستی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ ہندوستان میں یہ معاملہ کافی حد تک متضاد ہے۔ ایسے متعدد وزراء اعظم اور صدور مل جائیں گے جو بذات خود ’’کوی‘‘ ہیں۔

شعر کہتے ہیں۔ علم دوست ہیں‘ کتابیں لکھتے ہیں اور’’نئی بات‘‘ کہنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ تنگ نظری ہے کہ ہم ان کے سیاست دانوں کی علم دوستی کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے ۔شاید اس سے ہمارے حکمرانوں کی فکری جہالت مزید برہنہ ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کا ذکر خاص طور پر کرنا چاہوں گا۔ اردو اور فارسی کے بہترین عالم تھے۔ شاعری میں جوش ملیح آبادی کے شیدائی تھے۔

جوش صاحب ذاتی مشکل پسندی کے باوجود‘ نہرو کے حد درجہ قریب تھے۔ جوش صاحب پٹھان تھے اور سخت طبیعت کے مالک تھے۔ ایک دم ناراض ہو جاتے تھے۔ انا کے گھنے درخت کی ایک ٹہنی بھی کسی کو جھکانے نہیں دیتے تھے۔ شاعری میں تو خیر قادرالکلام انسان تھے۔ اب ذرا نہرو کی ادب دوستی اور جوش صاحب کے معاملات کی تھوڑی سی جھلک پیش کرتا ہوں۔

’’ایک بار جب پاکستان سے رخصت لے کر میں(جوش ملیح آبادی) جب دہلی میں ان (جواہر لعل نہرو‘ وزیراعظم ہندوستان ) سے ملا تو انھوں نے بڑے طنز کے ساتھ مجھ سے کہا تھا جوش صاحب پاکستان کو اسلام‘ اسلامی کلچر اور اسلامی زبان یعنی اردو کے تحفظ کے واسطے بنایا گیا تھا لیکن ابھی کچھ دن ہوئے کہ میں پاکستان گیا اور وہاں یہ دکھا کہ میں تو شیروانی اور پاجامہ پہنے ہوئے ہوں۔ لیکن وہاں کی گورنمنٹ کے تمام افسر سو فیصد انگریزوں کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ مجھ سے انگریزی بولی جا رہی ہے۔ اور انتہا یہ ہے کہ مجھے انگریزی میں ایڈریس بھی دیا جا رہا ہے۔

مجھے اس صورت حال سے بے حد صدمہ ہوا اور میں سمجھ گیا کہ اردو‘ اردو ‘ اردو کے جو نعرے ہندوستان میں لگائے گئے تھے وہ سارے اوپری دل سے اور کھوکھلے تھے اور ایڈریس کے بعد جب میں کھڑا ہوا تو میں نے اس کا اردو میں جواب دے کر سب کو حیران و پشیمان کر دیا اور یہ بات ثابت کر دی کہ مجھ کو اردو سے ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ محبت ہے اور جوش صاحب معاف کیجیے‘ آپ نے جس اردو کے واسطے اپنے وطن کو تج دیا ہے۔

اس اردو کو پاکستان میں کوئی منھ نہیں لگاتا اور جایئے پاکستان۔ میں نے شرم سے آنکھیں نیچی کر لیں۔ ان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن ان کی باتیں سن کر مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا ۔ میں نے پاکستان کے ایک بڑے شاندار منسٹر صاحب کو جب اردو میں خط لکھا اور ان صاحب بہادر نے انگریزی میں جواب مرحمت فرمایا تو میںنے جواب الجواب میں لکھا تھا کہ جناب والا‘ میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایاہے۔

؎ چو‘ کفراز کعبہ برخیزد‘ کجا ماند مسلمانی      (یادوں کی بارات۔ صفحہ 481-482)

ذرا اور سنیے۔ جوش صاحب نے وزیراعظم نہرو کو فون کیا۔ ان کا سیکریٹری مدراسی تھا۔ جوش صاحب کے نام کو درست طریقے سے سمجھ نہ پایا۔ ٹالنے کے لیے کہنے لگا کہ وزیراعظم مصروف ہیں۔ابھی بات نہیں کر سکتے۔ جوش کے لیے یہ طرز عمل ناقابل برداشت تھا۔ انھوںنے سخت غصے میں پنڈت نہرو کو انگارے جیسا خط لکھ ڈالا۔

’’خط روانہ کر دینے کے دوسرے دن اندرا گاندھی کا فون آیا کہ آج تین بجے سہ پہر کو میرے ساتھ چائے پیجئے‘ میں نے کہا بیٹی وہاں تمہارے باپ موجود ہوں گے‘ میں ان سے ملنا نہیں چاہتا‘ انھوں نے کہا میں پتا جی کو اپنے کمرے میں بلاؤں گی ہی نہیں۔ میں تیار ہو گیا۔شام کو جب برآمدے میں پہنچا‘ ایک چپراسی نے اندرا کے کمرے کی طرف اشارہ کر دیا‘ اور جب میں ان کے کمرے کی طرف بڑھا تو پیچھے سے آ کر پنڈت جی نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا‘ آیئے میرے کمرے میں۔ میں ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا ‘ انھوں نے میرا ہاتھ کھینچا اور مروت کے دباؤ میں آ کر میں ان کے ساتھ ہو گیا۔

ان کے کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ میرے بزرگوں کے ملنے والے سر مہاراج سنگھ بیٹھے ہوئے ہیں۔پنڈت جی نے کہا مہاراج سنگھ یہ وہی جوش صاحب ہیں جنھوں نے مجھ کو ایسا گرم خط لکھا کہ شملے کی ٹھنڈک میں پسینہ آ گیا‘ مہاراج سنگھ نے کہا غنیمت سمجھیے کہ یہیں تک نوبت آئی‘ ان کے بزرگوں سے آپ واقف نہیں۔ وہ جس پر گرم ہو جاتے تھے اسے ٹھنڈا کر دیا کرتے تھے۔ پنڈت جی ہنسنے لگے۔ گھنٹی بجائی‘ اس مدراسی سیکریٹری کو بلایا اور جیسے ہی اس نے کمرے میں قدم رکھا‘ وہ اس پر برس پڑے کہ تم نے مجھ سے پوچھے بغیر جوش صاحب کو ایسا بیہودہ جواب کیوں دیا۔ میں ابھی تمہارا ٹرانسفر کیے دے رہا ہوں۔ کل تم منسٹری آف کامرس میں چلے جانا۔ان کا برتاؤ دیکھ کر میں پانی پانی ہو گیا اور ان کی بے مثال رواداری و شرافت پر نگاہ کر کے میں ان کو گلے لگا کر رونے لگا‘‘۔ (یادوں کی بارات‘ صفحہ 485-486)

دوبارہ عرض کرونگا کہ ذرا ہمارے سیاسی اکابرین سے پوچھ لیجیے کہ جناب آپ نے آخری کتاب کب اور کونسی پڑھی تھی۔ اس کا مصنف کون تھا۔ جواب سن کر شاید کلیجہ پھٹ جائے۔ اس لیے کہ اکثریت جہالت کی علمبردار ہے۔

اگر خدانخواستہ آپ ان کی محفل کا تجزیہ فرما لیں تو آپ کو بھانڈ‘ میر عالم‘ جگت باز‘ مسخرے  تو مل جائیں گے۔ مگر اہل علم ڈھونڈنا ناممکن ہو گا۔ اس لیے کہ یہ وہ علم دشمن حکمران ہیں جو اپنے سے بلند سطح کے دماغ سے گھبراتے ہیں۔ذاتی احساس کمتری خم ٹھوک کر ان کے سامنے آ جاتی ہے۔یہ دانا لوگوں سے خائف رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے ملک پر ہمیشہ جہالت کی حکمرانی جاری و ساری رہے گی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔