شنگھائی پولیس بمقابلہ سندھ پولیس

امتیاز بانڈے  جمعـء 16 دسمبر 2022

اکتوبر 2017 میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے دیگر 17 افسران کے ساتھ چین کے خوبصورت اور ترقی یافتہ شہر شنگھائی جانے کا اتفاق ہوا۔

ائیرپورٹ پر شنگھائی پولیس کے افسران ہمارے منتظر تھے، ہمیں ائیر پورٹ پر مائیکل جس نے اپنا رینک ــــ ’’ فرسٹ کلاس سپروائزر( جو ہمارے ایس۔ پی کے رینک کے برابر ہوتا ہے) کروایا۔ جب کہ ، جیکی جس نے اپنا تعارف سیکنڈکلاس سپروائزر کی حیثیت سے کروایا( جو ڈی ایس پی کے برابر ہے) اور دیگر دو افسران کے ہمراہ ہم سب شنگھائی پولیس اکیڈمی دیگر الفاظ میں پولیس ٹریننگ کالج پہنچے۔

جہاں داخل ہوتے ہی پہلی بار یہ اندازہ ہوا کہ کوئی پولیس ٹریننگ کالج اتنا صاف ستھرا اور اتنی سہولتوں سے آراستہ بھی ہو سکتا ہے۔ میرے ذہن میں اپنے پولیس ٹریننگ کالج، شہداد پور اور سعید آباد کا پورا نقشہ گردش کرنے لگا ۔

شہداد پور تو پھر بھی کچھ ہرا بھرا ہے لیکن سعید آباد میں داخل ہوتے ہی دھول اور مٹی آپ کا استقبال کرتی ہے۔ پولیس اکیڈمی کے فرسٹ اور سیکنڈ فلورز پر ہم سب افسران کو علیحدہ علیحدہ کمروں میں ٹہرایا گیا جو کسی بھی طرح ٹو/ تھری اسٹار ہوٹل کے کسی کمرے سے کم نہیں تھے۔

دوسری جانب ہمارے پولیس ٹریننگ سینٹرز میں اے ایس آئی کو پکارا تو افسر جاتا ہے لیکن دوران تربیت ان کی رہائش بیرک نما کمروں میں رہتی ہے جہاں ہمارے وقت ۱۹۹۰ میں چونکہ بہت بڑا بیچ تھا تو ایک بیرک میں تیس سے بتیس زیر تربیت اے ایس آئیز اپنے سازو سامان سمیت رہتے تھے۔

ہمارے کپڑے اور دیگر سامان ایک کالے رنگ کے بڑے ٹین کے صندوق میں اور وہ بکس ہماری اپنی اپنی چارپائیوں کے نیچے رہتے تھے کیونکہ تیس بیتس افراد کے بیرک میں رہنے کی وجہ سے سامان رکھنے کی مزید جگہ نہیں تھی۔صبح سویرے پی ٹی کے لیے اٹھنے کے بعد ایک دیکھنے والا منظر ہوتا تھا جب تمام ٹرینی اے ایس آئیز باتھ رومز کے سامنے لائن لگا کر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے تھے،کیونکہ تیس بتیس افراد کی بیرک سے ملحقہ صرف چار یا پانچ باتھ رومز بنے ہوئے تھے۔

اب اگر کسی ٹرینی کو پریشر زیادہ بن رہا ہو تواسے لوٹا سنبھال کر قریبی کھیت میں جانا پڑتا تھا۔ جب 2010 میں ، دیگرٹرینیز کے ساتھ اپر اسکول کورس کرنے پی ٹی سی، سعید آباد گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی حال دیکھا بس اتنا ضرور تھا کہ ایک بیرک میں تیس بتیس افراد نہیں رہتے تھے۔

اگلے دن شام میں ہم سب افسر ان کو اکیڈمی کے صدر نے ڈنر کے لیے مدعو کیا۔ ڈائننگ ہال میں کافی تعداد میں چائنیز پولیس کے افسران باوردی موجود تھے۔

چونکہ ان کے کاندھوں پر رینک ہمارے رینک سے مختلف ہوتے ہیں اس لیے ہمیں یہ سمجھنے میں مشکل ہو رہی تھی کہ کون سینئر ہے اورکون جونیئر۔ ہال کے ایک سائیڈ پر چند باوردی افسران بیٹھے آپس میں بڑے خوشگوار ماحول میں خوش گپیوں میں مشغول تھے۔

ہمیں مائیکل نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ انھیں چند افسران کے درمیان اکیڈمی کے صدر بھی بیٹھے ہیں جو کم از کم ہمارے لیے ایک نیا منظر تھا کیونکہ تمام جونیئر افسران اپنے سینئرز کے سامنے سے نہ صرف بلا جھجھک گذر رہے تھے بلکہ آتے جاتے ’’سیلوٹ‘‘ کرنے کی پابندی بھی نہیں تھی۔

ہم نے اپنے پورے دورے میں کہیں بھی کسی جونیئر کو کسی سینئر کے سامنے با ادب ، با ملاحظہ ہوشیار والی پوزیشن میں کھڑا نہیں دیکھا۔گو کہ ان کا ڈسپلن قابل دید تھا لیکن ان کے افسران اور ماتحتوں کے درمیان ماحول میں تناؤ نہیں تھا اور وہ بہت آسانی سے اپنے سینئر افسران کے ساتھ دوستانہ ماحول میں گھل مل کر بات کررہے تھے اور میرے تجزیے کے مطابق دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ افسران اور ماتحتوں کے درمیان دوستانہ اور ٹینشن سے پاک ماحول ہے جس نے شنگھائی پولیس کودنیا کی بہترین پولیس کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔

ان افسران و ملازمان کے درمیان اچھے تعلقات کی ایک اور اہم چین میں پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی کا یکساں طریقہ کار ہے جو انگلینڈکی طرح کانسٹیبل بھرتی ہونے کے بعد سینیارٹی اور مختلف محکمانہ امتحان پاس کرنے کے بعد چیف کانسٹیبل یا آئی جی تک جانا ہے،یعنی وہاں بھرتی کا دہر امعیار نہیں ہے اور نہ ہی کوئی براہ راست کمیشن کے ذریعہ بھرتی کیا جاتاہے۔

اس کے بر عکس پاکستان، انڈیا اور سری لنکا وغیرہ میں وہی انگریز کے کالونیل نظام کے تحت کمیشنڈ افسران براہ راست بھرتی کیے جاتے ہیں، جن کا تجربہ تقریبا دو سال پر محیط ہوتا ہے جس میں سے ایک سال اکیڈمی کی تربیت اور ایک سال فیلڈ میں زیر تربیت رہنے کا عرصہ ہوتا ہے، لیکن اسے پولیس کے ان افسران پر مسلط کر دیا جاتا ہے جن کی پولیس کی نوکری اور تجربہ تیس سے پینتیس سال کے درمیان محیط ہوتا ہے۔

اگر قابلیت کی بات کریں توآج بھی پولیس کے بے شما ر نان کمیشنڈ( جنھیںہم رینکر کہہ کر پکارتے ہیں) اور نان گزیٹیڈ افسران اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن ان کی ماسٹرز ڈگری ، گریجویشن کی ڈگری کی بنیاد پر کمیشن پاس کر کے آنے والے افسر کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی، یہ وہ سب سے بڑا فرق ہے جو ہماری پولیس کے منفرد بننے میں رکاوٹ ہے۔

میری بوسنیا اینڈہرزیگووینا میں ہیومن رائٹس انویسٹی گیشن افسر کی حیثیت سے تقریبا بائیس ماہ تعیناتی کے دوران میرے دفتر میں ایک برطانوی سارجنٹ مارٹن بھی بیٹھتا تھا،ان دنوں میں سب انسپکٹر تھا ۔ ہوتا یہ تھا کہ جب کبھی میرے کمرے میں اسی دفتر میں کام کرنے والے میرے ایک ایس پی آتے تھے تو میں کھڑا ہو جاتا ہے،کیونکہ یہی ہمارے ملک کا وطیرہ ہے کیونکہ جو ایسا نہ کرے وہ خود جانتا ہے اس کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے۔

یہ تقریبا روز کامعمول تھا کہ جب بھی وہ افسر جب میرے دفتر میں آتے میں کھڑا ہو کر بات کرتا لیکن مارٹن ٹس سے مس نہ ہوتا۔ چند دن گذرے تو شاید مارٹن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ایک دن وہ مجھ سے پوچھ ہی بیٹھا کہ جب بھی جتنی بار بھی یہ پولیس افسر ہمارے کمرے میں داخل ہوتا ہے تم کھڑے ہو جاتے ہو، آخر کیوں؟ (جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔