فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کیلیے کارپوریٹ فارمنگ کا فروغ ناگزیر، ماہرین

بزنس رپورٹر  ہفتہ 17 دسمبر 2022
زرعی شعبہ سب سے تیزرفتاری سے بحال ہونے کی قدرتی صلاحیت رکھتاہے،نصیراللہ خان۔ فوٹو: ایکسپریس

زرعی شعبہ سب سے تیزرفتاری سے بحال ہونے کی قدرتی صلاحیت رکھتاہے،نصیراللہ خان۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: کارپوریٹ سیکٹر اور زرعی شعبہ کے ماہرین نے ملک کی فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کیلیے کسانوں کو درپیش مسائل کے فوری حل، زرعی تحقیق کے ساتھ کارپوریٹ فارمنگ کے فروغ کو ناگزیر قرار دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ کے تحت کسانوں کے عالمی دن کے موقع پر فاطمہ فرٹیلائزر کے اشتراک سے ’’سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال، پاکستان کے زرعی شعبہ کے لیے المیہ اور فوڈ سیکیورٹی کے خدشات‘‘ کے موضوع پرمباحثے میں شریک ماہرین نے کہا کہ سیلاب سے سب سے زیادہ زرعی شعبہ اور کسان متاثر ہوئے جس سے پاکستان کو درپیش فوڈ سیکیورٹی کے چیلنجز بھی بڑھ گئے ہیں، پاکستان کو درپیش ہر بحران سے نمٹنے میں کسانوں نے اہم کردار ادا کیا ، کسانوں کی بقامیں ہی پاکستان کی بقاہے اس لیے ضروری ہے کہ کسانوں کی مشکلات کا فوری حل فراہم کرتے ہوئے زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔

آن لائن مباحثہ میں فاطمہ فرٹیلائزر کی ڈائریکٹر سیلز اینڈ مارکیٹنگ رابیل سدوزئی ، پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر اور فاطمہ فرٹیلائزر کے فارمر انگیجمنٹ منیجر نصیر اللہ خان نے شرکت کی جبکہ ارم خواجہ نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔

فاطمہ فرٹیلائزر کی ڈائریکٹر سیلز اینڈ مارکیٹنگ رابیل سدوزئی نے کہا کہ زرعی شعبہ جی ڈی پی میں 15ہزار ارب روپے کا حصہ دار ہے، فاطمہ فرٹیلائزر کی یہ سوچ ہے کہ زرعی شعبے کی بہتری کیلیے حکومت کے ساتھ نجی شعبہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جب تک خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہیں ہوں گی زراعت کا شعبہ ترقی نہیں کرے گا،کمپنی سیلاب سے گلگت بلتستان سے سندھ تک متاثرہ علاقوں میں چھ ماہ سے ریلیف کے کاموں میں مصروف ہے۔

پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر نے کہا کہ سیلاب میں سب سے زیادہ زرعی شعبہ اور کسان متاثر ہوئے،کسانوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں مال مویشی مر گئے، گھر بار اور اسٹرکچر بہہ گیا، کسانوں کے تن پر کپڑا تک نہ بچا ایسے میں حکومت کی جانب سے کسانوں کی جو مدد ہونا چاہیے تھی وہ نہ ہوسکی، امدادی اداروں نے کسانوں کو مدد فراہم کی،زرعی شعبہ کا سب سے بڑا مسئلہ یکساں مواقع اور حکومتی سپورٹ نہ ملنا ہے، بھارت میں کسانوں کو پاکستانی 750 روپے میں فرٹیلائزر ملتی ہے، پاکستانی کسان 2250میں خرید رہا ہے، فرسودہ طریقوں، ریسرچ کے فقدان کی وجہ سے زیادہ پیداواریت نہ ہونے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت پوری کرنا دشوار ہورہا ہے،حکومت زرعی جی ڈی پی کا محض 1.8فیصد زرعی تحقیق پر خرچ کررہی ہے دنیا بھر میں فوڈ سیکیورٹی کی اہمیت سرحدوں کی سیکیورٹی سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکی ہے تاہم پاکستان میں اب بھی زرعی شعبہ نظر انداز ہے۔

انھوں نے کہا کہ فیوچر مارکیٹنگ مکینزم اور سپورٹ پرائس نہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کو ان کی محنت کا معاوضہ نہیں ملتا یہی وجہ ہے کہ کسان ان فصلوں کی جانب جارہے ہیں جن کی قیمت اچھی ہے جبکہ کپاس سمیت دیگر اہم فصلوں کی پیداوار مسلسل کم ہورہی ہے۔

اس موقع پر نصیر اللہ خان نے کہا کہ یقیناً 2022 کا سال پاکستان کے عوام بالخصوص کسانوں کے لیے بہت تکلیف دہ رہا، اس قدرتی آفت میں ہلاک اور بے گھر ہونے والے متاثرین کے لیے گہرے ہمدردی کے جذبات ہیں، انھوں نے کہا کہ پاکستان کے معاشی نقصانات کا اندازہ 30 ارب ڈالر کے لگ بھگ لگایا گیا جس میں سے نصف کے قریب نقصان زرعی شعبہ کو فصلوں اور اسٹرکچر کی تباہی کی شکل میں پہنچا جبکہ 16ارب ڈالر بحالی کے لیے درکار ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ زراعت ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، حکومت اور نجی شعبہ مل کر زرعی شعبہ کو اس بحران سے نکالنے کے لیے پرعزم ہے، امید ہے حالات جلد بہتر ہوں گے کیونکہ زرعی شعبہ سب سے تیز رفتار سے بحال ہونے کی قدرتی صلاحیت رکھتاہے، انھوں نے حکومتی اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کسانوں کو 58ارب روپے کا ریلیف دیا، فاطمہ فرٹیلائزر بھی کسانوں کی مشکلات کم کرنے اور زرعی لاگت میں کمی کے لیے پیش پیش ہے، فرٹیلائزر پر فی بیگ 2500روپے قیمت کم کی گئی۔

انھوں نے سلام کسان پلیٹ فارم کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا پلیٹ فارم معاشرے کے تمام طبقات بشمول کسانوں اور حکومت اور نجی شعبہ کو یکجاکرنے کا ذریعہ ہے، زرعی شعبہ کی ترقی اور فوڈ سیکیورٹی کو نجی شعبہ کی شمولیت سے یقینی بنایا جاسکتا ہے، ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کا فروغ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ کارپوریٹ سیکٹر کے پاس وسائل اور ٹیکنالوجی کے ساتھ بین الاقوامی روابط ہوتے ہیں جو زراعت کی ترقی کے لیے بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں کاشتکاری کا وسیع رقبہ اس وقت زیر کاشت نہیں ہے، کارپوریٹ فارمنگ سے اس رقبہ کو کاشتکاری کے قابل بنایا جاسکتا ہے جس کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ اور کارپوریٹ فارمنگ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

شرکانے کسانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ایکسپریس میڈیا کے تحت مباحثہ کے انعقاد کو سراہا اور پاکستان کے زرعی شعبے سے وابستہ افراد بالخصوص خواتین کسانوں کو خراج تحسین پیش کیا جو مردوں سے زیادہ محنت کرکے ملک کی زرعی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔