فرینڈلی اپوزیشن، بدقسمت خیبرپختونخوا

جمشید باغوان  پير 19 دسمبر 2022

سال 2005 ہے اور مہینہ جون کا۔ میں اس وقت کے وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کے دفتر میں بیٹھا تھا، بجٹ پیش کرنے کا دن تھا، ان دنوں ٹی وی چینلز والا جنون نہیں تھا۔

اپنے ایکسپریس اخبار کے لیے خبر کی تلاش میں وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ آیا تھا۔اپنے پرانے دوست، انتہائی متحرک آفیسر قیصر عالم کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی۔

قیصر عالم خیبر پختونخوا کے مختلف محکموں کے سیکریٹری رہے ہیں جن میں اطلاعات اور تعلیم کے محکمے کافی اہم تھے، اگر کہا جائے کہ اے این پی دور میں تعلیمی سرگرمیوں میں قیصر عالم کا بھی بڑا ہاتھ ہے تو غلط نہ ہو گا۔ قیصر ان دنوں وزیراعلیٰ کے جی ایس او تھے۔

انھوں نے قریبا 5 سال تک اکرم درانی کے دور میں اپنے فرائض بہ حسن و خوبی ادا کیے۔ قیصر سے بجٹ کی گپ شپ چل رہی تھی، کئی حکومتی ارکان اسمبلی بھی موجود تھے، وزیراعلیٰ نے تین مختلف شخصیات کو فون ملانے کا حکم دیا۔

میں نام سن کر حیران و پریشان ہو گیا کیونکہ بجٹ سے قبل وزیراعلیٰ، اپوزیشن لیڈر شہزادہ گستاسپ اور عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سمیت ایک اور حزب اختلاف کے متحرک رہنما سے بات کرنے کے خواہشمند تھے۔

میری حیرانی ابھی برقرار تھی کہ وزیراعلیٰ کی شہرادہ گستاسپ سے بات شروع ہوئی۔ اکرم درانی اپوزیشن لیڈر کو بتا رہے تھے کہ وہ بجٹ پیش کرنے اسمبلی آ رہے ہیں ،کوئی شور شرابہ نہیں ہونا چاہیے۔ بجٹ پر تنقید دوست سمجھ کر کی جائے۔

دوسری جانب سے یقین دہانی کرائی گئی۔ اسی طرح بشیر احمد بلور سے بھی رابطہ ہو گیا۔ وزیراعلیٰ نے انھیں بھی مدد کی درخواست کی جو قبول کی گئی۔ بجٹ پیش ہوا، تقریریں ہوئیں لیکن فرینڈلی اپوزیشن نے وزیراعلیٰ کو زیادہ تنگ نہیں کیا، نتیجتاً حزب اختلاف کے پارلیمانی لیڈر ہونے کے باوجود بشیر احمد بلور شہید کو سب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز ملے، ان کا ہر کام ہو جاتا تھا۔ شہزادہ گستاسب کو شامی روڈ پر کرایہ کا بنگلہ لے کر دیا گیا اور اسمبلی سے باقاعدہ قانون منظور کرا کر اپوزیشن لیڈر کی مراعات میں بھی اضافہ کیا گیا۔

ترقیاتی فنڈز اس کے علاوہ تھے۔ یہ کہانی اس لیے یاد آئی کہ تحریک انصاف کے سربراہ نے ایک بار پھر اگلے جمعے کو خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی توڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔

مطلب دونوں وزراء اعلیٰ کو مہلت دے دی ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر اسمبلی بچائیں۔ ایسا ہی کام پرویز خٹک بھی کر چکے ہیں اور اکرم درانی بھی۔ پرویز خٹک جب وزیراعلیٰ تھے تو 2014 کے دھرنے میں عمران خان نے ایسے اشارے دیے کہ وہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی توڑنے کا کہہ سکتے تھے ۔ یہ دیکھ کر پرویز خٹک نے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مل کر اپنے ہی خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی اور معاملہ ٹھنڈا کر دیا۔

تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت ختم ہوئی تو وزیراعلیٰ محمود خان کی مدد بونیر کے سردار بابک نے کچھ ایسے کی کہ انھوں نے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا دی، باوجود اس کے کہ اپوزیشن کے پاس مطلوبہ اکثریت سرے سے موجود ہی نہیں تھی، حالات بہتر ہونے کے بعد تحریک واپس لے لی گئی۔

اب بھی شاید ایسا ہی ہو کیونکہ اپوزیشن اعلان کر چکی ہے کہ وہ حکومت کو اسمبلی توڑنے نہیں دے گی۔ اپوزیشن کی گھبراہٹ سے یہ بات واضح ہے کہ وہ فی الحال الیکشن میں نہیں جانا چاہتی ہے اور پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے سے کترا رہی ہے۔

حالانکہ صوبے میں گورنر ان کا اپنا ہے، مرکز میں شہباز شریف وزیراعظم ہیں۔ امیر مقام وفاقی محکموں کے انچارج ہیں اور صوبے کی سیاست میں کافی سرگرم ہیں۔

ایمپائر بھی نیوٹرل ہو چکا ہے اور جو نگران وزیراعلیٰ آئیں گے، اس میں بھی اپوزیشن کی مشاورت لازم ہے تو ایسے میں الیکشن سے فرار کیوں؟ یا پھر اپوزیشن کو یہ کہہ دینا چاہیے کہ فی الحال وہ پی ٹی آئی کے مقابلے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری جانب حکومت بھی اسمبلی توڑنے میں یا حکومت ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ورنہ وزیراعلیٰ کی جانب سے مرکزی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی کے سامنے احتجاج کی دھمکی نہیں دی جاتی۔

اس میں شک نہیں کہ مرکزی حکومت کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں مالی بحران کی سی کیفیت ہے جس کاا اظہار صوبے کے وزیر خزانہ اور وزیراعلیٰ محمود خان کر چکے ہیں۔

اگر پی ٹی آئی خیبر پختونخوا حکومت ختم کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو انھیں اتنی لمبی تاریخیں دینے کی ضرورت نہیں تھی۔

وزیراعلیٰ محمود خان 5 لائنوں کی ایک سمری گورنر کو بھجواتے ، گورنر چاہتے ہوئے بھی وزیراعلیٰ کے اس آئینی حکم میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔

وزیراعلیٰ کے حکم پر اگر گورنر نے منظوری نہیں دی تو اسمبلی 48 گھنٹوں کے اندر خود تحلیل ہو جائے گی تو پھر اپوزیشن کو عدم اعتماد کی تحریک لانے کا موقع کیوں دیا؟؟؟؟ کچھ ماہرین کا یہ خیال بھی ہے کہ اگر خیبر پختونخوا اسمبلی سے پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی مستعفی ہو جائیں تو اسمبلی خود بخود ڈس فنکشنل ہو جائے گی کیونکہ اپوزیشن کے پاس اتنے ممبران ہی نہیں کہ وہ قائد ایوان منتخب کرا سکیں ۔ تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ صوبے کی اپوزیشن اور حکومت دونوں’’ میں توڑوں کہ نہ توڑوں‘‘ کہہ کر صرف سیاست کھیل رہی ہے ۔

دونوں فریق صوبے میں انتخابات کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تو پھر دونوں فریق کیوں عوام کا وقت ضایع کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور اپوزیشن بھی ایک مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔

خیبرپختونخوا اس وقت پھر سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ پولیس اور فورسز پر ہونے والے حملوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر دن رات کوئی نہ کوئی پولیس چوکی، تھانے یا موبائل طالبان کے حملوں کا نشانہ بنتی ہے۔

ابھی ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب لکی مروت میں راکٹ لانچر کے ذریعے پولیس تھانے کو نشانہ بنایا گیا جس میں 4 اہلکاروں کی شہادت ہو گئی۔ حملہ آوروں نے دستی بموں کا بھی استعمال کیا۔

یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ تحریک طالبان پھر سے اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ بندوبستی علاقوں کے اندر آکر پولیس تھانوں پر حملے کرتے ہیں، جب پولیس محفوظ نہیں ہو گی تو عوام کے پاس طالبان کی بات ماننے اور انھیں بھتہ دینے کے سوا کیا چارہ ہو گا۔

حکومت اور اپوزیشن سیاست سیاست کھیلنے میں اتنی مصروف ہے کہ اس صوبے میں خراب ہوتی ہوئی امن و امان کی صورتحال نظر نہیں آ رہی ہے۔ ضم اضلاع میں بھی سیکیورٹی فورسز پر دباؤ پڑھ رہا ہے۔

ایک طرف پی ٹی ایم بہت زیادہ محترک ہو گئی ہے اور ان کا نشانہ پھر سے سیکیورٹی فورسز ہے جب کہ دوسری جانب تحریک طالبان اپنے حملوں میں شدت لا رہی ہے، ادھر سیکیورٹی فورسز کو سیاسی مخالفت کا بھی سامنا ہے اور وہ طالبان سے بھی لڑ رہے ہیں۔

لیکن ہماری اپوزیشن کو تو اسمبلی بچانے کی فکر لگی ہوئی ہے ورنہ وہ ضرور پوچھتی کہ تحریک طالبان سے جاری مذاکرات کا انجام کیا ہوا؟ طالبان کے بڑے بڑے رہنماؤں کی رہائی کے بدلے میں ہمیں کیا ملا؟ تحریک طالبان پاکستان کی ضمانت جن افغان طالبان رہنماؤں یا حکومتی عہدیداروں نے دی تھی، ان سے باز پرس کون کرے گا؟ بدقسمتی یہ ہے کہ 2002 کے بعد خیبر پختونخوا کی اپوزیشن ہمیشہ فرینڈلی ہی رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔