یا حضرت مولانا ( دوسرا حصہ )

ڈاکٹر فاروق عادل  پير 19 دسمبر 2022
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

افسر تشریفات نے بتایا کہ مرقد کی جزوی بندش کے باوجود آپ بدمزہ نہیں ہوں گے کیوں کہ مزار کے جن حصوں پر کام جاری ہوتا ہے، اس کے آگے اسی حصے کی تصویر اس اہتمام سے لگادی جاتی ہے کہ زائر کو اصل اور نقل کا فرق عام طور پر پتہ نہیں چلتا۔ ایسے منظر استنبول میں ہم نے پہلے بھی دیکھ رکھے تھے۔

اس لیے سوائے خاموشی کے چارہ نہیں تھا لیکن قونیا میں تو قسمت کے دریچے ہی کھل گئے۔ائیرپورٹ پر قونیہ کے گورنر موجود تھے۔ کہنے لگے کہ مکرر کہ مزار بند ہے لیکن انتظام کر لیا گیا ہے، ہمارے معزز مہمان بدمزہ نہ ہوں گے۔

ایئرپورٹ سے ہم سیدھے مزار پہنچے جہاں پاکستان کے صدر کو دیکھ کر محبت کرنے والے ترک جمع ہو گئے۔ کچھ نعرہ زن ہوئے اور جنھیں موقع ملا، انھوں نے مصافحہ کر لیا۔ قونیہ پہنچ کر صدر مملکت ہمیشہ شاد کام ہوا کرتے تھے۔

وہ ہمیں اکثر ایک نوخیز کا واقعہ سنایا کرتے تھے۔ نائیجیریا سے واپسی پر ری فیولنگ کے لیے ان کا طیارہ قونیا رکا تو حضرت مولاناؒ کی کشش انھیں سیدھا مزار پر لے گئی۔

حاضری اور دعا کے بعد وہ باہر آئے تو ایک منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ بیس بائیس کا ایک نوجوان لڑکا ان کی طرف اشارہ کر کے وہاں موجود زائرین سے بہ آواز بلند مخاطب ہوا ۔کہنے لگا کہ لوگو! یہ اس ملک کا صدر ہے جب ترکیہ پر آزمائش آئی تو وہاں کے لوگوں نے اپنا سب کچھ ہم پہ نچھاور کر دیا۔

عورتوں نے اپنے زیور، بچوں نے اپنی بچت اور بڑوں نے اپنی جمع پونجی۔ صدر مملکت یہ منظر دیکھ کر متاثر ہوئے اور اس بچے سے پوچھا کہ ایک ڈیڑھ صدی پہلے کی باتیں تمھارے علم میں کیسے آئیں؟ لڑکے نے بتایا کہ ہمیں یہ پڑھایا جاتاہے۔

اس واقعے نے ترکیہ کے نظام تعلیم کی نہایت خوب صورت تصویر ان کے سامنے پیش کی۔ یوں ان کی دل چسپی اس میں بڑھ گئی۔ انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے اس سلسلے میں بات کی اور کچھ تجاویز پیش کیں کہ ہمیں بھی ترکیہ کی طرز پر مختلف سطح کے بچوں کے تعلیمی نصاب میں اصلاحات کرنی چاہئیں۔

انجینئر بلیغ الرحمن اس زمانے میں وفاقی وزیر تعلیم تھے۔ وزیر اعظم نے انھیں ہدایت کی کہ وہ آیندہ اس سلسلے میں ممنون صاحب سے ہدایات لیا کریں گے۔

ملک بھر میںیکساں تعلیمی نصاب کا تصور اسی واقعے کے بعد پروان چڑھا۔ عمران خان کے دور حکومت میں یکساں نصاب کی تیاری کا بہت کریڈیٹ لیا گیا۔ شفقت محمود صاحب کے زمانے میں اس سلسلے میں شایع ہونے والی بیشتر کتب بلیغ صاحب کی دور وزارت میں ہی شایع ہوئی تھی اور خصوصی تقریب میں ممنون حسین صاحب نے ان کا افتتاح بھی کیا تھا۔

میزبانوں کی راہ نمائی میں ہم مزار میں داخل ہوئے تو وہ ہمیں نمائش کے لیے رکھی گئی تصویر کے پیچھے لے گئے اور ان تمام آرائشی انتظامات کے بغیر اس مزار کی زیارت نصیب ہوئی، سات سو برس قبل جس انداز میں اسے تعمیر کیا گیا ہو۔

صدر مملکت کی راہ نمائی میں اس جلیل القدر بزرگ کے لیے بلندی درجات کی دعا کے بعد میزبان نے کہا کہ آئیے، اس طرف چلیں۔ مزار سے نکل کر ہم بائیں جانب ایک تنگ سی گلی سے گزرے جہاں حضرت مولانا کی بانسری کی دھن گزرنے والوں کے دامن پکڑتی تھی۔

’کیا رقص درویش کا پروگرام ہے؟ ‘

میں نے عبد الاکبر سے پوچھا۔ عبدالاکبر اس زمانے میں وہاں پاکستان کے پریس اتاشی تھے۔ کئی برس قیام کے دوران وہ ترکی سیکھ چکے تھے، کہنے لگے کہ چلتے رہیں سر، معاملہ کچھ اور لگتا ہے۔ گورنر مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے۔ ہم وہاں جا کر کھڑے ہوئے تو دروازہ کھول گیا۔

یوں لگا جیسے آپ سے کھلا ہو۔ گورنر نے صدر مملکت سے اندر داخل ہونے کا اشارہ کیا تو وہ اندر داخل ہوئے۔ پیچھے پیچھے ہم بھی سامنے ایک میز تھی جس پر کپڑے کی ایک گٹھڑی رکھی تھی۔ گورنر نے نہایت احترام سے گھٹڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ کہا جیسے ہمارے یہاں بسم اللہ کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سب نے دھیمی آواز میں درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔

مجھے ٹیلی ویژن پر دیکھا ہوا ایک منظر یاد آ گیا۔ وہ کوئی دستاویزی فلم تھی جس میں صدر رجب طیب اردوان اسی گھٹڑی کے سامنے کھڑے تھے اور دائیں سے بائیں اس کا ایک ایک پلا اوپر سے اٹھا کر میز پر بچھاتے جاتے تھے۔

یہ عین وہی کوٹھری تھی، عین وہی گھٹڑی تھی اور تقریبا ویسا ہی منظر تھا۔ درود شریف میری زبان پرجاری تھا۔ اس کے باوجوددل تیزی سے دھڑک رہا تھا جیسے کچھ ہونے کو ہو۔

ویسے تو یہ مقام ہی معطر تھا لیکن جیسے جیسے گھٹڑی تہہ کھلتی جاتی، خوشبو بڑھتی جاتی۔ ایسی کیفیت میں تہیں گننے کا یارا کس حوصلہ مند میں ہوتا؟ اب خیال آتا ہے کہ ممکن ہے، تریسٹھ ہوں۔ واللہ اعلم، تہیں کھل گئی تو سامنے ایک خوش نما شیشی رکھی تھی۔ صدر مملکت نے نہایت احترام کے ساتھ اسے ہاتھ میں لیا تو بتایا گیا کہ موئے مبارک۔ دل کی دھڑکن رک گئی۔ میں صدر صاحب کے بائیں جانب کھڑا تھا۔

صدر صاحب نے موئے مبارک کی زیارت کی۔ تادیر ہاتھ میں لیے ایک ٹک اسے دیکھتے رہے،پھر کچھ دیر بعد انھوں نے اسے میرے ہاتھ دے دیا گویا میرا دل اچھل کر باہر نکل آیا۔ شیشی کی دیوار سے لگا ہوا موئے مبارک۔ ’آقا علیہ السلام کے جسم مبارک کا ایک حصہ میرے ہاتھ میں ہے جس شیشے کو اس کی حفاظت کا شرف حاصل ہے، اسے چھونے کی سعادت مجھے مل رہی ہے‘۔

یہ گناہ گار فرش پر کھڑے کھڑے ہی عرش معلی پر جا پہنچا  ؎

عرش کرسی تے بانگاں ملیاں تے مکے گیا شور

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، مر جاوے کوئی ہور

بابا بلھے شاہ ہی میری دلی کیفیات کی ترجمانی کر سکتے تھے۔ ممنون صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ علاقائی شاعری گہرائی سے محروم ہوتی ہے ۔ میں احتراما خاموش رہا لیکن اس تجربے کے بعد ایک بار تنہائی میں ان سے گفتگو کے دوران شاعری زیر بحث آئی تو میں نے انھیں یہ شعرسنایا۔

پنجابی وہ سمجھتے تھے اورپنجابی میں کسی کی کہی ہوئی بات کو وہ بڑے دلچسپ کہنے میں دہرا بھی لیا کرتے تھے، اس لیے شعر سمجھنے میں انھیں کوئی الجھن تو پیش نہ آئی لیکن اس کے باوجود دو تین سوالات کرنے کے بعد وہ جھومنے لگے اور کہا کہ یہ میرے اندازے سے کہیں مختلف اور کہیں گہری ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔