میرا ایمان پاکستان

اطہر قادر حسن  بدھ 21 دسمبر 2022
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

لاہور میں دھند اور دھوئیں نے مل کر موسم کو سموگ زدہ کردیا ہے ، لاہور کی فضاء دنیا کی آلودہ ترین فضاء بن چکی ہے۔ اسی جان لیوا آلودگی کے باوجود لاہور میں سیاست کا کھیل زور شور سے جاری ہے۔ معلوم یوں ہوتا ہے کہ موسمی اور سیاسی دھند ایک ساتھ ہی چھٹے گی۔

جناب عمران خان لاہور میں تشریف فرما ہیں اور زمان پارک میں اپنے گھر میں بیٹھ کر سیاست کے مہرے آگے پیچھے کررہے ہیں، یوں اپنی اتحادی ق لیگ اور اپنے ارکان اسمبلی کا صبر آزما رہے ہیں ۔ حضرت سلطان باہو نے فرمایا تھا۔

دل دریا سمندروں ڈونگے

کون دلاں دیاں جانے ہو

غیب کا علم تو اﷲ کے پاس ہے لیکن دنیا میں اس کے بندے بھی بہت گہری بات کرجاتے ہیں۔ سیاست کی دھما چوکڑی میں وزیر اعظم جناب شہباز شریف کے نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جو پیپلز پارٹی کے چیئر مین بھی ہیں وہ آج کل دنیا کے مختلف ممالک کے دھواں دھار دورے کر رہے ہیں۔

انھوں نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بھارت کے وزیر اعظم کو بے نقاب کیا ہے جس پر پورے بھارت میں آگ لگی ہوئی ہے ۔انھوں نے بھارتی ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرانے پر وزیراعظم مودی کو گجرات کا قصائی کہا ہے جس پر بھارتی تلملا رہے ہیں ۔ پہلے میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ ایک تو ہم دشمنوں کو ساتھ لے کر پیدا ہوئے ہیں اور دوسرے دشمنوں کے مقابلے میں ابھی تک زندہ اور تابندہ ہیں اور مقابلے کی ٹکربنے ہوئے ہیں ۔

اس لیے جب بھی کسی پاکستانی رہنماء کی جانب سے بھارت کے خلاف کوئی بیان داغا جاتا ہے تو اس پر پورے بھارت میں آگ لگ جاتی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارتی اندر سے ہم سے خوفزدہ ہیں، وہ ہمارے جذبہ جہاد کی طاقت کا اندازہ رکھتے ہیں جس کا مقابلہ کرناان کے بس کی بات نہیں ہے۔

اسی لیے وہ سازشوں سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں بگاڑ پیدا کرنے کی مسلسل کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ وہ ہمارے ہمسائے افغانستان کی سر زمین کو استعمال کر رہا ہے۔ اصل بات وہی ہے کہ ہماری طاقت دشمن کے لیے خوف کی علامت ہے۔

مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ اپنے مرحوم والد کے ساتھ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقاتیں رہی ہیں ۔ وہ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ میں نے جو میزائل پروگرام شروع کیا ہے وہ بھارت کے شہروں کے نقشوں اور فاصلوںکو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے ۔ ہمارے تیار کردہ میزائل اتنے منٹ اور سیکنڈ میں بھارت کو نیست و نابود کر سکتے ہیں اور ان میزائلوں کو راستے میں روکا بھی نہیں جا سکتا ۔ یہ سب کچھ بھارت کو بھی معلوم ہے۔

بھارت جیسا پڑوسی ہونے کے باوجود ہم اگر محفوظ ہیں تویہ سب ہمارے وردی والوں کی مرہون منت ہے۔ میں ایک فوجی علاقے کا باشندہ ہوں اور فوجیوں کو ان کی چھاؤنیوں اور جنگ کے میدان کی باہر کی زندگی میں اپنے گاؤں میں دیکھتا ہوں، ان کی جانثاری اور فرض شناسی کی لاتعداد مثالیں میں نے ان سے سنی ہیں جو میرے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔

یہ وہ حقیقی داستانیں ہیں جن کو یاد کر کے میں دشمن کوحقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں لیکن جن کی وجہ سے ہمارے دن رات سکون سے گزر رہے ہیں، ان کے متعلق جب اپنے رہنماؤں کی گفتگو سنتا ہوں تو بے اختیار مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ پاکستانی کہلانے والے ہمارے نہیں ہیں ۔ ہمارے تو ملک کے اندر بھی ایسے غدار موجود ہیں جو اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ہم پاکستانیوں کو اپنے ان نام نہادرہنماؤں سے خبردار رہنا چاہیے اور انھیں ان کے پاکستان اور پاکستان محافظوں کے خلاف بولے جانے والے ہر لفظ کا جواب دینا چاہیے۔ ہر ایک کا اپنا اپناایمان اور پاکستان ہے ۔

کسی کا پاکستان صرف اس کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہے اور کسی کا پاکستان اس کاایمان ہے، میرے جیسے لوگ تو اپنا ایمان اپنے پاکستان پر نچھاورکرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے کیونکہ ہمارے پاس تو یہی کچھ ہے، محل ماڑیاں نہیں ہیں البتہ ایک مچھر دانی ضرور ہے جو ہمارے گاؤں میں ہر اس گھر کے آنگن میںگرمیوں میں لگی نظر آتی ہے ،گویا یہ ایک اطلاع ہوتی ہے کہ گھر کا فوجی جوان چھٹی پر آیا ہواہے۔

اس مچھر دانی کا فوجی جوان سے یہ تعلق ہے کہ خدانخواستہ اگر ملیریا وغیرہ ہو جائے تو سپاہی کو سزا ملتی ہے، اس لیے وہ اپنی حفاظت کے لیے مچھر دانی ساتھ ضرور رکھتا ہے، آپ یوں سمجھیں کہ یہ مچھر دانی اس سپاہی کی حفاظت کرتی ہے جو میری حفاظت پر متعین ہے اور اس کی ضمانت دیتا ہے۔ میرے خیال میں نادان لوگوں کے لیے اتنا کہنا ہی کافی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔