امریکا کا غیر منصفانہ کردار

کنول زہرہ  جمعـء 23 دسمبر 2022

3 دسمبر 2022 کو امریکا کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ میانمار، چین، کیوبا، ایریٹریا، ایران، نکاراگووا، شمالی کوریا، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمنستان کو 1998 کے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت ’’خصوصی تشویش والے ممالک‘‘ کے طور پر نامزد کرنے کا اعلان کرتا ہوں، ان ممالک پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں یا اس کے خلاف کارروائی نہیں کرنے کا الزام ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کے مطابق جو ممالک مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔ پرامن اور خوشحال ہوتے ہیں ہم ان حقوق کی ہر ملک میں احتیاط سے نگرانی کرتے ہیں۔دوسری جانب مذہبی آزادی سے متعلق امریکی خود مختار کمیشن نے بھارت کا نام لسٹ میں شامل نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔امریکی کمیشن نے بھارت میں اقلیتوں پر ظلم کے باعث بھارت کا نام لسٹ میں شامل کرنے کا کہا تھا۔

بھارت میں مودی سرکار کی چھتر چھایا میں ہندو انتہا پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بھارت کے کسی نہ کسی شہر سے ایسے واقعات منظر عام پر نہ آئیں جن میں بالعموم کسی بھی اقلیت اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف کوئی قابل مذمت واقعہ پیش نہ آئے۔

یہ صورتحال صرف افسوس ناک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری سے ٹھوس کارروائی کا تقاضا بھی کرتی ہے۔

ایک حالیہ واقعے میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر شاہ جہانپور میں ہندو انتہاپسندوں نے چوک کوتوالی میں واقع مسجد سید شاہ فخر عالم میاںمیں گھس کر قرآن پاک کو نذرِ آتش کردیا جس کے خلاف بڑی تعداد میں مسلمانوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرے کیے اور اس افسوس ناک واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف قرارواقعی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

امام مسجد حافظ ندیم اور دیگر لوگ جب نماز کے لیے مسجد میں پہنچے تو انھوں نے وہاںقرآن پاک کے جلے ہوئے صفحات دیکھے اور اس بارے میں دیگر لوگوں کو اطلاع دی جس کے بعد علاقے میں مسلمانوں نے زبردست احتجاج کیا۔

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر لاٹھی چارج کیا۔ ادھر، ریاست چھتیس گڑھ میں ہندو انتہاپسندوں نے گائے کا گوشت رکھنے پر دو افراد کو برہنہ کر کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ایسے واقعات مسلسل ہورہے ہیں لیکن افسوس کہ اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت میں جب سے نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں تب سے ہندو انتہا پسندی کو ایک نئی شکل ملی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وابستگان اور ان کے حامی ملک بھر میں جہاں اور جیسے جی چاہتا ہے بالعموم تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی کارروائیاں کسی خوف و خطر کے بغیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کئی واقعات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس سلسلے میں پولیس اور انتظامیہ بھی شر پسندوں کا ساتھ دیتی ہے اور حد یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو عدالتوں سے بھی ریلیف مل جاتا ہے۔

یہ صورتحال نہایت تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔ عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کو اس حوالے سے بہت سے ثبوت اور شواہد مل چکے ہیں جن کی بنیاد پر کئی بار مذمتی بیانات تو جاری ہوتے ہیں لیکن بات زبانی جمع خرچ سے آگے کبھی نہیں بڑھتی۔ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند عناصر کی تخریب کاریوں کا سلسلہ تھمنے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، اور تعلیمی اداروں، عبادت گاہوں، سڑکوں، گلی محلوں اور گھروں سمیت کوئی بھی جگہ ان عناصر کے شر سے محفوظ نہیں رہی۔ گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں ہی اس انتہا پسندی اور بربریت کی ایک نئی شکل سامنے آئی۔

4 جولائی 2021ء کو سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹوئٹر پر ’سلی ڈیلز‘ کے نام سے ایک قبیح سلسلہ شروع کیا گیا جس کے تحت بیسیوں مسلمانوں لڑکیوں اور عورتوں کی تصاویر نشر کر کے ان کی بولی لگانے کا کہا گیا۔ ان میں سے ہر تصویر کے ساتھ Deal of the Day لکھا ہوا تھا۔ جن مسلم خواتین اور لڑکیوں کو اس گھناؤنے سلسلے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ان میں کئی ایسی بھی تھیں جو اپنے اپنے شعبوں میں ایک نام اور مقام رکھتی ہیں۔

اس سلسلے کو ایک طرف تو مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے استعمال کیا اور دوسری جانب اس کا مقصد ان مسلم بچیوں اور عورتوں کو ڈرا دھمکا کر زندگی کی دوڑ میں شریک ہونے سے روکنا تھا جو مختلف شعبوں میں پیشہ ورانہ بنیادوں پر خدمات فراہم کررہی تھیں۔

مسلم بچیوں اور خواتین کے خلاف انتہا پسندوں کی طرف سے جو قبیح سلسلے شروع کیے گئے ان کی گونج بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی سنائی دی اور عالمی اداروں تک بھی یہ آواز پہنچی لیکن اس حوالے سے بھی محض بیانات ہی جاری ہوئے اور اس سے آگے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔

بھارت میں منظم منصوبے کے تحت مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، مسلمان بہن بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں ہیں، ہندوتواسوچ کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں رہنا ہے تو رام رام کہنا ہو گا۔

بالی وڈ اسٹارز شاہ رخ خان، عامر خان کئی بار انتہا پسند ہندوؤں کی نفرت کا شکار بن چکے ہیں، بھارت نے جس طرح مقبوضہ کشمیر کو انسانی جیل میں تبدیل کیا گیا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔مقبوضہ وادی میں چن چن کر مسلم نوجوانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، انھیں جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔

مودی کی دہشت گردغنڈہ تنظیم آر ایس ایس بھارت میں ہندو شدت پسندی کو منظم اور انتہائی خطرناک انداز میں مسلمانوں کیخلاف نفرت اورتشدد کوابھار رہی ہے،بھارت میں محض شک کی بنیاد پرمسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے،ہندو انتہاپسندوں کی مسلمانوں سے نفرت آخری حدوں کو چھو رہی ہے،مودی نے مسلمانوں کیخلاف ایسی فضا پیدا کردی ہے کہ جہاں ان کی زندگیاں داؤپرلگ چکی ہیں۔

ان مظالم کے باوجود امریکا کوبھارت کی ستم ظریفی نظر نہیں آتی ہے، امریکا کا یہ اقدام پاکستان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔عالمی برادری بالخصوص امریکا کو پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دینے والی قربانیوں کا احترام کرنا چاہیے، امریکا کو غیر جانب داری سے کام لینا چاہیے، بھارت کے ساتھ کاروباری تعلق کے تحت اس کی کوتاہیاں نظرانداز کرنا منصفانہ اقدار کی شدید خلاف ورزی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔