کرونز نامی بیماری کیا ہے ؟

 جمعرات 5 جنوری 2023
آنتوں کے پیچیدہ مرض کی علامات کیا ہیں ؟ مرض کو قابو میں رکھنے کے لئے کیا کچھ کرنا چاہیے؟ ۔ فوٹو : فائل

آنتوں کے پیچیدہ مرض کی علامات کیا ہیں ؟ مرض کو قابو میں رکھنے کے لئے کیا کچھ کرنا چاہیے؟ ۔ فوٹو : فائل

یہ سنہ 2020 کی بات ہے جب کرسمس کے روز لوسی ہرمن کی طبیت بگڑ گئی۔ اس سے قبل کئی ماہ پہلے سے ہی ان کے پاخانے میں خون اور تیزی سے وزن میں کمی جیسی علامات ظاہرہو رہی تھیں، لیکن اس دن کھانے کی میز پر وہ بے ہوش ہی ہو گئیں اور انھیں ہسپتال لے جانا پڑا۔ اڑتالیس گھنٹے بعد پتا چلا کہ انھیں کرونز(crohn’s ) نامی بیماری ہے۔

اس واقعے کے دو برس بعد آج 20 برس کی لوسی ہرمن انٹرنیٹ پر بڑی تعداد میں لوگوں کو کرونز بیماری، اس کی علامات اور تشحیص کے بارے میں بتاتی ہیں۔ اس نے بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے لوگ اکثر سمجھتے ہیں کہ آنتوں کے امراض صرف زیادہ عمر کے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ امراض کسی بھی عمر میں کسی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔

میری مختلف قسم کے لوگوں سے آن لائن بات ہوئی۔ چند ایسے لوگ جو مستقل طور پر ہسپتال میں پڑے ہوئے ہیں اور چند وہ جو اب ہسپتال سے واپس گھر آ چکے ہیں اور اس مرض کو قابو میں رکھتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق یہ مرض اگر ہو جائے تو تا عمر مریض کو اس کے ساتھ ہی جینا پڑتا ہے۔ جسم میں نظام انہضام سے منسلک حصوں میں سوجن ہو جانا اس مرض میں عام ہے۔ اس کا کوئی مکمل علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا ہے، لیکن ادویات، چند ٹیکوں اور آپریشن کی مدد سے اس کے اثرات کو کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

ایک دوسری مریضہ کلوئی نکسن کو سنہ 2019 میں پتا چلا کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ بھی لوسی کی طرح اپنے تجربات آن لائن دیگر متاثرین کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔ خیال رہے کہ یہ مرض عام طور پر آنتوں کو متاثر کرتا ہے لیکن اس کے علاوہ یہ ہمارے ہاضمے کے نظام کے کسی دیگر حصے کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

21 برس کی کلوئی کی غذائی نالی اس مرض کے سبب متاثر ہو گئی اور اب انھیں غذا کے لیے ’فیڈنگ ٹیوب‘ کی مدد لینی پڑتی ہے۔

اس پلاسٹک کی نالی کی مدد سے ان کے جسم میں غذا پہنچتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں ’ میرا عین مقصد کرونز کے بارے میں آگہی پھیلانا ہے کیوںکہ اس مرض میں مبتلا ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو یقینی طور پر کمزور آنتوں سے وابستہ مشکلات سے ہی گزرنا پڑے گا۔ ایسا ضروری نہیں، کرونز کے سبب نظام انہضام کا کوئی بھی حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔‘

کلوئی کے مطابق اس مرض کے بارے میں ان کی معلومات میں سوشل میڈیا کی مدد سے مزید اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا ’ مجھے فیڈنگ ٹیوب کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ دوسرے لوگوں کے مشوروں سے بہت مدد حاصل ہوئی اور میں دوسروں تک بھی یہ معلومات پہنچانا چاہتی ہوں۔‘

32 برس کے ڈاکٹر زیاد ال دبونی برطانیہ میں ریڈیوگرافر ہیں۔ وہ بھی انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کی مدد سے اس مرض کے بارے میں آگہی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ محض 17 برس کے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ کرونز کے مرض میں مبتلا ہیں۔

ابتدائی دنوں میں ڈاکٹروں نے ان میں علامات دیکھ کر کہا کہ وہ ممکنہ طور پر امتحانات کی تیاری کے دوران ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ کسی میں ایسا مرض جس کی علامات دنیا کو واضح طور پر نظر نہیں آ تیں، اس کے بارے میں جب آپ مریض سے بات کرتے ہیں، تو پتا چلتا ہے کہ کس طرح وہ ہر روز اس مرض سے وابستہ کسی نہ کسی مشکل کا سامنا ضرور کر رہا ہوتا ہے۔‘ زیاد نے کہا ’ ہم ان علامات کے ساتھ جینا سیکھ جاتے ہیں اور جب لوگوں کو پتا بھی چلتا ہے تو وہ اکثر کہتے ہیں کہ تمھیں دیکھ کر لگتا نہیں کہ تم بیمار ہو۔‘ کرونز اور کولائیٹس کو پوشیدہ امراض کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

آنتوں کا مرض ’کرونز‘ کیا ہے؟

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی ویب سائٹ کے مطابق کرونز نامی مرض کسی بھی عمر کے افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کی علامات عام طور پر بچپن یا نوجوانی میں واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ تاعمر پیچھا نہ چھوڑنے والا مرض ہے جس میں آنتوں کے علاوہ نظام انہضام کے مختلف حصوں میں سوجن ممکن ہے۔

اس کی سب سے عام علامات میں پیچش، پیٹ میں درد، پاخانے میں خون آنا، تھکن اور وزن میں کمی شامل ہیں۔ برطانیہ میں طبی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ سات سے زیادہ دن تک ان میں سے کسی بھی علامت کو محسوس کرتے ہیں تو فوری طور پر اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

سارہ سلیٹ برطانیہ میں کرونز اینڈ کولائٹس نامی ادارے کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔ انھیں یہ بات بہت متاثر کرتی ہے کہ نوجوان نسل سوشل میڈیا کی مدد سے اس موضوع پر آگہی پیدا کر رہی ہے لیکن وہ زور دیتی ہیں کہ انٹرنیٹ پر ملنے والی ہر بات درست نہیں ہوتی، اس لیے اگر کسی کو لگتا ہے کہ ان میں اس مرض جیسی علامات واضح ہیں تو اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

خود سے مرض کی تشخیص اور علاج کی کوشش کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ’ بعض اوقات لوگ خوراک سے متعلق ایسے مشوروں پر عمل کرنے لگتے ہیں جو انتہائی غلط ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہ مشورے سپلیمنٹس یا طرز زندگی میں تبدیلی سے متعلق بھی ہو سکتے ہیں۔‘ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اس طرح کے مشورے مکمل جانچ پڑتال کے بعد ماہرین سے ہی لینے چاہئیں۔ اس کے علاوہ بعض معاملوں میں یہ بھی ممکن ہے کہ علامات واقعی ذہنی دباؤ کے سبب ہوں اور انھیں محض انٹرنیٹ پر موصول معلومات کی بنیاد پر کرونز سمجھ لیا جائے۔

سارہ، زیاد، کلوئی اور لوسی سبھی زور دیتے ہیں کہ ڈاکٹر سے رابطہ کرنا سب سے ضروری عمل ہے۔ اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

زیاد نے کہا ’میرا خیال ہے کہ اس مرض کے ساتھ اکثر شرمندگی کا احساس اتنا جڑ جاتا ہے کہ لوگ اس بارے میں بات کرنے سے کتراتے ہیں، اور ایسا صرف آنتوں میں سوجن کے امراض کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ اس جیسی کسی بھی علامات کے ساتھ ہوتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ اس شرمندگی کی بڑی وجہ اس بارے میں معلومات کی کمی اور غلط فہمیاں بھی ہیں۔‘ لوسی کہتی ہیں : ’ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ مرض کی تشخیص کو مثبت انداز میں دیکھیں، بہت سے لوگ اسے سب سے بری صورت حال سمجھنے لگتے ہیں۔

تشخیص ہونے پر ہی آپ اس کا علاج کرا سکتے ہیں اور مزید زندہ رہ سکتے ہیں۔‘ لوسی کا خیال ہے ’یہ بھی ضروری ہے کہ لوگ اپنے ڈاکٹر سے اس بارے میں پر اعتمادی کے ساتھ تفصیل سے بات کریں۔ اس میں شرمندگی والی کوئی بات نہیں۔‘ ( بشکریہ بی بی سی )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔