ہیتھرو ایئر پورٹ پر سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی مجھے قطار سے باہر نکال لیا گیا

مدثر بشیر  اتوار 29 جنوری 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

تیسری  قسط

ٹرمینل 4 مسافروں سے بھرا پڑا تھا۔ بس کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ میں بس کی کھڑکی سے تجسس آمیز نظروں سے ہوائی اڈے کو دیکھنے لگا جس کی تب و تاب آنکھوں کو خیرہ کر تی تھی۔

ہر سُو آتی جاتی بسیں، کھلے احاطوں میں کھڑے اور چڑھتے، اُترتے ہوائی جہاز اور سڑکوں کے ساتھ بنی پارکنگ میں جمع لاتعداد انتظامی گاڑیاں جن پر برٹش ایئر ویز، Fedex اورچند دیگر کمپنیوں کے لوگوز لگے ہوئے تھے۔

بس پندرہ منٹ تک ہمیں لے کر ایئرپورٹ کے اندر گھومتی پھرتی رہی۔ راستے میں چند مقامات پر مسافروں کو اُتارنے کی غرض سے مختصر پڑاؤ کیا اور پھر ہمیں منزل تک پہنچا دیا۔

ٹرمینل نمبر پانچ شیشے سے مزین ایک وسیع و عریض عمارت تھی۔ اندر جاتے ہی میں نے وائی فائی انٹرنیٹ آن کیا جو محرق (بحرین) ایئرپورٹ کے برعکس بندشوں سے آزاد اورلامحدود وقت کے لیے تھا۔

اپنے دوست ذیشان علی کو فون کیا جو ہیتھرو کے باہر اپنی گاڑی میںموجود تھا۔ مجھے وہاںدس گھنٹے کے قریب قیام کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے پاکستانی پاسپورٹ کے لیے آن آرائیول (On Arrival) ویزا کی سہولت موجود نہ تھی وگرنہ میں چار پانچ گھنٹے تو باہرگھوم پھر سکتا تھا۔

یہ فلور دیگ سے چاول کا یک دانے چکھنے جیسا تھا جس سے پوری دیگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ فلور جیسے پوری دنیا کی نمائندگی کر رہا تھا اور یُوں لگتا تھا جیسے پوری دُنیا کا ایک مینا بازار ہے جو یہاں سجایا گیا ہے۔

اس فلور کو مزید دو منزلوں میں تقسیم کیا گیا تھا جہاں بڑے بڑے برینڈز کے اسٹورز بھی تھے۔ اگرچہ یہ 28 اکتوبر کا دن تھا اور کرسمس میں لگ بھگ دو ماہ باقی تھے لیکن آنے والے تہوار کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ابھی سے رعایت دے دی گئی تھی۔

فلائٹ میںابھی تین گھنٹے باقی تھے۔ مختلف اسٹالز دیکھ رہا تھا کہ اس دوران جیولری کے ایک اسٹال سے مجھے ایک جوان لڑکی نے ہندی اُردو لہجے میںپکارا اور پوچھا کہ کیا آپ پنجاب سے ہیں۔

میں نے پہلے تو حیرانی سے اُسے دیکھا مگر پھر یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ چونکہ یہاں مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں سو انہیں یہ سمجھنے میں کوئی دِقت نہیں ہوتی کہ کون کس جگہ سے آیا ہے۔

میں نے جب جواب میں بتایا کہ میں لاہور سے ہوں تو اُس کی خوشی دیدنی تھی۔ پھر وہ پندرہ بیس منٹ مجھ سے لاہور کی باتیں کر تی رہی اور جب میں نے اُسے یہ بتایاکہ میں وینکوور بطور لکھاری جا رہا ہوں تو اُس کی خوشی کئی گنا بڑھ گئی۔

اُس نے بتایا کہ وہ کیرالا کی رہنے والی ہے اور اُس کی ساس بھی فکشن رائٹر ہیں۔ اُس لڑکی کا نام ’بِندی‘ تھا۔ یہاں ایک چیز ہر جگہ موجود تھی، کاؤنٹر یا میز پر گلاسوں کے ہمراہ مٹکا سا دھرا ہوا تھا جس کے پانی میں پودینے کے پتوں کی آمیزش تھی۔

وہاں موجود ایک لڑکے نے میرے استفسار پربتایا کہ یہ پانی عام حالات میں تو صحت بخش ہے ہی، یہاں اسے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دُنیا بھر سے آئے مسافروں کے نظامِ انہضام کو محفوظ بنایا جائے۔ اسی اثناء میں اسکرین پر گیٹ نمبر نمودار ہو گیا سو میں بھی اپنا سامان اُٹھائے ساتھی مسافروں کے ہمراہ مقررہ گیٹ (42-B) کی جانب چل پڑا اور وہاں پہنچ کر اطمینان کا سانس لیا۔

لندن کی معلوم تاریخ کی ابتداء تقریباً چھ ہزار قبل مسیح سے ہوتی ہے۔یہ شہرقدیم ادوار سے حملہ آوروں اور بحری قذاقوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنتا رہا۔ ان پے درپے حملوں کی وجہ سے لندن کئی بار اُجڑا، کئی بار آباد ہوا۔ 43 ء میں اس علاقے پر رومیوں نے قبضہ کر لیا۔

انہوں نے یہاں ایک ایک بندرگاہ اور اس سے ملحق تجارتی بستی بنائی جس کا نام Londinium تھا۔انہوں نے اس شہر پر 43ء سے پانچویں صدی عیسوی تک حکمرانی کی۔

اس کے بعد کئی صدیاں یہ انگلستانی سیکسنز(Saxons) سے لے کر بحری ڈاکوؤں تک اور ڈنمارکیوں سے نارمنز(Normans) تک مختلف حملہ آوروں کے زیر تسلط رہا۔اسی دوران60ء میں ایک کیلٹک (Celtic)ملکہ Bou dicca نے حملہ آور ہو کر اس شہر کو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں شہر خاکستر ہو گیا۔ اس آتش زدگی کو لندن کی تاریخ کی بڑی آتش زدگیوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

اس ہولناک حملے کے بعد شہر دوبارہ بسایا گیا تاہم 125ء میںبیرونی حملہ آوروں نے اسے دوبارہ جلا دیا ۔پھر تعمیر نو ہوئی اور آبادی کچھ برس کے اندر اندر چالیس ہزار سے زائد ہو گئی۔ اس شہر کی قسمت تب بدلی جب 1065ء میں ویسٹ منسٹر ایبے (West Minister Abbey) یہاں پر بنا۔ ایک سال بعد ولیم فاتح (William the Conqurer) ہیسٹنگ کا معرکہ جیتنے کے بعد انگلینڈ کا فرماں روا بن گیا۔

1067ء میں ولیم فاتح جسے ڈیوک آف نارمینڈی (Duke of Normandy)بھی کہا جاتا ہے، اس نے شہر کے موجودہ قوانین، حقوق اور سہولیات کی بنیاد رکھی۔ اُس نے اپنے دور میں ٹاور آف لندن تعمیر کروایا، جو بہت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

1176ء میں یہاں پر ایک شہرہ آفاق لکڑی کا پُل’ لندن ووڈن برِج‘ (London wooden bridge) بنا جسے کئی بار حملہ آوروں نے جلایا اور بالآخر یہاں پر ایک پتھر کا پُل تعمیر کر دیا گیا۔1199ء میں کنگ جون (King John)نے شہر کی خودمختاری کو تقویت دی جبکہ 1215ء سے میئر کے سالانہ انتخاب کا آغاز ہوا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کئی سال تک انگلینڈ کا کوئی دارالحکومت نہیں تھا۔

ا س کے بعد جی ٹیوڈر (G Tudor)اور سٹُواَرڈ (Stuard)بادشاہت کا دور آیا۔ اُن کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوتا گیاتو لندن کا گھیرا اور اہمیت بھی بڑھتی چلی گئی۔

جب ہنری دا ارتھ (Henry the earth) تخت پر فائز ہوا تو لندن کی آبادی اُس وقت ایک لاکھ سے زائد تھی۔1605ء میں کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص گائے فوکس (Guy Fox)نے برٹش ہاؤس آف پارلیمنٹ کو بارود سے اُڑانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اس کا یہ پلاٹ ناکام ہو گیا جسے gun powder plot کا نام دیا جاتا ہے۔

لندن والوں پر ایک اور بڑی مصیبت 1665ء میں آئی جب یہاں پر طاعون نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ لوگ مارے گئے۔

تب لندن کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب تھی۔ 1666ء میں لندن کی عظیم آتش زدگی (The great fire of London) کے نتیجے میں زیادہ تر لکڑی کے بنے گھر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ اس دور کے بعد بکنگھم پیلس(Buckingham Palace) اور سینٹ پال کیتھدڑل(Saint Paul’s Cathedral) کی تعمیر ہوئی۔

مرکزی حکومت کے اداروں کے لندن کے قریب ویسٹ منسٹر منتقل ہونے اور یہاں کے تجارتی حجم میں اضافے نے اسے دارالحکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بادشاہ ہنری (Henry)کی بیٹی الزبتھ اول(Elizabeth I) کا دور خوشحالی اور ترقی کا دور تھا۔ تاہم اس خوش حالی پر پروٹسنٹ اور کیتھولک کی باہمی آویزش نے منفی اثرات مرتب کیے۔ 1694ء میں بینک آف انگلینڈ بنا جس کی وجہ سے لندن کو ایک بین الاقوامی فنانشل پاور ہاؤس کی حیثیت حاصل ہوئی۔

اگرچہ 1840ء تک لندن کی آبادی 20 لاکھ ہو چکی تھی تاہم حالات پہلے کی مانند غیر یقینی ہی رہا کرتے تھے۔ شہر میں وقتاً فوقتاً ہیضہ اور دیگر وبائیںپھُوٹنے سے باسیوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار رہتی تھیں۔

ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں برٹش ایمپائراپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ اسی سنہری دور میں 1859ء میں لندن میں انڈر گراؤنڈ ریلوے سسٹم (Tube System)کا آغاز ہو چکا تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران لندن شدید بمباری کی زد میں رہا۔

پہلی عالمی جنگ میں فضائی حملوں کے نتیجے میں یہاں تقریباً 23 سو افرادکی ہلاکت ہوئی جبکہ دوسری عالمی جنگ میں بارہا فضائی بمباری کے نتیجے میں لندن میں کہیں زیادہ بھیانک تباہی ہوئی جب یہ ہلاکتیں 30 ہزار کے لگ بھگ جا پہنچیں۔

اس شہر نے طاعون کی وباء اور ایک بڑی آتش زدگی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمن فضائیہ کی کارپٹ بمباری سمیت بہت سے سانحے دیکھے، لیکن یہ ہر آفت کے بعد پوری توانائی سے اُبھرا۔

لندن سے وینکوور

کچھ دیر بعد اناؤنسمنٹ (Announcement)ہوئی تو جہاز کی طرف چل دیے۔ یہاں بھی وہی طریقہ کار تھا، سب سے پہلے بزرگ، معذور ، اُن کے بعد بزنس کلاس اور آخر میں اکانو می کلاس والے۔ ہمارے اردگرد بہت سے کرسمس ٹری سجائے گئے تھے۔

میں اپنی قطار میں کھڑا انہیں دیکھنے میں محو تھا کہ چیکنگ پر مامور ایک انگریز خاتون میرے ہاتھ میں پکڑے سبز پاسپورٹ کو مشکوک نگاہوں سے گھورتی ہوئی قریب پہنچی اور آتے ہی پاسپورٹ طلب کیا اور پھرجب اس پر ایک ہی ویزہ کینیڈا کا دیکھا تو مجھے قطار سے باہر نکال لیا۔ سوال جواب شروع ہوئے تو میں نے اسے کہا کہ یہ ٹرانزٹ ہے۔

اس پر وہ مزید ناراض ہو گئی کہ میں نے اس کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے کچھ اور بات کیوں کی۔ اس پر میں اور زیادہ گھبرا گیا۔ پہلی بار گھر سے نکلا تھا اور اس طرح کی صورتِ حال سے آشنا نہیں تھا، سو ہزار وسوسے مجھے گھیرے ہوئے تھے۔

آخر بھلا ہوا کہ ایک سوال کے جواب سے اسے پتہ چل گیا کہ میں ایک لکھاری ہوں اور اپنا ایوارڈ وصول کرنے جا رہا ہوں۔

اس پر پہلے تو اُس نے مجھے سر تا پا دیکھا اور با رہا دیکھا جیسے یقین نہ کر پا رہی ہو کہ لکھاری لوگ کیا اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ قصہ مختصر، اپنا مکمل اطمینان کرنے کے بعد اس نے کہا کہ میں معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو تکلیف اُٹھانا پڑی لیکن یہ میرے فرائض میں شامل ہے۔

اس کے بعد پڑتال میں شامل اس کے ساتھی انگریزمردوں کا رویہ بھی کچھ اس طرح کا تھا کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ سب ہماری ڈیوٹی تھی، آپ کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، اس کے لیے معافی۔

ایئر کینیڈا کا یہ جہاز کسی طور بھی برٹش ایئر ویز سے کم تر نہیں تھا۔ رن وے پر کھڑے اس جہاز سے منعکس ہونے والی سورج کی کرنیں آنکھوں کو خیرہ کرتی تھیں۔

میری سیٹ بائیں جانب کی کھڑکی کے بالکل ساتھ تھی۔ ائیر پورٹ پر جہازوں کی آمد و رفت کا یہ عالم تھا کہ ہر منٹ میں برٹش ایئر ویز کا کوئی نہ کوئی طیارہ چڑھتا اُترتا دیکھا۔

جہاز نے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ایک موڑ کاٹا اور دھیرے دھیرے رفتار بڑھاتا ٹیک آف کر گیا۔ اس تاریخی شہر کی ہریالی دیکھ کر مجھے ایک بار پھر لاہور کی یاد آ گئی اور یہ سوچ کر میں من ہی من میں کُڑھنے لگا کہ کبھی لاہور کے اردگرد بھی بہت سے سرسبز و شاداب زرعی رقبے ہوا کرتے تھے اور ہم آسمان کا اصلی نیلا رنگ دیکھ پاتے تھے لیکن پھر سب خواب و خیال ہو گیا۔

سرمایہ داروں اور اجارہ داروں نے شہر کے چاروں جانب سونا اُگلتی ہریالی پر جدید رہائشی کالونیاں اور کمرشل زون تعمیر کیے اور اس سے اربوں کمائے۔

جس کے نتیجے میںلاہور کئی طرح کی آلودگیوں کا شکار ہو کر رہ گیا۔ اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ یہ وہی لاہور ہے جس کے باسیوں کو اسّی(80) کی دہائی تک تازہ سبزیاں اور خالص دودھ شہر سے ہی میسر تھا۔

میرے ساتھ والی سیٹ پر اٹھائیس تیس برس کا عراقی لڑکا آن بیٹھاجو خاصا پریشان اور گھبرایا ہوا معلوم ہوتا تھا، کبھی ایئر ہوسٹس تو کبھی انچارج کے پاس جاتا۔ کچھ ہی دیر میں معاملے سے آگاہی ہو گئی۔

پتہ چلا کہ موصوف کی نوبیاہتا دلہن کا ہوائی جہاز کا یہ پہلا سفر ہے جسے اس کے ساتھ سیٹ نہیں ملی۔ کوئی بیس منٹ کی انتھک کوشش کے بعد وہ محترمہ کو اپنے ساتھ والی سیٹ پر لانے میں کامیاب ٹھہرے۔ تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ موصوف کا نام صالح ہے اور کئی برس ہوئے وہ عراق سے کینیڈا منتقل ہو چکا تھا اور اب وہیں کا شہری ہے۔

کینیڈا سکونت کے بعد وہ پہلی بار عراق واپس گیا اور بیاہ رچا کر دلہن کے ہمراہ وینکوور واپس جا رہا تھا۔ دونوں میاں بیوی باہمی گفتگو عربی زبان میں کر رہے تھے اور پھر چند ہی منٹوں میں دُلہنیا اپنے شوہر نامدار کی گود میں سر رکھ کر سو گئی اور موصوف مجھ سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کرنے لگے۔

وینکوور کا پہلا ناشتہ، جتندرہانس اور پریم مان

اگلی صبح مجھے ہر حال میںآٹھ بجے سے پہلے ڈائننگ ہال پہنچنا تھا، اس لیے اپنی انہی سوچوں کے ساتھ اپنے بستر میں جا گُھسا۔ چالیس گھنٹوں سے زائد سفر نے تھکا کر رکھ دیا تھا۔ موبائل کا ٹائم آٹومیٹک ٹائم زون سے مل گیا۔

صبح سات بجے کا الارم لگا دیا۔ باوجود اس کے کہ رات بھر بے خوابی کی کیفیت رہی، صبح جاگا تو تھکاوٹ خاصی حد تک کم ہو چکی تھی۔ نہا دھو کر نیچے ہال میں پہنچا۔ راستے میں دیکھا کہ سب لوگ ایک دوسرے کو صبح بخیر کہہ رہے تھے، حتیٰ کہ وہ بھی جوآپس میں شناسا نہیں تھے۔

ہمارے فلور کی روم سروس دن کے اوقات میں ایک چینی کے پاس تھی، جب میں لفٹ کے قریب پہنچا تو اس نے کورنش بجا لاتے ہوئے گڈ مارننگ کہا۔ نیچے استقبالیہ سے لے کر ناشتے کی میز تک ہر کوئی ہر کسی کو گڈ مارننگ کہتا دکھائی دیا۔ وینکوور میں انگریزوں کے بعد سب سے زیادہ بسنے والی قوم چینی ہے۔

ہماری صبح کی میزبان ایک انگریز خاتون تھیں جن کا نام پیچ (Peach)تھا۔ وہ انتہائی مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔ ہال میں تمام میزیں پُر تھیں سو مجھے کچھ دیر کاؤنٹر پر انتظار کرنا پڑا۔ اور پھر جیسے ہی ایک میز خالی ہوئی تو وہ میزبان خاتون چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ سجائے چلی آئی۔

میں نے مینیو کارڈ دیکھ کر ڈبل روٹی، انڈے کا آملیٹ، جام، دودھ اور چائے کاآرڈر دیا جو منٹوں میں سرو (serve)کر دیا گیا۔ البتہ دودھ بالکل ٹھنڈا تھا۔ میں نے چائے میں مکس کیا تو وہ بہت ہی ٹھنڈی بنی۔ میں نے خاتون سے درخواست کی کہ آپ اس کو مجھے مائیکروویو اوون میں گرم کر دیں۔ اس نے ہنس کر کہا کہ ایسا نہیں ہوتا لیکن آپ ہمارے مہمان ہیں، سو کر دیتی ہوں۔

میں نے لاہوری انداز کی دودھ پتی بنائی، اس کی گرمائش سے جسم میں توانائی محسوس ہونے لگی۔ بل آیا تو میں نے ہوٹل والوں کی جانب سے دیا گیا واؤچر نکالا، جسے دیکھ کر میرے ہوش اُڑ گئے کہ اس پر پیکج میں ہوٹل کی جانب سے آفر کیے گئے ناشتے کا مینیو بھی درج تھا اور وہ میرے ناشتے سے یکسر مختلف تھا۔ مجھے خود پر غصہ آنے لگا کہ میں نے ناشتہ آرڈر کرنے سے پہلے واؤچر کیوں نہیں پڑھا۔ ایک بار پھر پیچ سے مدد طلب کی۔

اس نے کچھ دیر میرے واؤچر اور بل کو بغور دیکھنے اور سوچنے کے بعد ایک مسکراہٹ کے ساتھ مجھے حوصلہ دیا کہ ابھی آپ کو ایک ہفتہ مزید قیام کرنا ہے، اس دوران اسے ایڈجسٹ کر دیا جائے گا۔ اس نے اگلی بار سے واؤچر پہلے دکھانے کی ہدایت کی۔

ناشتے کے بعد ہوٹل سے باہر سڑک کی جانب آ گیا جس کی مغربی سیدھ انتہائی خوبصورت گھر بنے ہوئے تھے۔ اِن کے ساتھ قطار در قطار چنار پیڑوں کا سلسہ تھا، جن سے جھڑے پتوں نے سڑک اس طرح ڈھک لیا تھا کہ اسے سنہری پتوں کی سڑک کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ دس پندرہ منٹ کی چہل قدمی کے بعد میں واپس ہوٹل اپنے کمرے میں آ گیا۔ کمرے کی ایک کھڑکی کھولی، سورج اپنی بھرپور چمک کے ساتھ روشن تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ اس موسم میں یہاں بارشیں عموماً بہت زیادہ ہوتی ہیں اور آسمان بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے۔

سڑک کنارے مختلف اقسام کے درختوں کا سلسلہ گھروں کے ساتھ ساتھ تاحدِ نگاہ پھیلا ہوا تھا، مگر ان کی اکثریت پت جھڑ کے باعث بِنا پتو ں کے تھی، چند درخت ہرے، نیلے اور زرد پتوں سے لدے ہوئے تھے اور یہ پتے بھی تیز ہوا کے جھونکوں کی زد میں آ کر زمین بوس ہوئے جا تے تھے۔ درختوں کے نیچے باڑوں کے ساتھ لگی بیلیں ہری بھری اور پھولوں سے بھری پڑی تھیں۔ غرض طرح طرح کے رنگوں کے پتے اور پھول مِل کر عجب سماں دکھا رہے تھے۔

میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بھی پیڑوں کی رنگا رنگی دیکھ چکا ہوں، لیکن یہاں کے درختوں کے رنگ اور شباہت بالکل الگ ہے۔ مجھے ایک بار پھر سے یہ گماں ہوا کہ یہ محض پتّے نہیں بلکہ ایک سنہرے رنگ کی چادر ہے جو دھرتی نے اوڑھ رکھی ہے۔

بارہ بجے کے قریب پریم مان اور جتندر آ گئے۔ انہیں چوتھے فلور پر کمرہ ملا تھا اور وہ اپنا سامان وغیرہ کمرے میں رکھ آئے تھے۔ اس سے قبل دونوں سے فون پر تو بات ہو چکی تھی لیکن بالمشافہ ملاقات پہلی بار ہو رہی تھی۔ پریم مان ستّر برس کے پیٹے کے سفید اور کم بالوں والے ایک بزرگ تھے لیکن تندرست و توانا دکھائی دیتے تھے۔

ان کے ساتھ جتندر ہانس تھے جن کی کہانی کاری کے سوشل میڈیا پر خاصے چرچے ہیں۔ وہ پچاس برس کی عمر کے گورے چِٹے، چھ فٹ سے اُونچی قامت کے شخص ہیں جن کے بال بالکل سیاہ تھے ، البتہ ان کے قدرتی سیاہ یا رنگے ہوئے ہونے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

وہ بڑے پرتپاک انداز سے ملے اور پھر ہم گپ شپ کرتے پریم مان جی کی گاڑی میں بیٹھ کر ’سری‘ کی جانب چل دیے۔ وسیع و عریض سڑکیں، اُونچی اونچی عمارتیں دیکھتے، دریائے فریزر (Fraser)کے پل پر سے گزر کر ہم لوگ سری کی آبادی میں جا پہنچے ۔

ڈاکٹر رگھبیر سنگھ اور کیفے سپائس 72

یہ ایک پہاڑی کی ایک بستی ہے جس میں انتہائی سلیقے سے اُونچے نیچے راستے اور ان کے کناروں کے ساتھ ساتھ گھر بنائے گئے ہیں۔ ہماری پہلی منزل ڈاکٹر رگھبیر سنگھ کا گھر تھا جو برسہا برس سے پنجابی ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ بہت سے تراجم، کتب ، رسالہ ’سِرجنا‘اور لاتعداد خدمات ان کے کھاتے میں درج ہیں۔

پریم مان سے قبل ڈھاہاں کی جیوری کی سربراہی بھی چند برس تک ان کے ذمہ رہی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہفتہ وار ڈاکٹری چیک اپ کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر رگھبیر سنگھ اپنی اہلیہ اور داماد کے ساتھ پہنچ گئے۔

ان کا گھر ذرا چڑھائی پر تھا، کوئی دس کے قریب سیڑھیاں چڑھ کر داخلی دروازہ تھا۔ داخلی دروازے کے ساتھ ایک لمبوترا ڈبہ رکھا گیا تھا جس میں گھر والوں کے ساتھ ساتھ ہم باہر سے آئے لوگوں نے بھی جوتے اُتارے۔ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ جو ٹھیٹھ ہندوستانی پنجابی سبھا کی خاتون تھیں، بہت پیار سے ملیں۔

ہندوستانی مٹھائیوں کے ساتھ گھر کی کچھ نمکین ڈشز بھی چائے کے ساتھ پیش کی گئیں۔ یہ جان کر حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ ڈاکٹر رگھبیر سنگھ نے ہی پہلی مرتبہ ہندوستان میں نجم حسین سید کی کتاب ’سیدھاں‘ گور مکھی رسم الخط میں شائع کی تھی۔

میرے میزبانوں کو قطعاً اندازہ نہ تھا کہ ماں بولی کی اس ایکتا کے باعث میرے دماغ میں کس کس طرح کے خیالات اور تصورات جنم لے رہے تھے۔

ٹی وی لاؤنج میں آویزاں تصاویر، مُوڑھے، صوفے اور ان کے غلاف، غرض ہر چیز سے اس گھر کے پنجابی ہونے کا اظہار ہو رہا تھا۔ کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعد ہم لوگ اہل خانہ سے اجازت لے کر دوپہر کے کھانے کے لیے نکلے جسے اب سہ پہر کا کھانا کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔

پندرہ بیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم ایک بڑے تجارتی علاقے میں سپائس 72 نامی ہندوستانی کیفے میں داخل ہوئے۔

ہماری میز کے لیے ویٹرس کے فرائض ایک ہندوستانی لڑکی انجام دے رہی تھی۔ مغربی لباس میں ہونے کے باوجود اس کی بولی اس کی قومیت ظاہر کر رہی تھی۔

ڈاکٹر صاحب نے کچھ دیر اس سے بھی گفتگو کی جس سے تصدیق ہوئی کہ اس کا گاؤں لدھیانے کے قریب تھااور وہ انجینئرنگ کی چار سالہ ڈگری کے لیے کینیڈا میں تھی، اور نیشنیلٹی کے لیے اس کی فائل بھی سرکاری کھاتے چڑھ چکی تھی۔

اس لڑکی سے گفتگو سے ہمیں بطورِ خاص اس بات کا ادراک ہوا کہ کس طرح بیرونِ ملک کے اور خصوصاً ہندوستانی پنجاب کے طالبِ علم نہ صرف اپنے گھر والوں کے لیے سہارا ہیں بلکہ کینیڈا کی معیشت میں بھی ایک خاص کردار ادا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر رگھبیر سنگھ سے باتوں میں ہم اتنے محو ہو گئے کہ وقت کا اندازہ ہی نہ رہا۔ ہمیں شام کے سات بجے سے پہلے وینکوور کے ایک مشہور ہندوستانی ہوٹل دہلی- 6 انڈین بِسٹرو (Delhi-6 Indian Bistro)پہنچنا تھا، جو کہ ہمارے موجودہ محل وقوع سے تقریباً پچاس منٹ کے فاصلے پر تھا۔

اگلی صبح کا آغاز جتندر کی روم فون کال سے ہوا جنہوں نے اپنے خاص دیسی انداز میں لفظ ’گڈ مارننگ‘ ادا کیا تو میں اپنائیت بھرے خوش کُن احساس سے دوچار ہوا۔ میں فریش ہو کر اپنے بیڈ پر واپس آیا تو بارج کی اِی میل میں اس روز کا شیڈول درج تھا۔

میں جلدی جلدی نیچے ویٹنگ ہال میں گیا۔ جہاں پر جتندر ہنستے مسکراتے کھڑے تھے۔ ڈائننگ ہال میں گئے تو ہماری ناشتے کی میزبان پیچ اپنی زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ مِلی اور پوچھا گیا کہ آج ہم دو ہیں، تو جواب میں ہم دونوں نے اپنے ناشتے کے واؤچر نکال کر اسے دیے جن میں سے کچھ کھانے کی چیزیں منع کر دیں جو ہم دونوں کو ہی پسند نہ تھیں۔

اس دوران بارج کا بھی فون آگیا کہ آج کے شیڈول کے لیے بطورِ خاص تیار ہو کر آئیں۔ پھر یہی بات میں نے جتندر سے بھی کہی تو انہوں نے انتہائی معصومانہ انداز میں کہا:

’’ وِیرے فیر اج اسیں آپنی ٹَوہر کڈھنی اے۔‘‘

(بھائی، آج میں نے اپنی شان دکھانی ہے)

ناشتہ آیا اور چائے کے ساتھ گرم دودھ کا پھر مسئلہ آ گیا۔ میزبان خاتون پِیچ سے ایک مرتبہ پھر درخواست کی گئی تو اُس نے ہنس کر ہمیں ایک بڑے پاٹ میں بہت زیادہ دودھ لا دیا جس سے میں نے چائے بنائی اور جتندر سیدھا سیدھا دُودھ پی گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔