ریل کہانی؛ فیصل آباد تا کراچی ریل کا ایک یادگار سفر

حارث بٹ  اتوار 29 جنوری 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

کتابوں میں پڑھا ہے کہ پہلے وقتوں میں ریل گاڑی کے نچلے درجوں میں باتھ روم نہیں ہوا کرتے تھے۔

ضرورت مند مسافر اپنی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اگلے اسٹیشن کا انتظار کرتے اور اس کے جلدی آنے کی دعائیں کرتے۔ اسٹیشن آتا تو کچھ لوگ اسٹیشن پر بنے ٹین کے باتھ روم کی جانب رخ کرتے اور باقی سارے آس پاس کے کھیتوں کی جانب۔ یہ بھی کہیں پڑھا ہے کہ گارڈ ان کی واپسی کا انتظار کیے بغیر اپنے مقررہ وقت پر ہری جھنڈی دکھا دیتا اور پھر جو بھگدڑ مچتی وہ بیان سے باہر ہے۔ اندازہ آپ خود کر ہی سکتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ تیسرے درجے کے مسافروں کا یہ حال دیکھ کر 1870ء میں کے عشرے میں ایک نیشنلسٹ جماعت نے تھرڈ کلاس کے ڈبوں میں بیت الخلا فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کو پورا ہونے میں ستر سال لگے اور بالٓاخر 1941ء میں پہلی بار گاڑی میں غسل خانے فراہم کیے گئے۔

ہمارے انسٹیٹیوٹ کی ایک روایت چلی آ رہی تھی کہ آخری سمسٹر میں ہمارا ایک انڈسٹریل ٹور کراچی کا ہوتا تھا اور فیصل آباد سے کراچی تک کا یہ سفر ہمیشہ بذریعہ ریل ہی طے کیا جاتا تھا۔ کراچی جانے کے لیے اس وقت دو ٹرینیں فیصل آباد سے گزرتی تھیں۔

ایک پاکستان ایکسپریس اور دوسری ملت ایکسپریس۔ پاکستان ایکسپریس کا ٹکٹ سستا تھا اور ملت ایکسپریس کی ذرا مہنگی۔ اس وقت شاید پاکستان ایکسپریس میں اے سی کلاس بوگی نہیں تھی تو کلاس کی لڑکیوں نے ملت ایکسپریس کے حق میں ووٹ دیا کیوںکہ ملت ایکسپریس میں اے سی کلاس بوگی تھی۔

لڑکیاں چوںکہ صرف مارننگ کلاس میں تھیں، اس لیے مارننگ کلاس لڑکیوں کے ساتھ تھی۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد طے یہ پایا کہ ہر طالبِ علم کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کی کسی بھی ٹرین میں جا سکتا ہے، کیوںکہ اس ٹور کے صرف ٹکٹ ہمیں خود لینا تھے باقی سب اخراجات انسٹیٹیوٹ ادا کر رہا تھا۔

دن جون کے تھے، کراچی میں ہوا کے بجائے لُو چل رہی تھی۔ دور پیپلزپارٹی کا تھا جب وزیرِ ریلوے بلور صاحب تھے، جنھوں کے پوری ریلوے کے سسٹم کو تباہ کرنے کی دل سے ہر ممکن کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کام یاب بھی رہے۔

اس سے فائدہ سیدھی سی بات ہے بلور صاحب کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو ہی ہونا تھا۔ بلورصاحب نے وزارت کا حلف اٹھاتے ہوئے شاید یہ قسم کھائی تھی کہ ملک میں ایک بھی ریل چلنے نہیں دیں گے۔ ہمیں افسوس ہے کہ وہ اپنے وعدے کی مکمل طور پر پاس داری نہ کر سکے مگر پھر بھی انھوں نے سَر توڑ کوشش کی جس میں وہ بہت حد تک کام یاب بھی رہے۔

بہت سی ٹرینیں بند ہوگئیں اور جو باقی بچ گئیں انھیں اتنا لیٹ کیا جاتا تھا کہ مسافر خود ہی ان سے دور بھاگتے تھے۔ پاکستان ایکسپریس معلوم نہیں کب چلی مگر ملت ایکسپریس کو تقریباً چار بجے چل پڑنا تھا۔

تقریباً ساری کلاس ہی ٹور پر جا رہی ہے، کیوںکہ یہ ہم سب کا آخری ٹور تھا، اس دن صبح سے ہی فیصل آباد میں سورج بہت گرم تھا۔ ہاسٹل میں ایک عجیب سی گہماگہمی تھی۔

سب ہی خوش اور پُرجوش تھے۔ سب کا سامان پیک ہوچکا تھا۔ دوپہر کا کھانا اور سہہ پہر کی چائے بھی پی چکنے کے بعد سب رفتہ رفتہ اپنے سامان کے ساتھ ریلوے اسٹیشن کی جانب سرکنا شروع ہوگئے۔

ہم جب فیصل آباد اسٹیشن پر پہنچے تو ریل کار ابھی نہیں پہنچی تھی مگر ریلوے اسٹیشن پر خوب چہل پہل تھی۔ میں بہت عرصے بعد ریل گاڑی میں بیٹھنے جا رہا تھا جب کہ حذیفہ کا زندگی میں یہ ریل کا پہلا سفر تھا۔ ہم پلیٹ فارم پر داخل ہوئے تو دو قلی ہماری طرف دوڑے جنھیں اپنی طرف دوڑتا دیکھ کر ہم دوسری طرف دوڑ پڑے۔ ہم خود ایک ایک پائی جوڑ کر کراچی جا رہے تھے، اس طرح کے بادشاہوں والے خرچ کرنے کے بارے ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

ویسے بھی ہم سب جوان جہان تھے، اپنا بوجھ خود اٹھا سکتے تھے اور سامان میں تھا ہی کیا۔ میرا اور حذیفہ کا بس ایک مشترکہ بیگ۔ ایک وقت تھا کہ جب ریلوے بک اسٹالز پر منٹو، بیدی، عصمت چغتائی، کرشن چندر، مستنصر حسین تارڑ اور شفیق الرحمان کی کتابیں چُنی ہوتی تھیں۔ ظاہر سی بات ہے لوگ انھیں خریدتے بھی تھے۔ خریدتے تھے تبھی تو لوگ اسٹال لگا کر یہاں بیٹھے ہوئے تھے۔

محکمہ ریلوے نے انھیں فری اسٹال تو دیا نہ ہوگا۔ یقیناً وہ ہر اسٹال سے کچھ نہ کچھ لیتے بھی ہوں گے۔ ابھی گاڑی آنے میں کچھ وقت تھا تو میں اور حذیفہ کتابوں کے اسٹال کی طرف چل پڑے۔ حذیفہ نے اسٹال والے سے پوچھا کہ کیا لوگ اب بھی یہ کتابیں پڑھتے ہیں تو اسٹال والے نے بتایا کہ لوگ زیادہ تر رسائل اور دینی کتابوں کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔

رسائل کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک مختصر رقم دے کر ہر قسم کا مواد پڑھنے کو ایک ہی کتاب میں پڑھنے کو مل جاتا ہے۔

ریل گاڑی میں سکون ہے، خاص طور پر بال بچوں کے لیے۔ بس اور کوچ میں اتنا آرام نہیں۔ ریل بچوں کے لیے اچھی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بلور صاحب کے ریلوے تباہ کرنے کی اس قدر مخلصانہ کوششوں کے باوجود لوگ آج بھی بسوں پر ریل کو فوقیت دیتے تھے۔

پاکستان ایکسپریس کو راولپنڈی سے چلنا تھا اور وزیرآباد سے ہوتے ہوئے فیصل آباد آنا تھا جب کہ ملت ایکسپریس کو لالہ موسیٰ سے اپنا سفر شروع کرنا تھا اور سرگودھا سے ہوتے ہوئے فیصل آباد آنا تھا۔ دونوں گاڑیوں کا فیصل آباد میں رکنے کا دورانیہ تقریباً تیس منٹوں کا تھا۔

تقریباً ساڑھے تین بجے ملت ایکسپریس فیصل آباد جنکشن پر پہنچ گئی۔ سامان رکھا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ملت ایکسپریس اپنی منزل کی جانب چل پڑی۔ گارڈ نے ہری جھنڈی دکھا دی۔ گاڑی آہستہ آہستہ سرکنے لگی۔ کچھ لوگ اپنے مہمانوں کو چھوڑنے کے لیے بھی آئے ہوئے تھے۔

لوگ اپنے پیاروں کو دور جاتا دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگے۔ پلیٹ فارم پیچھے ہوتا چلا گیا اور بالآخر کہیں گم ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ فیضان چوںکہ فیصل آباد سے ہی تھا تو وہ گھر سے کچھ چپس بنا کر لایا تھا، جسے میں اور حذیفہ فوراً ہی کھاگئے۔

فیضان پکا فیصلہ آبادی تھا مگر اردو میڈیم بچہ تھا۔ فیضان کا لہجہ مقامی نہیں تھا۔ دوسرے شہر والوں سے جب وہ ملتا تو اس کا لہجہ بالکل مختلف ہوتا مگر جونہی وہ فیصل آباد کے لڑکوں سے ملتا تو اس کا لہجہ بھی فوراً بدل جاتا۔

پاکستان بننے کے بعد ریلوے سمیت کسی بھی ادارے پر توجہ نہیں دی گئی۔ دنیا بھر کی حکومتیں اپنی ریلوے کی ترقی کی جانب بھرپور توجہ دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں ریلوے کا وزیر وہ بنتا ہے جس کا اپنا یا پھر اس کے احباب کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہو۔ میں حذیفہ کو تلقین کر رہا تھا کہ وہ جب بھی واش روم میں جائے تو کوشش کرے کہ لوٹا اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جائے اور اگر لوٹا اپنی منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے تو منزلِ مقصود کو لوٹے کے پاس لے جائے۔

ہم سب ابھی خوش گپیاں ہی کر رہے تھے کہ ملت ایکسپریس نے اپنی پریشر بریکس لگانا شروع کردیے اور کچھ ہی دیر کے بعد ٹرین گوجرہ کے پلیٹ فارم میں داخل ہوگئی۔

ملت ایکسپریس میں نہ تو اس وقت تنہائی تھی اور نہ ہی خاموشی اور دونوں کی فی الحال ہمیں طلب بھی نہ تھی۔ جن مسافروں کو گوجرہ اترنا تھا وہ اتر گئے اور جن مسافروں کو سوار ہونا تھا وہ سوار ہوگئے۔

بعض مسافروں کی منزل بس گوجرہ ہی تھی اور بعض کو اپنا سفر یہیں سے شروع کرنا تھا۔ اپنے مقررہ وقت پر ملت ایکسپریس نے گوجرہ کے پلیٹ فارم کو چھوڑا اور آگے کی جانب بڑھ گئی۔

شاید یہی زندگی کا خلاصہ ہے، یہی وقت کا بھی خلاصہ ہے کہ اس نے کسی کے لیے انتظار نہیں کرنا بس گزر جانا ہے تو پھر کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم چلے جانے والوں کو اچھے طریقے سے الوداع کریں، انھیں اچھے الفاظ میں یاد کریں۔ مگر نہیں ہم یہ سب شاید اپنے مقررہ وقت پر نہیں سیکھ سکتے۔ ہم اگر سیکھ سکتے ہیں تو صرف اپنی غلطیوں سے۔ اسی لیے تو وقت کو سب سے بڑا استاد کہا گیا ہے۔

ٹرین نسبتاً تیز ہوچکی تھی اور اس میں سے روایتی چِھک چِھک اور چل چھیاں چھیاں کی آوازیں بھی آنے لگی تھیں۔ ویسے کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ٹرین کی یہ آواز کیوں پیدا ہوتی ہے؟ یہ ایک خاص رِدھم والی آواز ہوتی ہے۔

ریل کی پٹری تو ہم سب نے دیکھی ہی ہے۔ ریل کی پٹری کے دو ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے فش پلیٹس کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان میں خلاء بھی رکھا جاتا ہے۔

ٹرین کا پہیا جب پٹریوں کے جوڑ پر سے گزرتا ہے تو پٹریاں اوپر نیچے حرکت کرتی ہیں، اسی ارتعاش سے یہ آوازیں بھی پیدا ہوتی ہیں جنھیں ہم ٹرین میں بیٹھ کر انجوائے کرتے ہیں۔ کم از کم میرے لیے تو ریل کی یہ صوت بھی ایک موسیقی کا درجہ رکھتی ہے۔

گوجرہ سے گاڑی چلی تو ٹوبہ ٹیک سنگھ جا کر رکی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا نام سنتے ہی آپ کے سامنے دو چیزیں آتی ہیں۔ سب سے پہلے منٹو کا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ اور دوسرا دو ڈرامہ بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ تقسیم کے موضوع پر اب تک جتنا بھی مواد لکھا گیا ہے، اُن میں سے سب سے منفرد اور جان دار مواد منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاگلوں کے بارے صرف ایک پاگل ہی سوچ سکتا تھا۔ کسی نارمل بندے کے یہ بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے منٹو نے پاگلوں کے بارے سوچا کہ جب تقسیم ہو رہی تھی۔ ہندو اور مسلم دونوں ہی اپنا وطن اپنی مرضی سے چھوڑ رہے تھے تو پھر ان پاگلوں کا کیا کیا جائے گا۔

یقیناً پاکستان کے پاگل خانوں میں رہنے والے سارے پاگل پاکستانی تو نہ تھے، اسی طرح ہندوستان کے پاگل خانوں میں رہنے والے سارے پاگل ہندوستانی بھی نہ تھے بلکہ کچھ پاکستانی بھی تھے۔ اس لیے دونوں اطراف کی حکومتوں نے پاگلوں کے تبادلے پر بھی کام کیا۔ یہ شاہ کار افسانہ منٹو کے نمائندہ افسانوں میں سے ایک ہے۔

ملت ایکسپریس چلتی گئی۔ شام اپنا سرمئی آنچل پھیلا رہی تھی جب ریل خانیوال جنکشن پر رکی۔ ہمارے کلاس کا شہباز خانیوال سے تھا جو ایک نمبر کا ڈرامے باز انسان تھا۔ کم از کم مجھے تو وہ ڈرامے باز ہی لگتا تھا۔ چوں کہ وہ لڑکیوں والے سیکشن میں تھا، اس لیے اس کے ڈرامے کچھ زیادہ ہی کلاس میں چلتے تھے۔

کہتے ہیں خانیوال میں آج بھی کچھ لوگوں میں پان اور پان دان کی روایت زندہ ہے۔ گھروں میں پان دان لازم ہوتا ہے بلکہ یہ جہیز کا ایک اہم جزو ہے۔ لڑکی جہیز میں کچھ لائے یا نہ لائے، پان دان ضرور لائے ورنہ اسے بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔

پہلے گھروں میں پیتل کے پان دان رکھنے کی روایت تھی۔ پیتل کا پان دان چوںکہ بہت بھاری ہوتا ہے۔ اس لیے اب چاندی کے پان دان معروف ہیں۔

خاندان میں اگر کوئی رشتہ لینے جائے تو اس کی تواضع عام طریقے سے کی جاتی ہے۔ لڑکی والے اگر پان پیش کریں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انھیں یہ رشتہ منظور ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی پان رکھا جاتا ہے۔

کچھ دیر کے بعد ایک ایسا شہر آیا جس نے مجھے چونکا دیا۔ یہ ایک ایسا شہر تھا جس کا نام میں نے بہت ہی بچپن میں سنا تھا مگر یہ تھا یا نہیں، یہ مجھے نہیں معلوم تھا۔ بچپن میں یہی لگتا تھا کہ شاید یہ فرضی نام ہو۔

یہ شہر ”دنیا پور” تھا جس کے بارے پہلی بار بچپن میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ڈرامے ”سورج کے ساتھ ساتھ ” میں پہلی بار سنا تھا، جس میں تین دوست اپنے گاؤں سے بہتر مستقبل کے لیے قریبی شہر دنیا پور کا رخ کرتے ہیں۔

اس ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ مجھے بہت پسند تھا جب تینوں دوست ہوٹل پر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو بل زیادہ بننے پر ہوٹل مالک ان کے سامنے مہنگائی کا رونا کچھ یوں روتا ہے کہ ” بڑی مہنگائی ہو گئی ہے بھائی۔ گندم ہو گئی 8 روپے من، اور چھوٹا گوشت ہو گیا ہے ڈیڑھ روپے سیر۔ بڑا ہوگیا ہے 12 آنے سیر۔ گھی ہو گیا ہے 3 روپے سیر۔ چاول ہوگئے ہیں 16 روپے من۔

اور سونا ہو گیا ہے 102 روپے تولا۔” اور توبہ توبہ کہتے ہوئے وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگا لیتا ہے۔ میں آج اسی دنیا پور کے ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا۔ سب کے لیے بچپن میں ٹیلی ویژن کا مطلب ہی چاچا جی تھا۔ سب تارڑ صاحب کو چاچا جی ہی تو بلاتے تھے۔

صبح سویرے اٹھنا، کارٹون کا انتظار کرنا اور پھر ناشتے کے ساتھ ساتھ کارٹون دیکھ کر اسکول جانا۔ تارڑ صاحب کا پہلا تعارف میرے لیے بطورِ چاچا جی ہی تھا۔ بہت بعد میں جا کر میں نے انھیں ایک بہترین سفر نامہ نگار اور پھر ناول نگار کے روپ میں دیکھا۔

تقریباً رات نو بجے کے قریب ہم اچانک اندھیروں سے نکل کر روشنیوں میں آ گئے۔ ریلوے اسٹیشن انتہائی صاف ستھرا اور خوب روشن تھا۔ اتنا پیارا تھا کہ ہم میں سے کسی کو بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ واقعی پاکستان کا ریلوے اسٹیشن ہے۔

گاڑی بہاولپور اسٹیشن کے پلیٹ فارم ایک پر رک چکی تھی۔ مجھے چولستانی ہرنیوں کی خوشبو آنے لگی۔ انہی دنوں جب میں بانو آپا کا راجہ گدھا پڑھ رہا تھا تو پہلے ہی صفحے پر بانو آپا نے سیمی شاہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے اسے چولستانی ہرنی قرار دیا تھا۔

میں تب سوچا کرتا تھا کہ نہ جانے چولستان کیسا ہو گا اور نہ جانے یہ چولستانی ہرنی کیسی ہوتی ہوگی جس کے جیسی سیمی شاہ تھی۔ اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ چولستان کیا ہے، چولستان کی ریت کیا ہے، وہاں کی خوشبو کیسی ہے مگر آج میں نے چولستان کو دیکھا ہے۔ اس کی ریت کی گرمی کو اپنے سینے میں محسوس کیا ہے۔

رات مکمل طور پر ملت ایکسپریس پر اترچکی تھی۔ ہمارے اردگرد مکمل تنہائی تھی مگر ریل میں ایک عجب ہی دنیا آباد تھی۔

ملت ایکسپریس میں ایک بوگی کسی ریستوراں کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ویسے تو ہم سب کچھ نہ کچھ کھا پی ہی رہے تھے مگر پھر بھی کھانے کی بھوک اپنی جگہ برقرار تھی۔ حذیفہ نے مجھ سے اسی بوگی میں چلنے کو کہا۔ لمبے سفر کی بوگیاں عام طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں اور آپ ایک بوگی سے دوسری بوگی میں آرام سے جا سکتے ہیں۔

پہلے پہل تو مجھے بڑا خوف آیا کہ ایک بوگی کو پار کرکے دوسری میں کیسے جایا جائے مگر جب بہروں کو ایک ہاتھ میں کھانے سے بھرا ہوا ٹرے اٹھاکر دوسری بوگی میں جاتے دیکھا تو کچھ حوصلہ ملا۔ کچھ ہمت کے بعد ہم بھی مَردوں کی طرح ایک پوری ریل میں مٹر گشت کرنے لگے۔ بریانی پورے ساڑھے تین سو روپے کی مل رہی تھی، وہی پسند تھی اور وہی کھائی۔ ذائقہ بس ٹھیک ہی تھا۔ دور کے سب مسافر سوگئے۔

میں اور حذیفہ ریل کے فرش پر دروازے کے قریب ہوکر بیٹھ گئے اور اپنا الگ ہی فلسفہ جھاڑتے رہے۔ نہ جانے ماضی کے کس کس قصے کو ہم نے چھیڑا اور مستقبل کے بارے عجیب و غریب پلان بھی بناتے رہے۔ ظاہر سی بات ہی ایسی محافل چغلیوں کے بغیر کہاں سجتی ہیں۔ ہم جب دوسروں کے بے انتہا گناہ اپنے کندھوں پر ڈال چکے تو پھر چائے کی طلب ہوئی۔

میرے بیگ میں بسکٹ تھے۔ میں بسکٹ لینے چلا گیا۔ فرش پر ایک بابا جی کپڑا ڈال کر سوئے ہوئے تھے جن پر سے تین چار بار پہلے بھی ہم نے پھلانگا تھا۔

اب کی بار جب ہم ان بابا جی پر سے پھلانگنے لگے تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ میں نے حذیفہ کے کان میں سرگوشی کی ”شکر ہے بابا جی سو گئے۔” مگر جونہی ہم ان پر سے پھلانگنے لگے تو وہ فوراً نیم غصے میں بولے۔۔۔او سو جاؤ خدا دا واسطہ جے۔

گاڑی بہاولپور سے نکلی تو اس نے خانپور جا کر بریک لگائی۔ بچپن میں پی ٹی وی پر ایک اشتہار چلا کرتا تھا جس میں ایک فیملی ایسے ہی ریل پر سفر کر رہی تھی۔

خاندان کا موٹے پیٹ والا سربراہ کوئی  میری ہی طرح کا کھانے پینے کا شدید شوقین تھا جسے آخر میں بدہضمی ہوجاتی ہے۔ وہ بھائی صاحب ہر شہر کی سوغاتیں کھاتے جاتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب خانپور آتا ہے تو وہ کہتے ہیں ”خانپور کے پیڑے۔” میں نے پیڑا آج تک نہیں کھایا۔ نہ جانے کیسے ہوتے ہیں۔

لاہور میں پیڑوں والی لسی بہت مشہور ہے۔ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ میں ابھی تک وہ بھی نہ پی سکا۔ خانپور سے گزرتے ہوئے مجھے اپنی زندگی میں پیڑوں کی کمی کا شدید احساس ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتا، ملت ایکسپریس کے گارڈ نے ہمیں اور ڈرائیو صاحب کو ہری جھنڈی دکھا دی اور ریل خانپور کو پیچھے چھوڑتے ہوئے رحیم یار خان کی جانب چل دی۔

رحیم یار خان کے بعد صادق آباد تھا۔ صادق آباد کی دو باتیں ہمیشہ ہی میرے ذہن میں رہی ہیں۔ صادق آباد پنجاب کا آخری شہر ہے اور یہاں کی بھونگ مسجد۔ صادق آباد کی بھونگ مسجد اس قدر خوب صورت ہے کہ یہاں آ کر سب کچھ بھول جانے کو جی چاہتا ہے۔

اگرچہ میں نے کبھی اس مسجد کو نہیں دیکھا، صرف تصاویر میں ہی دیکھا ہے مگر پھر بھی دل اس کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے۔ صادق آباد کے پاس ہی کچے کا علاقہ ہے جس کے ڈاکو بہت مشہور ہیں جو عام طور پر ہمارے قانون کو زیادہ گھاس نہیں ڈالتے۔ صادق آباد سے جب ریل نکلی تو رات کی تاریکیوں میں ہم نے صرف صادق آباد کو ہی نہیں چھوڑا بلکہ پنجاب کو بھی اپنے پیچھے چھوڑ دیا۔ رات کے تقریباً دو بجے کے قریب ملت ایکسپریس ایک لمبے سے پلیٹ فارم پر رکی تو ایک عجیب سا شور برپا ہو گیا۔ یہ لمبے سے پلیٹ فارم والا اسٹیشن روہڑی تھا اور ہم اس وقت صوبہ سندھ میں تھے۔

مگر راستے میں کہیں سمہ سٹہ بھی تو آیا تھا۔ بہاولنگر کے راستے بھارت تک ریلوے لائن یہیں سے جاتی تھی۔ 1947 میں دلی سے پاکستان کے حصے کے اثاثے بھی اسی راستے سے آئے۔ یہیں سے بٹھنڈہ ٹرین جاتی تھی، جس کی وجہ سے ’’وایا بٹھنڈہ‘‘ کا محاورہ وجود میں آیا۔

یہ ان کے لیے استعمال ہوتا تھا جو اردو، فارسی، عربی فاضل کے امتحان کے بعد بی اے کا صرف انگریزی کا پرچا پاس کرکے بی اے ہوجاتے تھے۔ یہ بات تحقیق طلب ہے کہ یہ شارٹ کٹ سمجھ کر کہتے تھے یا کہیں سے گھوم کے جانے کی وجہ سے۔

آج کل یہ جنکشن ویران ہے۔ پشاور، پنڈی، لاہور، کراچی جانے والی ہر ٹرین یہاں سے گزرتی ضرور ہے، پر رکتی کوئی ایک آدھ ہی ہے۔

کسی زمانے میں اکثر گاڑیاں یہاں رکتی تھیں. یہاں ورک شاپ، پانی بھرنے وغیرہ کی تمام سہولتیں موجود ہیں لیکن ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔

ملتان سے لاہور جانے والی شاہ شمس ایکسپریس کافی عرصہ سمہ سٹہ سے چلتی رہی، جس سے بہت لوگوں کو فائدہ تھا۔ پھر سمہ سٹہ سے بند کردی گئی، کیوںکہ بسوں والوں کو کچھ نقصان ہونے لگا تھا۔

سمہ سٹہ میں پہلی بار دیکھ رہا تھا مگر اس کا نام بہت سنا تھا۔ اصل میں ایک سمہ سٹہ ایکسپریس چلا کرتی تھی جو سمہ سٹہ سے سیالکوٹ جایا کرتی تھی۔ ہمارے پرانے گھر کے جو ہمسائے تھے، ان کے کچھ رشتے دار گوجرہ میں رہتے تھے تو وہ اسی سمہ سٹہ ایکسپریس پر سفر کرتے تھے۔

دسمبر 2008 میں جب بینظیر بھٹو کو گولی لگی تو پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ پبلک ٹرانسپورٹ بند تھی۔ ایسے میں گھر جانے کے لیے میں نے پہلی بار سمہ سٹہ ایکسپریس پر سفر کیا۔ سمہ سٹہ ایکسپریس بس نام کی ایکسپریس تھی، وہ فقط ایک پیسنجر ٹرین تھی۔

عام کوسٹر پر جو سفر میرا ساڑھے چار یا پانچ گھنٹوں میں کَٹ جاتا تھا، وہ سفر میں نے پوری ایک رات میں طے کیا۔ ساری رات سفر کرنے کے بعد سمہ سٹہ تقریباً صبح سات بجے سیالکوٹ پہنچی تھی۔ بلور صاحب کی بدولت اب وہ ٹرین بند ہے۔

روہڑی کوئی معمولی اسٹیشن نہیں ہے۔ چار جانب سے آ کر ریلوے لائنیں یہاں ملتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہاں سے چار جانب گاڑیاں جاتی ہیں۔ انگریز کا لنڈی کوتل اور چمن سے آگے ریلوے لائن بچھانے کا خواب اگر پورا ہوتا تو افغانستان کے راستے وسطی ایشیا اور یورپ تک ٹرین یہیں سے چلا کرتیں۔

پتا چلا کہ یہاں ریل بیس پچیس منٹ رکے گی۔ سب نیچے اتر آئے، تصاویر بنوانے لگے۔ ہمیں خوشی اس بات کی تھی کہ ہم پہلی بار سندھ کی دھرتی پر قدم رکھ رہے تھے۔ سندھ جو کبھی دارالسلام تھا، مگر اب وہ فقط جاگیرداروں اور وڈیروں کی سرزمین بن کر رہ گیا تھا۔

ہمیں اس وقت صرف ایک ہی وڈیرے اور جاگیردار کا نام یاد تھا لہٰذا انہی کا نام لے لے کر سندھ کی مظلوم عوام کے لیے دو تین آہیں بھری گئیں۔ اتنے میں ریل نے سیٹی بجائی اور سب کی دوڑیں لگ گئیں۔

رات کے تقریباً تین بج رہے تھے۔ ہم سب بے شک پر جوش تھے مگر تھک بھی چکے تھے۔ مجھ سمیت تقریباً سبھی لوگ شدید اونگھ رہے تھے۔ میں اور حذیفہ بھی تھکن سے چور تھے۔ ہم دونوں اپنی اپنی برتھ پر لیٹ گئے اور نہ جانے کب نیند کی وادی میں کھو گئے۔

صبح آنکھ کھلی تو ہم میدانِ حشر میں کھڑے تھے۔ قیامت برپا ہو چکی تھی، صور پھونکا جا چکا تھا۔ سخت گرمی تھی، سورج بھی سوا نیزے پر تھا۔ فرق بس یہ تھا میدانِ عرفات کی بجائے ہم سب سندھ کے شہر ”ٹنڈو مستی” کی بنجر اور ویران زمین پر کھڑے تھے بلکہ ہماری ریل ٹنڈو مستی کے قریب کھڑی تھی۔ میری جب آنکھ کھلی تو حذیفہ ابھی تک گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔ بہت سے لوگ نیچے اتر چکے تھے۔ تقریباً آدھی سے زیادہ ریل خالی تھی۔

استفسار پر معلوم ہوا کہ ملت ایکسپریس کا انجن خراب ہو چکا ہے۔ اب شاید حیدرآباد سے دوسرا انجن آئے گا جو ہمیں کراچی لے کر جائے گا۔ ریل کی سیٹی تو پہلے ہی گم شدہ تھی، اب یہ سب سن کر میری سیٹی بھی گم ہوگئی۔ مجھے جون کی سخت گرمی میں اپنی بوگی میں بیٹھ کر کیا کرنا تھا۔ میں بھی نیچے اتر گیا۔ حذیفہ ابھی تک سو رہا تھا۔

میں نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر بعد جب حذیفہ کی آنکھ کھلی تو وہ ڈر گیا کیوںکہ ریل اس وقت تک تقریباً خالی ہوچکی تھی۔ صرف خواتین اور چھوٹے بچے ہی ریل میں تھے۔ حذیفہ جب نیچے اترا تو وہ واقعی ڈرا ہوا تھا۔ بے چارا ریل میں پہلی بار سفر کر رہا تھا۔ لوگ چیخ رہے تھے، مظاہرہ کر رہے تھے مگر انجن ڈرائیور بھی بے چارا کیا کرتا۔ وہ بھی بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ ہمارے ہاتھ ایک نیا شغل آ گیا۔ ہم اپنی ریل بنا کر پٹریوں پر بیٹھ گئے۔

ہم سب اندر ہی اندر اس بات پر شرمندہ ہو رہے تھے۔ دوسرے سیکشن والے ہم سے جلدی پہنچ جائیں گے، کیوںکہ ہم سب نے ان کے سامنے بڑی شودیاں ماری تھیں کہ ہماری ریل اچھی ہے اور وغیرہ وغیرہ۔ نہ تو آس پاس کے علاقوں سے کوئی پانی لے کر آیا اور نہ ہی ہمارے لیے کوئی دیگیں کُھلیں۔ الٹا پانی بیچنے والوں کی چاندی ہوگئی۔ مقامی پانی کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں پانچ ساٹھ روپے کی مل رہیں تھیں۔

حیدرآباد ہم سے بہت دور تھا۔ انجن پتا نہیں کب آنا تھا۔ خدا خدا کر کے دور سے انجن کا ایک سراب نظر آیا۔ یہ کوئی طاقت ور انجن نہیں تھا۔ بس ایک چھوٹا سا انجن تھا جس میں صرف کچھوے کی چال چلنے کی صلاحیت تھی، خرگوش کی طرح یہ دوڑ نہیں سکتا تھا۔

ابتدائی جون کے دنوں میں ہم سندھ کی گرم دھرتی سے انتہائی سست رفتاری سے گزر رہے تھے۔ سفر کٹ ہی نہیں رہا تھا۔ ریل کی رفتار انتہائی سست تھی۔ دراصل ریل چل نہیں رہی تھی بلکہ رینگ رہی تھی۔ ہم سب اب اس گرمی سے تنگ ہو رہے تھے۔ میرا کسی سے بات کرنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ پتا نہیں کون سا شہر جارہا تھا اور کون سا آ رہا تھا۔

سفر میں ساری دل چسپی ختم ہو چکی تھی۔ میرا جس کام سے ایک بار دل اچاٹ ہوجائے پھر کبھی اس پر دل دوبارہ نہیں آتا۔ اگر ریل اپنی اسی رفتار سے ٹھیک طرح سے چلتی تو ساڑھے دس بجے ہمیں کراچی میں ہونا چاہیے تھا مگر دوپہر کے دو بج چکے تھے اور کراچی کے دور دور تک آثار نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے دن زیادہ تر ڈھل ہی چکا تھا جب ہم حیدر آباد پہنچے تھے۔

حیدرآباد آباد کا چمکتا دمکتا ریلوے اسٹیشن مسافروں سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا۔ لوگ نہ جانے کب سے ریل کے منتظر تھے۔

حیدرآباد ریلوے سٹیشن پر رونق تھی، چہل قدمی تھی، جون کی تیز دھوپ تھی، شور شرابہ تھا اور ٹرین ہر چڑھنے والوں کا اور اترنے والوں کا اضطراب تھا۔ بہت پہلے لوگ کھڑکیوں کے ذریعے اپنا سامان یا چھوٹے بچوں کو گاڑی میں سوار کروا دیتے مگر پھر ریلوے حکام نے ریل کی بوگیوں کی کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخیں لگوا دیں، لہٰذا اب آمدورفت کے لیے صرف دروازہ ہی استعمال ہوتا ہے۔

حیدرآباد کا ریلوے اسٹیشن برصغیر کے پرانے ریلوے اسٹیشنز میں شمار ہوتا ہے۔ ایک پلیٹ سے دوسرے پلیٹ پر جانے کے لیے ہر ریلوے سٹیشن پر اوور ہیڈ برج ضرور بنا ہوتا ہے۔

یہاں کا اوور ہیڈ برج کافی بڑا ہے جو پلیٹ فارم نمبر ایک سے شروع ہو کر پلیٹ فارم نمبر تین تک جاتا ہے۔ درمیان میں پلیٹ فارم نمبر دو ہے۔ اِسے بھی اُسی اوور ہیڈ برج کے ساتھ سیڑھیوں کے ذریعے منسلک کیا گیا ہے۔

اگرچہ کہ ملت ایکسپریس نے صوبہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے جو کہ دریائے سندھ کے مغربی جانب آباد ہے، نہیں گزرنا تھا مگر پھر بھی میری خواہش تھی کہ سکھر شہر سے گزرا جائے۔ سکھر شہر سے گزرنے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو اس کا ڈیڑھ سو سالہ مشہورِزمانہ پل جو کہ اپنے انجنیئرنگ کا شاہ کار ہے۔

دوسری وجہ سکھر شہر سے تقریباً چوبیس کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گم نام ریلوے اسٹیشن ”رُک” ہے جہاں کوئی نہیں رکتا۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہندوستان میں روس آیا کا شور مچا تو خیال ظاہر کیا گیا کہ روس افغانستان سے ہوتا ہوا کوئٹہ پہنچے گا اور پھر گرم پانیوں کا رخ کرے گا۔

یہ مت سوچیے گا کہ روس کے گرم پانیوں تک پہنچنے کا شوشا 1980 سے شروع ہوا تھا بلکہ یہ کہانی پرانی ہے۔ انگریز جب برصغیر پر حکم راں تھا تب بھی یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ روس گرم پانیوں کے لیے افغانستان سے ہوتا ہوا برصغیر پہنچے گا تو فوری طور پر 1876ء میں سرکار کی جانب سے حکم جاری ہوا کہ جیسے بھی ہو، ”رُک” سے نئی لائینوں پر کام تیز سے تیز تر کیا جائے یہاں تک کہ راتوں میں بھی کام کیا گیا اور سبی تک ہنگامی بنیادوں پر بلکہ جنگی پیمانے پر لائین ڈالی گئیں۔

کہتے ہیں جب رُک ریلوے اسٹیشن بنا تو اُس وقت اس کا نام قندھار اسٹیٹ ریلوے تھا۔ بڑے در کی پیشانی پر قندھار اسٹیٹ ریلوے اور انڈس ویلی اسٹیٹ ریلوے کے نام لکھے گئے تھے۔

عمارت 1898 میں تعمیر ہوئی تھی۔ اسٹیشن کی عمارت کے مقابل ریلوے کالونی بھی تھی، اس میں انگریز افسر اور انجنیئر رہا کرتے تھے۔ کالونی کی عمارت گر چکی ہے جب کہ گورا قبرستان موجود ہے۔ جب ریلوے لائن چمن سے آگے نہ بڑھ سکی اور قندھار پہنچنے کا خواب بس ایک خواب ہی بن کر رہ گیا تو رُک کی رونقیں بھی رخصت ہو گئیں۔

حیدرآباد کا ریلوے اسٹیشن کوئی چھوٹا جنکشن نہیں ہے۔ یہاں مال بردار گاڑیاں بھی آپ کو ملیں گی اور کچھ اضافی انجن بھی۔ حیدرآباد پہنچ کر ایک بار پھر ہماری ریل کا انجن تبدیل کر کے ایک ہیوی انجن لگایا گیا۔ ملت ایکسپریس میں اب تِل دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی۔

وجہ یہ تھی کہ ہم سے پیچھے اب ساری ٹرینیں رکی ہوئی تھیں، چوںکہ ملت ایکسپریس لیٹ تھی، اس لیے ساری ٹرینیں لیٹ ہوگئیں۔ جن پچھلی ٹرینوں پر سوار ہوکر مسافروں نے کراچی جانا تھا اب وہ سب ملت ایکسپریس پر سوار تھے۔

سنا تھا حیدرآباد سے ایک بار ریل چلی تو پھر وہ کراچی پہنچ کر ہی دم لے گی، کیوںکہ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان کوئی بڑا شہر نہیں۔ حیدرآباد سے جو ریل چلی تو پھر بس وہ چلتی ہی چلی گئی۔ ہماری کلاس کا زبیر چوںکہ حیدرآباد سے تھا، لہٰذا وہ وہیں اتر گیا اور ہم سب کراچی کی جانب چل پڑے۔

پنجاب میں آپ کو ہر آدھے یا زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے بعد بڑا شہر مل جاتا ہے مگر سندھ میں حیدرآباد اور کراچی کے درمیان کوئی شہر نہیں۔ ریل جو حیدرآباد سے چلی تو چلتی ہی چلی گئی۔ سفر کا اب پھر سے مزہ آنے لگا تھا۔ یہ ملت ایکسپریس کی زیادہ سے زیادہ رفتار تھی جس سے وہ دوڑ رہی تھی۔

گرمی تو تھی ہی مگر چوںکہ ریل اب اپنی اصل رفتار سے دوڑ رہی تھی، اس لیے گرمی لگ نہیں رہی تھی۔ ایک چیز جو واضح طور پر اب محسوس ہو رہی تھی، پہلے ریل چلنے پر ہمیں ہوا محسوس ہو رہی تھی مگر یہی ہوا اب رفتہ رفتہ لُو میں تبدیل ہو رہی تھی۔ سنا تو تھا کہ کراچی میں ہوا نہیں بلکہ لُو چلتی ہے، آج محسوس بھی ہو رہا تھا۔

تقریباً دو گھنٹوں کے بعد ریل آہستہ ہونا شروع ہوئی۔ ہمیں لگا شاید ہماری منزل آن پہنچی ہے۔ کراچی آن پہنچا تھا۔ کراچی تو آ رہا تھا مگر ہماری منزل ابھی نہیں آئی تھی۔ ابھی لانڈھی اسٹیشن آیا تھا۔ گاڑی بس دو منٹ کے لئے لانڈھی رکی اور پھر کراچی اسٹیشن کے لیے نکلی پڑی۔ کچھ ہی دیر کے بعد کراچی ریلوے اسٹیشن آگیا۔ سورج تقریباً ڈوب رہا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔