پٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل اور سرمایہ کاری

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 28 جنوری 2023

آج سے 155 سال قبل کی بات ہے جب انگریزوں نے ضلع میانوالی کے مقام کنڈال میں پہلا کنواں کھودا اورتقسیم ہند تک ہمارے حصے میں تیل کی پیداوار کے چارکنوئیں دریافت ہوئے جن میں زیادہ تر میانوالی سے متصل ضلع چکوال میں واقع تھے۔

قیام پاکستان کے بعد مزید چھ کنوئیں دریافت کیے گئے ، اس طرح 21 ویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی تیل کی پیداوار دینے والے 50 کنوئیں وجود میں آچکے تھے اور اس وقت تک پاکستان اپنی خام تیل کی ضروریات کا 40 فیصد ملکی پیداوار سے حاصل کر رہا تھا۔

نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ملکی تیل کی طلب تیزی سے بڑھنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں بھی تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔

تیل کے درآمدی بل کے بوجھ نے پاکستان کی مالی مشکلات میں بے حد اضافہ کردیا۔ ہماری توازن ادائیگی ڈگمگاتی رہی، ہم سہارے کے لیے آئی ایم ایف کا ہاتھ تھامتے رہے ، وہ ہمیں طاقت کے لیے کڑوی اینٹی بائیوٹیکس کھلاتا رہا۔ جس کے سائیڈ ایفکٹس بار بار اتنے شدید ہوتے رہے کہ ہمارے سابقہ معاشی حکام معیشت کی نبض کو سمجھنے سے قاصر رہے جس کے سبب اب معیشت بیڈ پر موجود ہے۔

مرض کا ایک اہم ترین سبب پٹرولیم مصنوعات کا بھاری بھرکم مالیت والا بل ہے۔ جس کی ادائیگی کی سکت ہی نہیں ہو پاتی۔ ادھر ملک میں تیل کی طلب بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہر ماہ تیل کی نئی بڑھتی قیمت مقرر کی جاتی ہے۔ البتہ اس مرتبہ سابقہ قیمت کو برقرار رکھا گیا ہے۔

دو عشرے قبل کی بات تھی جب مکمل درآمدی بل ہی 20 یا25 ارب ڈالر سالانہ کا ہوا کرتا تھا اب اکیلے تیل کا درآمدی بل ہی 20 ارب ڈالر سے زائد سالانہ ہو چکا ہے اور اس مالی سال کے اختتام تک کچھ ایسا ہی ہونے جا رہا ہے ، البتہ گزشتہ ہفتے روس سے طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کے بعد بل میں کمی کی توقع ہے۔

تازہ ترین درآمدات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے جولائی 2022 سے دسمبر 2022 تک ان 6 ماہ کے دوران 9 ارب 28 کروڑ 55 لاکھ 34 ہزار ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کی ہیں۔

گزشتہ مالی سال کے انھی 6 ماہ کے دوران یہ رقم زیادہ بن گئی تھی یعنی 10 ارب 18 کروڑ 17 لاکھ 65 ہزار ڈالرز کی رہیں۔ حکومت نے اس مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے سستے تیل کی خریداری کے لیے روس سے رابطہ کیا۔

لہٰذا اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے روسی بااختیار وفد پاکستان پہنچا۔ دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے جس میں تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، مواصلات، انڈسٹری، ریلویز، ہائر ایجوکیشن، پیکنگ، زراعت، سائنس اور آئی ٹی کے شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا گیا۔

بتایا جاتا ہے کہ پاکستان روس سے اپنی ضروریات کا 35 فیصد خام تیل خریدنا چاہتا ہے ، اگر ہم اپنی درآمدات کو 20ارب ڈالر فرض کرلیں اس کا مطلب ہے کہ اندازہ 7ارب ڈالر کا ہے (یہ حتمی نہیں ہے) بہرحال جیساکہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ خام تیل 30 فیصد سستا ملے گا۔ اب 30 فیصد ہو یا 25 فیصد پاکستان کا فائدہ ہی ہے۔

اس وقت حتمی اعداد و شمار تو پیش نہیں کیے جاسکتے لیکن پھر بھی سوا تا ڈیڑھ ارب ڈالر تک کی یقینی بچت ہو سکتی ہے۔ اس سے قبل روس سے چین اور بھارت بڑی مقدار میں سستا تیل درآمد کر رہے ہیں۔

2014 کے سی پیک معاہدے اور گوادر کی ترقی کو روس بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ چین کو دنیا کے تیز ترین ترقی کرتے ہوئے ملک کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

پاکستان بھی سستا تیل، سستی گندم اور سستی گیس کے علاوہ روس سے دیگر مصنوعات کی خریداری میں دلچسپی رکھتا ہے۔ 1973 سے 1977 تک پاک روس تعلقات بہتر تھے۔ پھر پورے دو عشرے ان تعلقات میں کافی تناؤ موجود رہا۔

اب اس ہفتے کی بات کرلیتے ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ صدر یو اے ای بروز بدھ پاکستان پہنچ گئے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے رحیم یار خان ایئرپورٹ پر صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کا والہانہ استقبال کیا۔

وزیر اعظم نے ان کے بچوں سے عربی اور انگریزی میں گفتگو کی۔ کہا جا رہا ہے کہ یو اے ای کے صدر نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں تساہل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ فوری طور پر وفد بھیج کر سرمایہ کاری کے بارے میں حتمی معاہدہ کیا جانا چاہیے اور اس پر جلد ازجلد عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ سرمایہ کاری سے پاکستان کئی مالی صنعتی فوائد کے ساتھ روزگار کے مواقع اور دیگر معاشی فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ چونکہ پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ تیاری کریں یو اے ای پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔

اس تناظر میں امید ہے کہ وزیر اعظم پاکستان منصوبہ بندی کرنے والے معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے جتن کرنے والے معاشی حکام کو توجہ اس جانب مرکوز کرنے کی ہدایت دیں گے، کیونکہ ایک طویل عرصے سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے۔ لہٰذا معیشت کو بہتری کی جانب گامزن کرنے کے لیے ایک سنہری موقعہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔