IMF-غریبوں کا دوست نہیں

جمیل مرغز  بدھ 1 فروری 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

پاکستان کے حکمران طبقات اور ان کے طفیلیوں کی غلط پالیسی کی وجہ سے پاکستان قرضوں میں ڈوب گیا ہے اور اب آئی ایم ایف کو نجات دہندہ سمجھا جا رہا ہے۔

امریکا اپنے مالی مفادات کا تحفظ عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے کرتا ہے‘ آج پاکستان کی حکومت امریکا سے اپیل کرتی ہے کہ IMFہمارے ساتھ شرائط میں نرمی کرے۔90کی دہائی میں بھی پاکستان کو معاشی مضبوطی کا جھانسہ دے کر IMF کے چکر میں پھانسا گیا تھا۔

IMFکا پہلا مطالبہ ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ حکومت کو زیادہ ٹیکس لگانے چاہیے تاکہ پبلک سیکٹر میں اخراجات کے لیے زیادہ سرمایہ جمع ہوسکے ‘مالیاتی عدم استحکام میں افراط زر بھی اہم کردار ادا کرتی ہے‘ افراط زر کو روکنے کے لیے آئی ایم ایف سخت اقتصادی پالیسیوں کو لاگو کرنے کی تلقین کرتا ہے جسکی وجہ سے شرح سود میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ نتیجے میں اشیاء کی مانگ میں کمی اور کاروبار ی سرگرمیاں سکڑجاتی ہیں‘ یوں افراط زر اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

بیرونی قرضدار کبھی بھی کسی ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا نہیں دیکھ سکتے ‘اس طرح حکمران عوام کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں‘ صنعت تباہ ہوکر ملک بیرونی اشیاء کی منڈی بن جاتا ہے۔

آج بھی کنٹینروں میں بھر بھر کر غیرملکی سیکنڈ ہینڈ سامان پاکستان کے بازاروں میں عام ہے۔پاکستان آج کل خطرناک حد تک قرضوں میں دھنسا ہوا ہے ۔

سرمایہ داری نظام کے نئے وکلاء جو Neo liberals کہلاتے ہیں‘ ان کے ایک دانشور Milton Friedman اس نظام کے حق میں ٹریکل ڈاؤن کا فلسفہ پیش کرتے ہیں۔

اس فلسفے کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام میں یہ خوبی موجود ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جیسے جیسے دولت بڑھتی ہے‘ اس کا بڑا حصہ ترقی پذیر ممالک کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔

اسی طرح جب سرمایہ دار کے پاس دولت زیادہ ہوجائے تو اس کا بہاؤ غریب طبقوں کی طرف ہوجاتا ہے ‘یوں پورے معاشرے میں دولت پھیل جاتی ہے اور غریب ممالک میں دولت کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے۔

ابھی تک پاکستان میں یہ نظریہ ناکام نظر آتا ہے کیونکہ 1990کے بعد سے پاکستان مسلسل آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کر رہا ہے ‘اس کے باوجود آج بھی ایک اندازے کے مطابق ملک کی آبادی کا 40فی صد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔

سرمایہ داری نظام میںکسی ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے کے لیے چند بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان میں موثر مالیاتی نظام چلانے والے ادارے‘امن و امان ‘سرمایے کا تحفظ‘ مضبوط قانونی اور انتظامی ادارے‘قانون کی سختی سے عمل داری‘ ملک کی مقامی صنعتوں کو تحفظ اور سب سے بڑھ کر ایک مضبوط سیاسی نظام جسکی قیادت واقعی ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی خواہشمند ہو‘تجارت کے بارے میں پالیسی ایسی ہونی چاہیے جس میں ملکی صنعتوں کو زیادہ مراعات دی جائیں‘معاشی پالیسیوں کا تسلسل بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔

یہ وہ اقدامات ہیں جن سے سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والے ممالک کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا رہے ہیں حالانکہ ان اقدامات سے معاشرے میں طبقاتی نظام ختم نہیں ہوتا‘ایک طبقہ ہمیشہ غریب رہے گا ۔آئی ایم ایف نے جن ممالک کو امداد دی ہے وہاں کی نہ معاشی حالت بہتر ہوئی اور نہ غربت میں کمی ہوئی ہے۔

آج جب پاکستان کے عوام مہنگائی ‘بیروزگاری اور کرپشن کے تین پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں‘ IMF کا مسلسل تقاضہ ہے کہ پٹرول اور بجلی مہنگی کرو ‘عوام پر مزید ٹیکس لگاؤ اور ہر طریقے سے ہمارا قرض بمعہ سود ادا کرو‘اگر غربت اور اقتصادی بدحالی ختم کرنے کا یہ طریقہ ہے تو IMF سے کہہ دینا چاہیے کہ ’’بخشو بی بلی ۔چوہا لنڈورا ہی بھلا ‘‘۔

اگر حکمران طبقوں کو سوشلزم پسند نہیں تو کم از کم ملک کو سرمایہ داری کے اصولوںپر ہی چلائیں۔اگر پاکستان کے حکمران واقعی ملک کی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا‘طرز حکمرانی تبدیل کریں۔

دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہوگا‘ ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات بحال کریں‘ لوگوں کو کاروبار کے مواقع دیں‘انٹی کرپشن کے اداروںکو مضبوط کریں‘سیاسی نظام کو مستحکم کریں‘ مالدار طبقوں کے بجائے غریب طبقوں کی طرف وسائل اور مراعات کا رخ موڑیں‘ جاگیرداری اور قبائلی نظام کی باقیات ختم کریں۔

بیرونی قرضوں کے بجائے اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا سیکھیں‘ قانون کی عمل داری کو یقینی بنائیں‘امن وامان کی طرف توجہ دیں‘بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ یاد رکھیں IMFجیسے ادارے غریب ممالک کے بجائے سامراجی ممالک کے مفادات کے لیے بنائے گئے ہیں‘اپنی حالت خود بدلنی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔