عشقِ رسول ﷺ کا قرآنی تصور
’’رسول کریم ﷺ جو تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔‘‘
February 03, 2023
رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت اور اطاعت کا جذبہ ہر مسلمان کے دل میں بے حد و انتہا پایا جاتا ہے۔
ہر مسلمان ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم سے دل و جان، مال و اولاد اور زندگی و حیات سے بڑھ کر محبت کرتا ہے اگر اس میں ذرا سی بات پر کسی دوسری شے کو ترجیح دینے کا خیال یا تصور تک ذہن میں لائے تو ایسے بندے کے ایمان میں خلل واقع ہوتا ہے۔
ایمان کی تکمیل آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم سے محبت کی تکمیل کے ساتھ ہے۔ اسی سلسلے میں کتب احادیث کے اوراق پر ایک دل چسپ واقعہ درج ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے: ''ﷲ کے رسول ﷺ! میں آپؐ کو اپنی ذات کے علاوہ تمام چیزوں سے عزیز رکھتا ہوں۔''
رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''عمر! آپ کا ایمان کامل نہیں، کوئی انسان جب تک مجھے اپنی ذات، آل و اولاد اور والدین (غرض دنیا کی تمام مخلوق) سے زیادہ عزیز نہیں رکھتا۔ اس وقت تک اس کا ایمان کامل نہیں۔''
حضرت عمر فاروق رضی ﷲ تعالی عنہ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئے: ''ﷲ کے رسول ﷺ! اب آپؐ مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔''
نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''عمر! اب آپ کا ایمان کامل ہوگیا۔''
یہی عقیدت، محبت اور عشق ہم رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے رکھتے ہیں اور اسی کا دعویٰ ہر مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت بغیر کم و کاست برملا کرتا ہے۔ اسی کو متاعِ حیات جانتے ہوئے اپنے شب و روز کے معاملات، اقوال اور افعال سے محبت اور عشق کا اظہار کرتا ہے۔
ہر ایسے طریقے کو اپنانے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا جس سے آپؐ کے ساتھ عشق کا اظہار جھلکتا ہو۔ اپنے نام کے ساتھ آپؐ کے نامِ مبارک کا سابقہ لگانے کو فخر خیال کرتا ہے۔
ان سارے حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد سوال یہ ہے کہ ہماری نجات کا مدار کیا ہے۔۔۔؟ کن عوامل کی انجام دہی پر ہمیں بہ روزِ قیامت نجات کا پروانہ عطا ہوگا۔۔۔؟ کون سے اسباب ہیں جن کی بنا پر سرزد ہونے والے اعمال ہمارے لیے نجات کا تمغہ حاصل کرنے کے سزاوار ہوں گے۔۔۔ ؟ کیا صرف آنحضرت ﷺ سے عقیدت اور محبت ہماری نجات اور کام رانی کے لیے کافی ہوگی۔۔۔۔ ؟
جب ان سوالات کے جوابات قرآنِ مجید سے تلاش کرتے ہیں تو قرآنِ مجید مختلف پیرایوں اور انداز سے ایک ہی بات کی تلقین کرتا ہے۔ کہ دیکھو تم اپنے دعوئے عشق کے پہلے مرحلے پر کھڑے ہو۔
ابھی تم نے دنیا کی عدالت میں رپٹ درج کروائی ہے اور کہا ہے کہ تم نے آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے ساتھ تمام مخلوق سے بڑھ کر عشق و محبت کے تعلقات استوار کیے ہیں۔ اب کمرۂ عدالت میں بسنے والی مخلوق اپنے اپنے طرز، انداز اور اسلوب سے کئی سوالات اور امتحانات کے مراحل سے گزارے گی۔ اس عدالت نے شب و روز کے معاملات، اخلاق، طور و اطوار، رہن سہن، معاشرت و سیاست، تنہائی و مجلسی زندگی، پہننے اور سوچنے کی حد تک تمہارے ہر ایک عمل کی جانچ پڑتال کرنی ہے۔
اس عدالت میں رہنے والے تمام افراد نے تمہارے ہر اٹھتے ہوئے قدم اور زبان سے نکلنے والی بات کا جائزہ لینا ہے۔ اس عدالت کی کسوٹی یہ ہے کہ تمہارے اعمال و اخلاق اور شب و روز کے افعال آنحضرت ﷺ کے معاملات اور طرزِ زندگی کے کتنے قریب ہیں؟ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی معاشرت اور سیاست سے تمہارے کیے گئے دعوے کی کتنی تصدیق ہوتی ہے؟
کیا تمہاری زبان اور ہاتھ سے انجام پانے والے اعمال کی اجازت آنحضور ﷺ نے دی؟ ان اعمال و افعال کو آنحضرت ﷺ نے انجام دیا؟ اگر ان تمام کے جوابات درست آئے تو عدالت اپنی قلم سے یہ فیصلہ صادر کرے گی کہ تم اپنے دعوئے عشق میں سچے ہو ورنہ یہ عدالت تم پر کذاب اور جھوٹے ہونے کا الزام لگائے گی۔
کیوں کہ قرآنی آیات اس بات کو جا بہ جا الگ الگ اسلوب اور الفاظ کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ فرمانِ ربانی کا مفہوم ہے:
''فرما دیجیے! اگر تم ﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، ﷲ بھی تم سے محبت کریں گے۔'' (آل عمران)
ایک اور مقام میں ارشاد کا مفہوم ہے:
''ہم نے تمام رسول اس لیے بھیجے ہیں ﷲ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔'' (النسائ)
اور پھر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے فرامین کے بارے میں ارشاد فرمایا، مفہوم:
''رسول کریم صلی ﷲ علیہ وسلم جو تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔'' (الحشر)
یہ تمام آیات بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم سے عشق کا دعویٰ اس وقت درست ہوسکتا ہے جب آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کی ہر معاملے میں پیروی کی جائے۔
آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر پہلو کو نگاہوں کے سامنے بہ طورِ آئینہ رکھا جائے اور اپنے اعمال و افعال، محبت و الفت، عقیدت و عشق کے تمام مراحل کو اس آئینہ کے سامنے لاکر کھڑا کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہمارے پیش کردہ افعال و اعمال کی تصویر کیسی دکھائی دے رہی ہے؟
خدانخواستہ ہمارے اعمال کی حقیقت دھندلاہٹ سے دوچار تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ازسرِ نو اپنے ہر فعل کا جائزہ لینا ہوگا اور اس آئینے کی کسوٹی کے معیار کے مطابق اپنے آپ کو لانا ہوگا تاکہ ہمارا دعویٰ عشق درست ثابت ہو۔