کشمیر، بے عملی حل نہیں

غلام محی الدین  ہفتہ 4 فروری 2023
gmohyuddin@express.com.pk

[email protected]

شام کے ممتاز سفارتکار‘ مصنف‘ پبلشر اور سب سے بڑھ کر شام کے قومی شاعر نزار قبانی کی ایک نظم کا اردو میں مفہوم کچھ اس طرح ہے:

ہماری فی البدیہہ تقریروں کی برجستگی کا خمیازہ ہے

ہمارے سامنے

پچاس ہزار نئے خمیے پھیلا دیے گئے ہیں

یہ نظم اسرائیل کے مقابل فلسطین کے حق کی آواز اٹھانے والے عرب ممالک کو درپیش المیے کی عکاسی کرتی ہے، لیکن درحقیقت سارے عالم اسلام کا المیہ ہے۔

فلسطین کے لیے جد وجہد کرنے والوں کی پے در پے ناکامیوں کے اسباب کی کھوج بین کے نتیجے میں بھی جو بات نکل کر سامنے آئی یا لائی گئی وہ بھی مغربی دانش پر مبنی تھی، اور ظاہر ہے جب کسی وجہ پر عمومی اتفاق ہوجائے تو پھر اس کا حل بھی اس وجہ کے اندر ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔

کہا گیا فلسطینی جد وجہد اس لیے کامیاب نہیں ہوتی کیونکہ اس کا عنوان مذہبی ہے، اسے عرب قوم پرستی کی بنیاد پر استوار ہونا چاہیے۔ اسلامی دنیا کا ’’روشن خیال‘‘ دانشور طبقہ اس عُقدہ کشائی پر سردُھننے لگا اور پھر ہر طرف اسی کا پرچار عام ہوا۔

کیسی ستم ظریفی ہے کہ اسرائیلی ریاست کا قیام سر سے لے کر پیر تک یہودیت کے مذہبی ڈاکٹرائن پر استوار ہے اور مسلمانوں کو مذہبی اعتبار سے ہی چیلنج کرتا ہے لیکن اس کے مقابل سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو غیرمذہبی رویہ اختیار کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔

اسی تناظر میں اپنے پاکستان کو دیکھ لیں۔ ہر برس 5 فروری کو ہم کشمیریوں سے یکجہتی کا دن مناتے ہیں‘اس سال بھی منائیں گے، لیکن ہمارے دن منانے اور ہماری ’فی البدیہہ تقریروں کی برجستگی‘ کا مقبوضہ کشمیر کے مستقبل پر کیا اثر پڑا؟ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران عالمی طاقتوں، عالمی اداروں اور خود پاکستان کی حکومتوں کی سہواً اور بعض مواقع پر عمداً سہولت کاری نے بھارت کی اپنے مقاصد کے حصول کی جانب مسلسل پیش قدمی کو ممکن بنایا۔

سیاسی اور سفارتی محاذوں پر ہماری مسلسل پسپائی کے نتیجے میں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان حد فاصل، سیز فائر لائن سے ترقی کر کے لائن آف کنٹرول بنی اوراب بھارت نے خود ہی مقبوضہ علاقے کو اپنا حصہ قرار دے دیا ہے۔

یہاں پر بھی ’’دانشوران قوم‘‘ کا اصرار تھا کہ جب آپ کشمیر کے مسئلے کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو مغربی قوتیں جن کے ہاتھوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کی کلید ہے‘ وہ بدک جاتی ہیں۔

اس کے باوجود کہ فلسطین کے معاملے پر مغربی ممالک کے روئیے کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے‘ یہاں اس بودے استدلال کے حامیوں کی کمی نہیں۔ عصر حاضر کے جید عالم اور فلسفی جناب احمد جاوید کے مطابق: ’’بے عمل قوموں کی اُمیدیں مایوسی سے زیادہ مہلک ہوتی ہیں‘‘۔

ہمیں شاید اب بھی امید ہے کہ عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ کشمیر کے منصفانہ حل کی وجہ بن سکتے ہیں۔

ویسے اقوام متحدہ اور بڑی عالمی قوتیں بے عمل قوموں کے لیے بہت اہم نفسیاتی مدد فراہم کرنے کے ذریعے بھی ہیں۔ اگر یہ ذرایع میسر نہ ہوں تو بہت سے حادثات رونما ہو جائیں۔ یہ ذرایع نمائشی اقدامات اور محض بیانات کے ذریعے پاکستان جیسے ممالک کی قیادت کو اپنے عوام کو بیوقوف بنانے اور خود اپنی نفسیاتی تشفی کا سامان فراہم کرتے رہتے ہیں۔

مجھے ایسا ہی ایک واقعہ یاد پڑتا ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں پاکستان نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر ایک نئی قرار داد پیش کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس اعلان پر بڑی ہلچل ہوئی۔ بھارت کی ہم نوا مغربی طاقتیں اسے کسی سُبکی سے بچانے کے لیے ہمیشہ کی طرح متحرک ہو گئیں اور پھر اچانک پتہ چلا کہ پاکستان نے وہ قرار داد واپس لے لی ہے۔

اس خبر کے آتے ہی پاکستان میں ہر جانب کامیابی کے ڈھول پیٹے جانے لگے‘ سرکاری حلقوں نے کہا قرار داد واپس لے کر پاکستان نے عظیم سفارتی کامیابی حاصل کر لی ہے‘ وہ کامیابی جو آج تک کسی کو نظر نہیں آ سکی۔

تب یوں لگتا تھا جیسے بھارت کسی پل گھٹنے ٹیک دے گا۔ ہماری’اُمیدوں کی ہلاکت خیزی‘ بھی ہمیں بے عملی کا رویہ بدلنے پر آمادہ نہیں کر پاتی۔

جب پاکستان قائم ہوا تھا، رب تعالیٰ نے اس ملک کو ایسی جغرافیائی قوت سے نوازا تھا جو دشمن کو ہمیشہ عاجز رکھنے کے لیے کافی تھی۔ پاکستان سے کسی تصادم کی صورت میں بھارت کو یوں جنگ لڑنا پڑتی جیسے دو اطراف سے دشمن ملکوں سے مقابلہ کرنا ہو۔ ہمیں ہمارے سابقہ آقاؤں نے سمجھایا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے ہو گا۔

جب جنگ مسلط ہوئی تو مشرقی پاکستان کا دفاع تو کیا ہوتا، مغربی پاکستان کو بچانے کے لالے پڑ گئے۔ تب امریکا نے ایسا ہی ایک سائفر بھارت کو بھی جاری کیا تھا جیسا عمران خان کے بقول انھیں ہٹانے کے لیے آیا تھا۔

بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو آنے والے سائفر کا مفہوم کچھ یوں تھا: ’’تم سے جتنی بات کا وعدہ ہوا تھا اس سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو‘ مغربی پاکستان سے دور رہو‘‘۔ سو اب یہ ہے کہ بھارت کو دو محاذوں پر تقسیم کر دینے کی صلاحیت جو ہمیں حاصل تھی آج بھارت نے افغانستان کی صورت میں ہم پر مسلط کر دی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ یکطرفہ بھارتی اقدامات نے کم از کم کشمیر پر ہونے والے دو طرفہ معاہدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تقاضوں کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔

تیکنیکی اعتبار سے ان معاہدوں کا وجود باقی نہیں رہا۔بھارت کے یکطرفہ اقدامات کے جواب میں ہم بھی یکطرفہ طور پر بدستور ان معاہدوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں حالانکہ بھارتی اقدامات نے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کو عملاً سیز فائر لائن میں بدل دیا ہے۔

اس سے بھی بڑھ کر سندھ طاس معاہدے کے محاسن پر ہم آج تک رطب اللسان ہیں لیکن اس معاہدے نے پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کے بھارتی اقدامات سے ہمیں بچانے میں قطعی کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ فلسطین کی طرز پر بھارت اب حامی عالمی طاقتوں اور پاکستان کے اندر موجود اپنے دوستوں کی بے عملی سے شہ پا کر مسلم اکثریت پر مبنی پاکستانی بیانیے کو الٹے دینے کے راستے پر گامزن ہے۔

ہندو انتہا پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنے کے سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ 20سے 25لاکھ نئے ہندو ووٹروں کو انتخابات سے قبل مقبوضہ کشمیر کی انتخابی فہرستوں میں شامل کیا جائے گا۔

ہزاروں ایکڑ اراضی فوج‘ نیم فوجی محکموں‘ ہندوؤں اور غیر ملکی کمپنیوں کو الاٹ کی جا رہی ہے۔ 50لاکھ سے زائد ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر کا ڈومی سائل جاری کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں کوئی بتائے گا کہ کیا اس صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بچ نکلنے کی اُمید پالنا کیا مایوسی سے بدتر نہ ہو گا؟

شمشیر کی دھار کا کام کاٹنا ہے‘ کاٹ ڈالنے کی صفت کی بنیاد پر اسے پرکھا جائے گا، یہی صفت اس کی ہیبت کی مظہر ہے‘ یہی اس کا اصل جوہر ہے۔ لیکن وہ ہاتھ، وہ بازو کہیں زیادہ اہم ہے جس نے اسے تھام رکھا ہے۔

ہر معرکے میں پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے جوہر کو ثابت کیا، وہ اب بھی کریں گی، لیکن اگر کارگل کی لڑائی کی طرح شمشیر تھامنے والا ہاتھ ہی کانپ اُٹھے اور جا کر امریکی صدر کی دہلیز پر بیٹھ جائے تو پھر بے عملی کا نتیجہ ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔ اول تو قدم اُٹھایا جائے لیکن اگر میدان میں اُتر گئے تو پھر کھڑے رہنا لازم ہے۔

ہم کہ اک شمشیر جوہر تھے‘ لیکن ہمیں

دست ناہنجار میں تلوار ہونا تھا‘ ہوئے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔