اردو لغت بورڈ میں ماہرین کی قلت بحران کی شکل اختیار کرگئی

عائشہ خان انصاری  پير 6 فروری 2023
اردو ڈکشنری بورڈ میں ملازمین کی شدید قلت ہے اور ایک فرد تین ماہرین کا کام کررہا ہے۔ فوٹو: فائل

اردو ڈکشنری بورڈ میں ملازمین کی شدید قلت ہے اور ایک فرد تین ماہرین کا کام کررہا ہے۔ فوٹو: فائل

  کراچی: غیرمعمولی قومی اہمیت کے ادارے ’اردولغت بورڈ‘ میں ماہرین کی شدید قلت ایک بحران کی کیفیت اختیار کرچکی ہے۔

ادارے میں اس وقت اردو لغت کی تدوین کا ایک ہی باقاعدہ ماہر کام کررہا ہے جبکہ 55 اسامیوں پر صرف 14 افراد کام کررہے ہیں۔ یوں 1973 کے آئین کی شق 251 کے تحت قومی زبان اردو کو سرکاری سطح پر رائج کرنے کے اقدامات بھی نظر نہیں آرہے۔

سب سے بڑھ کر اردو ڈکشنری بورڈ کے تحت گزشتہ 6 برس میں کوئی نہیں جلد سامنے نہیں آسکی اور یہاں طلبہ و طالبات کی آمد بھی انتہائی کم ہے۔

تفصیلات کے مطابق اردو لغت بورڈ کی 55اسامیوں میں سے 41 کے خالی ہونے کا انکشاف ہوا ہے اور صرف 14 افراد ان اسامیوں پر کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ماہرین میں ایک شخص اسکالرز کی اسامیوں پر لغت کاکام کررہا ہے،باقی تمام افراد مختلف گریڈزکے دفتری ملازم ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے بھرتیوں کے لیے ابھی کوئی اقدام سامنے نہیں آیا،سن 1973ء کی آئین کی شق 251کے تحت قومی زبان کوسرکاری و دفتری سطح پررائج کرنے کے لیے کوئی بھی سنجیدہ اورٹھوس اقدامات ناپید دکھائی دیتے ہیں۔

ڈائریکٹرجنرل ڈاکٹر راشد حمید نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس عمارت میں پیشہ وارنہ ذمہ داریوں مامورافرادی قوت کی کمی کا یہ عالم ہے کہ ایک فرد تین لوگوں کا کام کررہاہے۔عمارت کو دوبارہ فعال رکھنے کے لیے دوبارہ افتتاح تو کردیا گیا،تاہم وفاقی حکومت کے ادارے ’’اردو ڈکشنری (لغت) بورڈ‘‘ نے 22 جلدوں اور ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔انہوں نے کہا کہ فرمان فتح پوری ، جمیل جالبی اور دیگر ناموراورگرانقدر شخصیات نےسن 1985میں اس عمارت کی بنیاد رکھی۔

یہ بات کسی بھی زندہ اورادب کے دلدادہ معاشرے کے لیے قطعی طورپرمناسب نہیں کہ تہذیب سے جڑے اداروں کو کمزوریا پھر مکمل طورپرمعدوم ہوتے خاموشی سے دیکھاجائے۔راشد حمید کے مطابق ان اداروں کو وفاق میں ضم کرنے کا فیصلہ بھی کوئی مناسب قدم نہیں تھا، تنظیم نو میں ادارے کا حجم  اور ملازمین کی تعداد اور بھی کم ہو جائیگی،پھر ضرورت کے وقت جتنے ماہرین درکارہونگے ،وہ دستیاب نہیں ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ عموماً لوگ یہ رائے دیتے ہیں کہ ڈکشنری 22 جلدوں پر بن گئی،تو اب کیا ضرورت ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اگر آکسفورڈ ڈکشنری کا جائزہ لیں تووہ اپنے سابقہ حجم سے پہلے سے وسیع ہوتا جارہا ہے،زبانیں زندہ ہوتی ہیں،زبانوں میں پرانے لفظوں میں ترمیم کی جاتی ہے۔ میٹرک انٹر طلبہ کیلیے مختلف درجوں کیلئے اسی میں سے ڈکشنری نکلنی چاہئیے اور غالب میر کی فرہنگ تیار کرنے کی ضرورت ہے،تا کہ لفظوں کی وسعت بہترطورپرسامنےآسکے۔ انہوں نے اہم افراد کی سرپرستی اور ڈکشنری کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کی صدر شعبہ اردو یاسمین سلطانہ نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اردو ڈکشنری بورڈ سے پچھلے 6 سالوں سے منظر عام پر نہیں ایا نہ ہی کوئی نئی جلد ائی،طلبہ کی یہاں آمد و رفت نہ ہونے کے برابر ہے،اردو ڈکشنری بورڈ کو گمنامی میں ڈوبنے سے بچانے کیلئے وزیراعظم کے مشیر امین مقام نے عمارت کی تزئین و آرائش کر کے دوبارہ زندہ کیا تا کہ طلبہ یہاں کا رخ کریں اور قومی زبان کی اہمیت کو سمجھیں۔

اس سے قبل اُردو لغت بورڈ، کراچی کی نو تعمیر و تزئین شدہ عمارت کے افتتاح کے سلسلے میں مشیر برائے وزیر اعظم انجینئر امیر مقام نے اُردو لغت بورڈ، کراچی کا دورہ کیا اور عمارت کا باضابطہ افتتاح کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔