دواؤں کی کوالٹی اور ہماری نااہلی

ڈاکٹر عبید علی  پير 6 مارچ 2023
پاکستان میں دواؤں کی منظوری کےلیے کوئی چھان پھٹک نہیں کی جاتی۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں دواؤں کی منظوری کےلیے کوئی چھان پھٹک نہیں کی جاتی۔ (فوٹو: فائل)

دوائیں آپ کے خون میں پہنچتی ہیں، چاہے گھل کر یا پگھل کر یا براہ راست یا مختلف راستوں سے، جیسا آپ سمجھ سکیں۔ خون میں پہنچے بغیر اپنے اثرات نہیں ظاہر کرتیں۔ جہاں فائدہ مند اثرات ہوں وہاں نقصان دہ اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔ کچھ نقصان دہ اثرات مجبوری ہوتے ہیں اور کچھ غفلت کا نتیجہ۔

مضر اثرات کی کئی شکلیں اور شدت کے کئی درجے ہیں۔ کینسر سے لے کر گردے ناکارہ ہونے تک کبھی قابلِ تلافی اور کبھی ناقابلِ تلافی۔ دواؤں سے پیوستہ ان پیچیدہ معاملات کو ڈھونڈنا، پرکھنا اور سمجھنا سائنسی عرق ریزی والا کام ہے، جس میں شعور اور احساس کا جزو لازمی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس ہمارا ملک اس میدان میں بھی نااہلی کا شکار ہے۔

2022 میں امریکی ایف ڈی اے نے مجموعی طور پر 914 جینیرک ادویہ کی درخواستوں کی منظوری دی، جبکہ 1775 کو مختلف وجوہات کے ساتھ مسترد کردیا۔ ان دواؤں کی منظوری سے 450 ڈالر والا نسخہ گر کر 23 ڈالر کا ہوگیا اور تقریباً 6.6 بلین ڈالر کا مجموعی فائدہ ہوا۔ ان ادویہ میں ہمارے ساتھ ازاد ہونے والے پڑوس ملک کے کارخانوں کا بہت بڑا حصہ اور ہمارا ہمیشہ کی طرح صفر ہے۔ ہم نے کبھی اس میدان میں اپنی قابلیت کو بڑھانے کی کوشش ہی نہیں کی یا پھر یہ کہنا چاہیے کہ طب کا شعبہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہا۔

وہ امریکی حکام شاید اپنے عوام کا درد اور دواؤں سے متوقع زخم کا کرب خوب سمجھتے ہیں۔ دواؤں کو چھان پھٹک کر منظوری دیتے ہیں۔ ادھر ہمارے ملک میں آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہم ان سے دس گنا زیادہ جینیرک ادویہ رجسٹر کرتے ہیں اور ان دواؤں کی قیمت میں مستقل اضافہ ہمارا خاصا ہے۔ ان دواؤں کی منظوری کی نہ سائنسی وجوہات دستیاب ہیں اور نہ ہی معقول توجیہات کی کوئی دستاویز عوامی دسترس میں میسر ہے۔ صرف 2022 میں ترقی یافتہ ملک امریکا میں جینیرک ادویہ کی منظوری سے نوے فیصد سے زائد ان دواؤں کی قیمت میں کمی ہوئی۔ ہمارے ہاں آپ خود جانتے ہیں کہ کیا صورتحال ہے۔

ایک ترتیب وار متوازن اور پائیدار جہالت اور بدنیتی کا بدقسمت گٹھ جوڑ ہے۔ نہ سائنس ترقی کرتی ہے اور نہ خوش حالی راستہ دیکھتی ہے۔ تمغے ہیں کہ کم نہیں ہوتے۔ دوا بیچنے کا جشن ہے کہ ختم نہیں ہوتا۔ ڈھٹائی ہے کہ کم نہیں ہوتی۔ گھمنڈ ہے کہ رسوا نہیں ہوتا۔ یہی شکوہ ہے جس کا راقم عرصے سے تعاقب کررہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر عبید علی

ڈاکٹر عبید علی

ڈاکٹر عبید علی ایک معروف فارماسسٹ ہیں جو اس میدان میں 25 سال کا بھرپور تجربہ رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔