کراچی ایک بار پھر مشکل میں

شہریار شوکت  ہفتہ 18 مارچ 2023
کراچی کے حالات ایک بار پھر کیوں خراب ہورہے ہیں؟ (فوٹو: فائل)

کراچی کے حالات ایک بار پھر کیوں خراب ہورہے ہیں؟ (فوٹو: فائل)

کراچی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ گھر سے نکلنے سے قبل لوگ شہر کے حالات کا جائزہ لیتے تھے۔ جس دن شہر میں صرف ایک یا دو افراد ہی کو ٹارگٹ کیا جائے تو کہا جاتا تھا کہ آج شہر کے حالات نارمل ہیں۔

ان دنوں کراچی میں کاروباری و صنعتی علاقوں میں حالات انتہائی خراب تھے۔ یومیہ تین تین سو موبائل چھنتے تھے۔ کراچی کا ہر تیسرا شہری کسی نہ کسی ناخوشگوار واقعے کا شکار ہوتا تھا۔ سیاسی جماعتوں کی ایک کال پر پورا شہر بند ہوجاتا تھا۔ کراچی کے اکثر علاقے نو گو ایریاز میں تبدیل ہوچکے تھے۔ یہ وقت کراچی کی تاریخ کا بدترین دور تھا ۔نہ جانے کیسے میاں نواز شریف کی حکومت میں حکام بالا کو یہ احساس ہوا کہ کراچی ملک کا معاشی ہب ہے، یہاں کے حالات کو بہتر بنائے بغیر ملکی معیشت کو مستحکم کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ کراچی میں آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ ان دنوں میجر جنرل بلال اکبر کو کراچی آپریشن کی ذمے داری دی گئی۔ انہوں نے اس ذمے داری کو خوب نبھایا اور شہر کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کیا۔ کراچی کی روشنیاں ایک بار پھر لوٹ آئیں۔ کاروباری طبقہ مستحکم ہوا۔ شہر میں قائم کردہ نوگو ایریاز کو ختم کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کے اثر ورسوخ کو محدود کیا گیا اور شہر امن کا گہوارہ بن گیا۔ لیکن یہ خوشحال دور کراچی والے زیادہ عرصہ نہ دیکھ سکے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال صرف پانچ ماہ میں اہالیان کراچی 12 ہزار موبائل فونز سے محروم ہوئے۔ اسلحے کے زور پر 71 گاڑیاں چھینی گئیں جبکہ 900 سے زائد گاڑیاں چوری کی گئیں۔ 2023 کا آغاز بھی کراچی والوں کےلیے اچھا ثابت نہ ہوا۔ سال کے پہلے ہی مہینے میں 7 ہزار سے زائد اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ یقینی طور پر ایک بڑی تعداد ان وارداتوں کی بھی ہوگی جو رپورٹ ہی نہیں ہوئیں یا متعلقہ تھانے نے اپنی ساخت بچانے کےلیے متاثرہ شہری کو کچی رپورٹ پر ہی ٹرخا دیا۔ اس سال ڈاکو اسکولوں، اسپتالوں، ہوٹلوں اور مدارس کو بھی نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ کراچی میں جرائم میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن اس کا مستقل حل نکالنے کی جانب کسی کی توجہ نہیں۔ عوامی احتجاج کو دبانے کےلیے عارضی طور پر افسران کا تبادلہ کردیا جاتا ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کراچی کے حالات ایک بار پھر کیوں خراب ہورہے ہیں؟ یہ بات تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سرکاری اداروں میں ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ ملزمان کو گرفتار کیا جائے تو رشوت ان کا سہارا بن جاتی ہے اور کبھی ثبوت اور گواہان نہ ہونے کی وجہ سے بھی ملزمان کو چھٹی مل جاتی ہے۔ ان تمام وجوہات کے ساتھ ساتھ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری بھی ان حالات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ملک میں جہاں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے وہیں بے روزگاری بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ لوگوں کےلیے عزت سے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں ایک طبقہ ان حالات سے پریشان ہوکر غلط ہاتھو ں کا کھلونا بن جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے ڈیجیٹل اور ترقی یافتہ دور میں بھی کراچی میں کئی ایسے افراد آباد ہیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ ان افراد میں بڑی تعداد غیرملکی باشندوں کی بھی ہے۔ سب نہیں لیکن ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد ایسے واقعات میں ملوث پائی جاتی ہے۔

کراچی کو لاوارث چھوڑا گیا تو ایک بار پھر کاروبار یہاں سے دوسرے شہروں یا دوسرے ممالک میں منتقل ہوجائے گا، جو ملک کی ڈوبتی معیشت کےلیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ حکام بالا کو کراچی کے لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کےلیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ مردم شماری جاری ہے، اسے مکمل طور پر کارآمد بنا کر کراچی میں رہنے والے افراد کا ریکارڈ جمع کرنا لازم ہے۔ شہر میں غیر قانونی طور پر آباد افراد کو بے دخل کرنا ہوگا۔ کراچی کو سیف سٹی بنانے کےلیے کئی بار پروجیکٹ سامنے لائے گئے لیکن یہ مکمل نہ ہوئے۔ حکومت کو سب سے پہلے شہر کو محفوظ بنانے کےلیے شہر بھر میں نگرانی کےلیے سی سی ٹی وی کیمرے لگانے ہوں گے اور ان کو فعال بھی بنانا ہوگا۔ افسران کے بار بار تبادلوں کے بجائے کالی بھیڑوں کے خاتمے کےلیے اقدمات کرنا ہوں گے۔ پولیس کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح پر قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاوں کو بھی سیکیورٹی پر تعینات کرنا بہتر فیصلہ ثابت ہوگا۔ پولیس اور شہریوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ گواہان خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں، لہٰذا گواہی دینے سے کتراتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بار بار وارداتیں کرنے والے افراد جن کا کریمنل ریکارڈ موجود ہوتا ہے وہ بھی باآسانی رہا ہوجاتے ہیں۔

کراچی میں دورانِ ڈکیتی مزاحمت پر قتل کردیے جانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال میں ادارے عوام کو تحفظ دینے کے بجائے انہیں گائیڈ کررہے ہیں کہ مزاحمت نہ کی جائے۔ اس نظام کو تبدیل نہ کیا گیا تو عوام کی جانب سے بھی ردعمل آئے گا جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ عوام کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکنے کےلیے انہیں تحفظ فراہم کرنا واحد راستہ ہے۔ ظلم اور امن کا ایک ساتھ ہونا ممکن نہیں، حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔