زباں فہمی 179؛ عَلانیہ، اعلانیہ اور اعلامیہ

سہیل احمد صدیقی  اتوار 19 مارچ 2023
زباں فہمی 179؛ عَلانیہ، اعلانیہ اور اعلامیہ
تحریر: سہیل احمد صدیقی، فوٹو : روزنامہ  ایکسپریس

زباں فہمی 179؛ عَلانیہ، اعلانیہ اور اعلامیہ تحریر: سہیل احمد صدیقی، فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

 کراچی: ٓآج کی مصروف زندگی میں ’زباں فہمی‘ کے مطالعے اور اس کے بارے میں گفتگو کرنے والے لوگ بہت غنیمت ہیں کہ بقول کسے شاید ہم کتاب اور کتابی معلومات سے مستفید ومستفیض ہونے والی آخری نسل ہیں (حالانکہ میں اس سے بالکل یہ متفق نہیں، جب تک کتاب اور کتابی علم سے محبت، شغف اور قلبی تعلق رکھنے والے لوگ کسی بھی معاشرے میں زندہ ہیں، کتاب نہیں مرے گی۔

ایسا ہوتا تو امریکا میں ایک ایک کتب خانے میں کروڑوں کتب کا ذخیرہ اور اُن سے استفادہ کرنے والوں کی قابل رشک تعداد باربار ہمارے ذہن پر دستک نہ دے رہی ہوتی۔ ہمارے یہاں کتب خانوں کے مہتم اپنی جان چھڑانے کو کہتے ہیں کہ صاحب اب کون آتا ہے پڑھنے اور مختلف قسم کی بندشوں سے طلبہ، اساتذہ، اہل قلم، دانشور اور محققین کو کتب خانے میں داخل ہونے اور کتب سے استفادہ کرنے سے روکتے ہیں۔مستثنیات البتہ ہرجگہ ہوتی ہیں)۔

جو اپنا وقت صَرف کرتے ہیں اور اس کالم اور اس کے موضوعات کو اہم جانتے ہیں، قراردیتے ہیں، اس خاکسار کو ماہرِ لسانیات (گو غلط ہی سہی) قرار دیتے ہیں، یقینا ان مول ہیں۔ اور جناب! آفرین ہے اُن احباب پر جو پڑھے بغیر ہی سمجھ لیتے ہیں کہ جولکھا اچھا ہوگا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر ایسے احباب یہ کرتے ہیں کہ فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر ذرایع سے منقولہ تحریریں، اس خیال سے نقل دَر نقل کرتے ہوئے واٹس ایپ حلقے، بزم زباں فہمی میں پیش کردیتے ہیں کہ ممکن ہے اس جانب ابھی نگاہ ِ سہیل ملتفت نہ ہوئی ہو اور یہ تحریر بھی افادہ عام کے لیے اچھی معلوم ہو۔

نیت تو اچھی ہوتی ہے اور نیت کا ثواب بھی یقینا ملے گا، مگر کیا کیجئے کہ ایسے احباب عموماً ’زباں فہمی‘ پڑھنے کی زحمت ہی گوارانہیں کرتے، ورنہ انھیں معلوم ہوتا کہ یہی موضوع تو ماقبل برتا جاچکاہے، اس پر راقم نے خامہ فرسائی کی تھی اور یہاں واٹس ایپ کے حلقوں میں بھی پیش کیا تھا۔اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ اگر تو بندے کو فرصت کے کچھ لمحات میسر ہیں تو فوراً اپنی پرانی کاوش تلاش کرکے، ایکسپریس کی ویب سائٹ یا موبائل فون کے ذخیرے سے بازیاب کرکے پیش کردیتاہے، ورنہ محض ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔

بہت سے نکات اسی کالم یا مضمون کے سلسلے سے پہلے پہل منظر عام پر آئے یا اُن کا علمی وتحقیقی تجزیہ کسی منطقی انجام کو پہنچا، جیسے حرف دو چشمی ھ کا معاملہ، تشت ازبام، روح رواں، ناعاقبت اندیش اور دیگر۔ یہ تمام کالم بہت زیادہ پسندکیے گئے تو نقل بھی بہت ہوئے اور ”دلاوَر“ چور وں نے خاکسار کا نا م حذف کرکے اپنی ویب سائٹ یا کسی فیس بک گروپ میں پیش کرکے، خوب داد سمیٹی،جیسے یہ ساری علمی وتحقیقی محنت اُنھی کی ہو۔”تکرار“ کے ضمن میں بھی ایک کالم بہت پہلے لکھا تھا،اُسے دُہرائے بغیر عرض کرتا ہوں کہ کبھی تکرار سننے اور پڑھنے والے کے طبعِ نازک یعنی نازک مزاج پہ گراں گزرتی ہے تو کبھی تکرار ضروری ہوجاتی ہے اور کہیں حُسن تکرارسے ایک مخصوص فضا قایم ہوجاتی ہے۔یہ سب زبان کے کرشمے ہیں۔

مندرجہ بالا تمہید کا سبب یہ ہوا کہ گزشتہ دنوں ’بزم زباں فہمی‘ میں ’علانیہ‘ کہ ’اعلانیہ‘ کا موضوع ایک بار پھر زندہ ہوگیا اور ہماری ایک معزز رکن (کہ جن کا ذکر اس کالم میں سب سے زیادہ ہوا، اُن کے فرمودہ اقوال کے ساتھ)، اس مسئلے میں ’جدیدترین‘ لغت کی حامی نکلیں۔اردو لغت بورڈ کی مرتبہ، مختصر اردو لغت میں یہ اندراج ملاحظہ ہو جوبظاہر اُن کے مؤقِف کی تائید کرتا دکھائی دیتا ہے: ”اِعلانیہ /اِعلانےّہ ;علانیہ، کھلم کھلا، برملا“۔(تشدید کا استعمال بھی ’فاضل‘ مرتب کی اپنی اُپچ ہے، ورنہ غلط)۔یہاں خاکساراپنی پرانی وضاحت دُہرانا چاہتا ہے کہ:

ا)۔ یہ لغت ہمارے عظیم ادارے اردو لغت بورڈ کے، بائیس جلدوں پر مشتمل اردو لغت کے عظیم منصوبے (عظیم الشان کہنا غلط)کا خلاصہ ہے۔
ب)۔ محولہ لغت میں جہاں ماہرین لسان ولسانیات نے حسب استعداد حصہ لیا، وہیں ’پرچی‘ نے بھی اپنا کام خوب دکھایا جس کا ذکر ماقبل اپنے ایک کالم میں کرچکا ہوں۔یہی سبب ہے کہ متعدد مندرجات یا توسِرے سے غلط ہیں یا اُن میں ضروری ترمیم واضافہ ناگزیر ہے۔اس اندراج کا معاملہ بھی یہی ہے کہ ’فاضل‘ مرتب کو (جوشاید بہت ہی ”فاضل“ ہوں گے/گی) وضاحت کرتے ہوئے کہنا چاہیے تھاکہ یہ درست نہیں، البتہ غلط العام وغلط العوام ہے، اس لیے یہاں درج کیا جاتا ہے۔
ج)۔اسی مختصر اُردو لغت کی دوسری جلد میں یہ اندراج بھی ملتا ہے: عَلانِےّہ ;کھلّم کھلّا، کھلے خزانے، ظاہر طورپر، نیز بطور صفت ;کھلا ہوا، واضح، عیاں۔اس کے بعد بھی کوئی یہ سمجھے کہ اعلانیہ ہونا چاہیے یا وہی درست ہے یا وہ بھی درست ہے تو کیا کرسکتے ہیں۔

دیگر تفصیل یہ ہے کہ جب لغات ہی کاسہار الینا مقصود ہو اوراس بابت کسی اہلِ زبان یا ماہر ِ زبان کی بات ثانوی معلوم ہو تو پھر آئیے مستند لغات دیکھیں جن میں کم ازکم اُس دور میں ہمہ اقسام کے ’لغت ساز‘ دخل نہیں دیتے تھے، غلطیاں تو وہاں بھی موجود ہیں، مگر ایسی نہیں جو ہماری سب سے معتبر لغت میں ہے کہ ایک ہی لفظ زیرزبر پیش کے ساتھ درج کردیا، بلا تحقیق یا ایک ہی لفظ پر بہ یک وقت پیش اور زبر لگادیے۔

یہ نہ کہیں کہ یہ کسی ٹائپسٹ یا کمپوزر کا سہو ہوگا۔یہ تو گویا ”عُذرِ گناہ، بدتر اَز گناہ“ والا معاملہ ہوگا۔اَلمُنجِد (عربی اردولغت)میں مصدر ہے، العَلانیہ یعنی کھلم کھلا ;مثال دے کر بتایا گیا کہ جب کہیں رَجُل’‘ عَلانِےۃ’‘ تو مطلب ہوگا اس(شخص) کا معاملہ ظاہر ہے۔ فرہنگ آصفیہ کا بیا ن ہے: عَلانِیہ (عربی)، تابع فعل بمعنی آشکارا، ظاہرا، کھلم کھلا، کھلا کھلا، سب کے سامنے، کھُلے خزانے، عام میں۔اب دیکھیے نوراللغات: (عربی) علانیت، بغیرتشدید ِ حرفِ پنجم، علن مادّہ، ظاہرا،کھلم کھلا،کھلے خزانے، علانیہ کہنا، ڈنکے کی چوٹ کہنا، کھلم کھلا کہنا۔

علانیہ کی نفی بنانے کے لیے لفظ غیربطور سابقہ استعمال کیا جاتا ہے اور چونکہ یہ اِن دنوں بہت سے لوگوں کو نامانوس لگ رہا ہے، اس لیے ”غیر اعلانیہ“ لکھنا درست معلوم یا محسوس ہورہا ہے۔اب یہاں یہ جواز لایا جارہا ہے کہ ’اعلانیہ‘،شاید ’اعلان‘ سے نکلا ہے، اس لیے غیراعلانیہ ہونا چاہیے، حالانکہ ایسی کوئی بات پرانی اور مستند لغات میں نہیں ملتی۔اگر کسی لفظ کے بے تحاشا استعمال کو بنیاد بناکر اُسے درست قراردیا جائے تو اس طرح بے شمار الفاظ وتراکیب،اصطلاحات اور چالو بولی ٹھولی یعنی Slangکی مروجہ بہت سی باتیں بھی معیاری زبان میں استِناد حاصل کرلیں گی یعنی انھیں مستند مانا جائے گا۔

صحافت میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کسی صحافی نے انگریزی لفظ کا ترجمہ کرنے میں ٹھوکر کھائی اور اپنے طور پر کوئی چیز ایجاد کردی….بس جناب، چل سو چل ہوگئی، اب آپ لاکھ بتاتے رہیں کہ یہ کوئی لفظ نہیں، مگر لوگ تو رِواجِ عام دیکھتے ہیں، اہل زبان اور لغت کون دیکھے۔یہاں تو سوشل میڈیا پر اتنے ماہرین وعلماء و فقہاء موجودہیں کہ شاید پچھلے کئی سو سال میں کہیں یکجا نہ ہوئے ہوں گے۔اور ایک وہی اپنی کہی ہوئی بات دُہراتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر،اردو زبان کے معاملے میں بھی ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو کچھ سیکھے بغیر ہی دوسروں کو سکھانے پر تُل گئے ہیں۔

یہاں ایک اور لفظ بھی شامل موضوع اور شامل بحث تھا، اعلامیہ۔یہ انگریزی میں رائج فرینچ لفظ Communiquéکا(جو خود لاطینی الاصل ہے) اردو مترادف ہے۔اس کے معانی ہیں: سرکاری(یا شاہی) اعلان، خبر،سرکاری اطلاع، روداد، رپورٹ، ابلاغیہ۔ اس لفظ کا ہمارے کلیدی لفظ سے بس یہی تعلق ہے کہ اس سے مراد کسی بات یا واقعے یا ملاقات کا پرچار۔یا۔ علی الاعلان اظہار کرنا ہے۔ آج اتنا ہی کافی ہے،اگلی دفعہ کسی بھرپور موضوع کے ساتھ آپ کودعوت ِ مطالعہ و تحقیق دوں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔