پاکستان کا معاشی زوال اور مراعات یافتہ طبقہ

ایڈیٹوریل  پير 27 مارچ 2023
پاکستان کو مہنگائی، پست شرح نمو اور زرمبادلہ کی ضرورت جیسے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان کو مہنگائی، پست شرح نمو اور زرمبادلہ کی ضرورت جیسے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات خوش اسلوبی سے آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔

گزشتہ روز آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن جولیا کوزک نے میڈیا سے گفتگو میں پاکستان سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب نے پاکستان کے معاشی مسائل مزید گھمبیر بنائے ہیں، پاکستان کو مہنگائی، پست شرح نمو اور زرمبادلہ کی ضرورت جیسے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی معیشت کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سست شرح نمو، بلند افراط زر اور بڑی مالیاتی ضروریات شامل ہیں ۔انھوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے عملے اور پاکستانی حکام کے درمیان پاکستان کی توسیعی فنڈ سہولت کے نویں جائزے کو مکمل کرنے کے لیے پالیسیوں پر عملے کی سطح کے معاہدے کے لیے بات چیت جاری ہے، حکام ضروری اصلاحات کے نفاذ کے لیے پرعزم ہیں۔

انھوں نے معیشت کو مستحکم کرنے اور اعتماد بحال کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے،سیلاب سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مالی گنجائش فراہم کرتے ہوئے آئی ایم ایف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سماجی امداد میں اضافے کے ذریعے پسماندہ و کمزور طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی کے تحت ریلیف دینے کی حمایت کرتا ہے۔

پاکستان کے بارے میں آئی ایم ایف کے کسی بھی عہدے دارسے کوئی سوال پوچھا گیا ہے تو مثبت جواب ہی آیا ہے ‘ بلاشبہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بہت سے ایشوز پر مختلف نقطہ نظر پائے گئے ہیں تاہم اس پر دونوں فریق متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان کو شدید قسم کی معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور آئی ایم ایف کو پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔

پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پر بھی خاصی حد تک عمل درآمد کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان معاشی استحکام کا خواہاں ہے اور آئی ایم ایف سے کیے گئے اپنے وعدوں پر قائم بھی ہے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو سچائی تسلیم کرنا پڑے گی کہ دنیا میں ہر شے اور رعایت کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے،اگرکوئی مفاد لینا ہے تو اس کی ویلیو کے مطابق قیمتبھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ آئی ایم ایف جو شرائط عائد کررہا ہے، اس کی وجوہاب بھی ہیں۔

آئی ایم ایف ایک ایسا عالمی مالیاتی ادارہ ہے جس کے رکن ممالک اپنے اپنے حصے کے مطابق ڈونیشن دیتے ہیں۔ اس لیے آئی ایم ایف جب کسی ملک سے کوئی معاہدہ کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے ڈونرز کے مالی مفادات کا تحفظ یقینی بناتا  ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اپنے رکن ممالک کی مالی مشکلات میں مدد بھی کرنا ہیکیونکہ آئی ایم ایف کا قیام ہی اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ وہ عالمی مالیاتی نظام کو مستحکم رکھے اور مشکل وقت میں رکن ممالک کی مالی اور تکنیکی مدد بھی کرے۔ پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کا بھی یہی فارمولہ ہے۔وہ پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہے لیکن وصولی بھی یقینی بنانا چاہتا ہے۔

آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی پر امریکا کا ناقابل تردید اثر و رسوخ ہے ،امریکا کے بعد یورپ کے ترقی یافتہ ممالک ‘ جاپان اور سعودی عرب وغیرہ بھی خاصا اثر رکھتے ہیں۔

پاکستان کا معاملہ اس لیے بھی پیچیدہ ہوا ہے کہ مالی اور معاشی ترجیحات میں پیداواری منصوبوں کو نظر انداز کرکے غیر پیداواری اخراجات بڑھائے گئے ہیں۔پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں نے اربوں ڈالر امداد دی ہے۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی امداد اور گرانٹس کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو آج بھی جاری ہے۔

پاکستان کے پالیسی ساز اپنی سمت درست رکھتے اور ملکی معیشت کو سیاسی و اسٹرٹیجک معاملات پر ترجیح دیتے تو پاکستان جنوبی کوریا اور ملائیشیا کے برابر ترقی ضرور کرتا لیکن پاکستان کے پالیسی سازوں نے عالمی مالیاتی اداروں اورترقی یافتہ ممالک سے جو بھی امداد اور قرض ملا‘ اسے غیر پیداواری سرگرمیوں پر خرچ کیا ‘ ریاستی مشینری کے ڈھانچے کو وسعت دی اور اپنی مراعات میں مسلسل اضافہ جاری رکھا ‘ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغیر محنت کیے امراء کا طبقہ اگنا شروع ہوا جو اب عفریت کی شکل اختیارکر چکا ہے۔

اس امیر طبقے نے آکٹوپس کی طرح پورے ملک میں اپنا جال بچھا رکھا ہے ‘ بیوروکریسی ‘عدلیہ ‘فوج اور سیاست میں اس طبقے کی جڑیں بہت گہری ہوچکی ہیں۔اس طبقے کے لوگ کاروباری اجارہ داربھی بن چکے ہیں اور زرعی معیشت میں بھی بڑے اسٹیک ہولڈر بن گئے ہیں‘بیرون ملک روابط میں بھی اس طبقے کے لوگ بہت اثرورسوخ کے مالک ہیں۔

مختلف قسم کے ٹرسٹ وغیرہ بنا کر ٹیکس نیٹ سے بھی باہر ہیں ‘ پاکستان کے معاشی زوال کی سب سے بڑی وجہ اس طبقے کا بے جا پھیلاؤ ‘ اثرورسوخ ‘ مراعات اور سرکاری اداروں میں ٹاپ عہدوں پر قابض ہونا ہے۔

ذہنیت باہر سے یہ طبقہ اصلاحی اور تعمیری فکر سے نابلد ہے‘وطن پرستی اور مذہب کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے بھی اس طبقے کے افراد کی سوچ سواد اعظم کی سوچ سے الگ ہے۔ اس طبقے کی خارجہ ‘داخلہ اور معاشی امور میں بڑھتی ہوئی مداخلت کی وجہ سے ملک کی معیشت درست سمت میں ترقی نہیں کر سکی اور آج نوبت ڈیفالٹ تک آ گئی ہے۔

پاکستان کی مشکلات خاصی سنگین ہو چکی ہیں۔معیشت اور سیاست کا ایک دوسرے کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو دوسرے میں خرابی پیدا ہونا لازم ہے۔

پاکستان میں اس وقت سیاسی انتشار ‘ فکری انتشار اپنی انتہاؤں کوچھو رہا ہے‘ ریاست کے اسٹیک ہولڈر کے دعوے دار طبقے لڑنے مرنے پر تیار ہیں‘ سیاسی انتشار نے بے یقینی اور خوف کو جنم دیا ہے‘ بے یقینی اور خوف نے معیشت اور کاروبار کو متاثر کیا ہے۔

اتحادی حکومت کو چاہیے کہ وہ اُن ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جو دنیا کی اقتصادیات کنٹرول کر رہے ہیں،ملک میںسیاسی شرپسندی‘ڈھونس دھاندلی اورجلاؤ گھیراؤ کے کلچر کو آئین اور قانون کے ضبط میں لانا ضروری ہو چکا ہے۔معاشرے میں بے لگام سیاسی سرگرمیاں بھی معیشت اور امن و امان کے لیے خطرناک ہیں۔

سیاسی سرگرمیاں آئین اور قانون ‘جمہوریت اور تہذیب کے دائرے میں رہیں گی تو ادارہ جاتی استحکام بھی ہو گا ‘کاروباری سرگرمیوں کو تحفظ بھی ملے گااور ملکی معیشت بھی بہتر ہو گی۔ یاد رکھیں غیر مساوی معاشرے پر آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط بھی غیر مساوی طور پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

اگرچہ ہر کسی کو ہی مہنگائی کا سامنا ہے خواہ وہ 35 فیصد ہو یا 70 فیصد، لیکن وہ طبقہ جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اس کے اوپر مہنگائی کا بوجھ زیادہ ہے۔ افراط زر، کفایت شعاری، مالیاتی نظم و ضبط، تمام معاشی عوامل اور مداخلت، ملکی آبادی میں غیر مساوی طور پر تقسیم ہوتے ہیں۔

ان حالات میں اشرافیہ بھی کچھ عرصے کے لیے کفایت شعاری کرکے ’ ایڈجسٹمنٹ ‘ کر لیں گے لیکن معیشت کو بچانے کے بعد اس سے مستفید بھی سب سے زیادہ یہی لوگ ہوں گے۔غفلت میں پڑے ہماری معاشی منتظمین اور سیاستدانوں کو بھی اب حقیقت کا احساس کرلینا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے سہارے کے ساتھ جو وقفہ ملے گا، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اپنے بل بوتے پر ترقی کرنے کا کوئی منصوبہ بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی درآمدات میں بھی کمی لانی ہوگی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔

ہمیں ترقی کے نئے راستے کھولنے کی ضرورت ہے جو علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہوں ، آئی ٹی برآمدات میں حالیہ اضافہ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔

ترقی کی نئی حکمتِ عملی میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بھی جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوگی۔ حرف آخر ہمیں ایک زندہ قوم کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا ، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

آئی ایم ایف پاکستان کو 75 برسوں میں دو درجن کے قریب پیکیج دے چکا ہے۔ پاکستان میں انفرااسٹرکچر کے بیشتر منصوبے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی امداد ‘قرضوں اور مشاورت سے مکمل کیے ہیں، اگر آج پاکستان اس نہج تک پہنچا ہے کہ دیوالیہ ہونے کے خطرات منڈلانے لگے ہیں تو اس میں ترقی یافتہ ممالک یا عالمی مالیاتی اداروں کا قصور کم ہے اور پاکستان کے پالیسی سازوں کا قصور زیادہ ہے۔

جب ملک اور اس کے عوام کے مفادات کو نظرانداز کر کے ذاتی‘ قبیلہ جاتی ‘ علاقائی اور لسانی مفادات کو ترجیح دی جائے گی تو وہی ہو گا جو آج ملک میں ہو رہا ہے۔ معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور عوام برباد ہیں تو اس کی ذمے داری سے یہ ریاست کے نام نہاد اسٹیک ہولڈرز ہر گز مبرا نہیں ہیں۔

پاکستان کے وسائل پاکستان کے عوام کے ہیں‘ یہ وسائل سرکاری خزانے سے تنخواہیں ‘مراعات اور پنشن لینے والوں کی ملکیت نہیں ہیں۔ قبائلی سردار ‘بڑے زمیندار ‘ سیاسی گدی نشین ‘ بڑے بڑے مدارس کے سرپرست اور مہتمم حضرات بھی ملک کے مالک نہیں ہیں ‘ انھیں بھی جواب دہی کے سسٹم میں اور ٹیکس نیٹ میں لانا انتہائی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔