پھل بائیکاٹ مہم اور فلاحی اسٹالز پر لوٹ مار

وقار احمد شیخ  منگل 28 مارچ 2023
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی تمام پھل تین گنا قیمتوں پر فروخت کیے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی تمام پھل تین گنا قیمتوں پر فروخت کیے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ملک میں مہنگائی تو خیر کبھی کم نہیں تھی، لیکن رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف مہنگائی کا راج ہوجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی بھی کبھی کمی نہیں رہی۔ یوں لگتا ہے جیسے ملک میں صرف آٹے میں نمک کے برابر ہی اچھے اور حساس لوگ باقی رہ گئے ہیں، ورنہ ہر شخص ہی نفسانفسی کا شکار ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر پھلوں کی بائیکاٹ مہم کی کال عروج پر ہے۔ کچھ اس بائیکاٹ مہم کے حامی اور کچھ مخالفت میں بھی پوسٹیں لگارہے ہیں۔ ویسے سوچنے کی بات تو ہے کہ جو پھل رمضان المبارک کا چاند نظر آنے سے پہلے مناسب قیمت میں دستیاب تھے، اب تین گنا نرخوں پر بیچے جارہے ہیں۔ طلب و رسد کا قانون اپنی جگہ، لیکن ایسی بھی کیا اندھیر اور کیا ناجائز منافع خوری۔ پھلوں کا بائیکاٹ اگر ان منافع خوروں کو راہ راست پر لے آتا ہے تو یقیناً یہ ایک صائب عمل ہے اور قوم کو اس بائیکاٹ مہم میں بھرپور حصہ لینا چاہیے۔

ویسے تو بائیکاٹ جیسی مہمات ہر سال ہی سوشل میڈیا ٹرینڈ کا حصہ بنتی ہیں لیکن کامیابی ہمیشہ نہیں ملتی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2017 میں بھی پھلوں کی بائیکاٹ مہم بہت پرزور طریقے سے شروع کی گئی تھی اور اس مہم نے واقعی منافع خوروں کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ صرف تین دن میں بائیکاٹ کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے تھے اور پھلوں کی قیمتیں آدھی گرگئی تھیں۔ لیکن یہ مثبت نتائج بھی عارضی ثابت ہوئے تھے کیونکہ کہتے ہیں ناں کہ ’’چور چوری سے جائے ہیراپھیری سے نہ جائے‘‘۔ آڑھتی اور ذخیرہ اندوز بائیکاٹ مہم کے ختم ہونے کے کچھ دن بعد دوبارہ اپنی پرانی روش پر آگئے۔ ریڑھی بانوں کو مال مہنگا ملنے لگا تو پھر بازاروں میں کیسے سستا فروخت ہوتا۔

پھل بائیکاٹ مہم کے مخالفین کا کہنا بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ غریب ریڑھی بانوں کو بائیکاٹ کے نام پر نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے، اصل قصوروار تو آڑھتی اور وہ ذخیرہ اندوز ہیں جو طلب بڑھنے کے انتظار میں سارا مال سردخانوں میں اسٹاک کرلیتے ہیں۔ نیز پھلوں کی قیمتوں میں یہ اضافہ عارضی ہے، کیونکہ رمضان میں پھلوں کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بائیکاٹ کرنے والے دس بیس روپے کے اضافے پر تو اتنا چراغ پا ہیں لیکن ملک میں بڑھتی مہنگائی کے خلاف خاموش ہیں۔ پٹرول، آٹا، چاول اور دیگر تمام ہی اشیائے صرف کی قیمتوں میں چند ماہ کے دوران کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے لیکن کہیں بائیکاٹ کی کوئی لہر نہیں اٹھی۔ آخر اس جانب سے آنکھیں کیوں بند کرلی گئی ہیں، جبکہ ضرورت تو یہاں بائیکاٹ کی ہے تاکہ طویل مدتی نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ اس کے علاوہ بائیکاٹ کرنے والے دس بیس روپے اضافی دے کر پھل نہیں خریدیں گے لیکن مہنگے پیزا برگر اور ہزاروں کے برانڈڈ سوٹ جوتے خریدنے لازمی جائیں گے۔

بائیکاٹ کے حامی اور مخالفین دونوں کے نظریات اپنی اپنی جگہ درست سہی لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ مہنگائی کی اس چکی میں غریب ہی پِس رہا ہے۔ اصل قصوروار ریاستی ادارے ہیں جو اپنی ذمے داریاں نہیں نباہ رہے۔ مہنگائی میں کمی اور عوام کو ریلیف دینا حکومت کی ذمے داری ہے۔ بازار میں سرکاری نرخوں کا اطلاق اور ناجائز منافع خوری کی روم تھام سرکاری اداروں کی ذمے داری ہے۔ آخر پرائس کنٹرول کمیٹیاں کیوں تشکیل دی جاتی ہیں؟ ہر علاقے کے کمشنر کیا ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے کی تنخواہیں لیتے ہیں؟ اگر حکومت اور سرکاری ادارے اپنی ذمے داریاں نبھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک سے مہنگائی کم نہ ہوسکے اور عوام کو سستے داموں اشیائے صرف میسر نہ ہوں۔ لیکن بات احساس ذمے داری کی ہے، جس سے صرف حکومت اور عہدے دار ہی نہیں بلکہ عوام بھی عاری ہیں۔

عوام کی سہولت اور مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کےلیے کراچی میں کچھ دردمند دل رکھنے والوں نے فلاحی اسٹال لگائے۔ مہنگے پھلوں کو برائے نام قیمت پر عوام کےلیے پیش کیا۔ چکن، سبزیاں اور دیگر چیزوں کے بھی اسٹال لگائے گئے۔ قیمتیں نہایت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر رکھی گئیں تاکہ عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ لیکن عوام نے ان اسٹالز کے ساتھ کیا کیا، یہ بھی ہمیں سوشل میڈیا پر پھیلی ویڈیوز سے بخوبی علم ہوتا ہے۔ جس طرح کی لوٹ مار اور ان اسٹالز پر توڑ پھوڑ کی گئی یہ ہماری قوم کی مجموعی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ بلاشبہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے، لیکن افسوس کہ پاکستان میں اکثریت کی نفسیات ایسی ہی بنتی جارہی ہے۔ جس کا جہاں بس چل رہا ہے لوٹ مار میں مصروف ہے، چاہے وہ حکمران، اشرافیہ، اعلیٰ طبقے کے نمائندگان ہوں یا پھر عوام۔ اور اس نفسانفسی میں جل کڑھ وہ رہے ہیں جو اس ہجوم سے دور اب بھی خود کو ایک قوم کا حصہ تصور کرتے ہیں، جو آج بھی اچھے دنوں کی آس میں ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ ان برے لوگوں کی تعداد تو محض آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جنھیں امید ہے کہ اس قوم کو اچھے دن دیکھنا نصیب ہوں گے، کوئی مسیحا آئے گا اور سب کچھ بدل جائے گا۔ حکمراں خوف خدا کریں گے اور سرکاری ادارے عوامی خدمات پر مامور ہوجائیں گے۔ دعا ہے یہ خوش امیدی اپنی تعبیر کو پہنچے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔