پاکستانی فلمی صنعت اور موضوعات کا قحط

شاہد کاظمی  ہفتہ 27 مئ 2023
لکھاری، فلمساز اور پروڈکشن ادارے ہوش کے ناخن لیں اور نئے موضوعات پر فلمیں بنائیں۔ (فوٹو: فائل)

لکھاری، فلمساز اور پروڈکشن ادارے ہوش کے ناخن لیں اور نئے موضوعات پر فلمیں بنائیں۔ (فوٹو: فائل)

’’بھاگ ملکھا بھاگ‘‘ ایک عام فلم کی طرح نظر سے گزری۔ ہوسکتا ہے کہ دیگر کئی ڈراموں اور فلموں کی طرح یہ بھی ذہن سے محو ہوجاتی، لیکن اس فلم سے جڑے دیگر معروضی حالات نے بطور پاکستانی مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور سوچ کے پیادے اس نہج پر دوڑنے لگے کہ ہمسایہ ملک اگر اپنے قومی ہیروز کو ایسے یاد کررہا ہے تو ہم کیا کررہے ہیں؟

ہم ہمیشہ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ ہمسایہ ملک کی فلمی صنعت بہت بڑی ہے۔ لیکن ہم اس حقیقت سے ہمیشہ چشم پوشی کرتے ہیں کہ ہمارے پاس معدودے چند جو فلم ساز اپنی سی کوشش کررہے ہیں، وہ بھی روایتی موضوعات سے ہٹ کر فلمیں بنانے کو تیار نہیں۔ ہمارے پڑوس میں جہاں کرکٹ، ہاکی، ایتھلیٹکس کے ہیروز کو فلموں کا موضوع بنایا جارہا ہے، اس کے تناظر میں ہمارے ہاں فلموں میں ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ وغیرہ طرز کا ڈرامہ دکھایا جارہا ہے۔ ہماری ترجیحات ہی یکسر مختلف ہیں۔

2022 میں پڑوسی ملک کی فلمی صنعت کا جائزہ لیں تو کروڑوں میں فلم کا کاروبار عام سی بات لگتی ہے۔ ایک علاقائی زبان میں بننے والی فلم بالی ووڈ کی صف اول کی فلموں کو بھی مات دے گئی۔ اس کے علاوہ ریلیز ہونے والی فلموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس کے برعکس وطن عزیز میں سرفہرست ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ فلم کی کل کمائی 8.4 ملین امریکی ڈالر رہی جو ہمسایہ ملک کی دوسرے درجے کی فلموں سے بھی کم ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یا تو ہمیں فلمی صنعت بند کردینی چاہیے یا پھر اگر اس کو واقعی صنعت کا درجہ دینا ہے تو اس کی نئی جہتوں کو متعارف کروانا ہوگا اور اس حوالے سے نئے موضوعات کی تلاش اشد ضروری ہے۔

واپس آئیے ’’بھاگ ملکھا بھاگ‘‘ کے ملکھا سنگھ کی جانب، جو ایک بھارتی ایتھلیٹ گزرے ہیں۔ کامیابیوں میں کامن ویلتھ گیمز 1958 میں گولڈ، 1958 ایشین گیمز میں دو گولڈ، 62 میں دو گولڈ میڈلز کے علاوہ قومی کھیلوں میں دو گولڈ اور ایک سلور میڈل۔ ان کی کارکردگی ان کے ملک کےلیے جیسی بھی رہی، یہ الگ بحث ہے، لیکن ان سے منسوب فلم کی خاص بات اس میں ایک پاکستانی عبدالخالق کا ذکر ہے۔

ہمسایہ ملک کی فلم میں ملکھا سنگھ کو نہ صرف ہیرو کے طور پر بہت اچھے انداز میں پیش کیا گیا بلکہ 1960 میں ملکھا سنگھ کا عبدالخالق سے جیتنا ایک یادگار واقعے کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن عبدالخالق نے پاکستان کےلیے کتنی خدمات سر انجام دیں، ہم نے اس حقیقت کو نہ صرف بھلا دیا بلکہ ایوب پارک راولپنڈی میں عبدالخاق کے ایک مجسمے کے سوا ہمیں کہیں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ ایوب خان سے ملکھا سنگھ کو فلائنگ سکھ کا خطاب تو بعد میں ملا، لیکن عبدالخالق کو ایشیا کے تیز ترین ایتھلیٹ کے طور پر ’’دی فلائنگ برڈ آف ایشیاء‘‘ کا خطاب اس سے پہلے مل چکا تھا۔ ملکھا سنگھ ہمسایہ ملک میں فلم کا موضوع بن گیا مگر پاکستان میں ملکھا سے بہتر ایتھلیٹ ہونے کے باوجود عبدالخالق تاریخ کے تاریک گوشوں میں گم ہے۔

ہمسایہ ملک میں خواتین کی ہاکی کے کھیل پر ایک بہترین فلم دیکھنے کو ملی، جس میں بالی وڈ سپر اسٹار شاہ رخ خان ایک منفرد کردار میں نظر آئے۔ قومی سطح کے کھلاڑیوں کو چھوڑیے، ’ہرجیتا‘ ایک ایسا ہاکی کھلاڑی تھا جس نے جونیئر سطح پر ملک کا نام روشن کیا لیکن کمال کی فلم کی صورت میں اس کی خدمات کو سراہا گیا۔ ’’سورما‘‘ سندیب سنگھ پر فلمائی گئی اور کیا کمال فلمائی گئی۔

پاکستان میں قومی کھیل ہاکی کے حوالے سے کتنی فلمیں بنائی گئیں؟ کتنے ڈراموں کا موضوع ہاکی بنا؟ اس حوالے سے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ جب کہ یاد رہے پاکستان چار ورلڈ کپ، تین اولمپک، آٹھ ایشین گیمز، تین ایشیا کپ، تین چیمپیئنز ٹرافی، اور تین ایشین چیمپیئنز ٹرافی گولڈ میڈلز جیت چکا ہے۔ لیکن ہمیں ان چوبیس گولڈ میڈلز جیتنے والی ایک بھی ٹیم میں ایک بھی کھلاڑی ایسا نہ مل سکا جس پر فلم یا ڈرامہ بنایا جاسکے۔ ہمیں تو پنجاب نہیں جاؤں گی، اچھل کود، ڈانس، فیشن کے موضوعات سے ہی فرصت نہیں۔ ہم فلمی صنعت کو نام کی صنعت سمجھتے ہیں اور بس۔

ہمیں کھیل کے طور پر کرکٹ سب سے عزیز ہے۔ لیکن آج تک دنیا کے بہترین فاسٹ بولرز، بہترین وکٹ کیپرز، بہترین بیٹسمین، دنیا کے بہترین کپتان دینے کے باوجود ہم ایک بھی کردار یا جیت کی ڈرامائی تشکیل نہ کرپائے۔ 83ء فلم کبھی دیکھیے گا کہ کیسے ایک جیت کو فخر کا لمحہ بنا لیا گیا، ہمارے ہاں 92ء کی جیت پر کتنی فلمیں یا ڈاکومینٹریز بنیں؟ دنگل، پان سنگھ تومر، ایم ایس دھونی، سلطان، میری کوم، رشمی راکٹ، گولڈ، اقبال، اظہر، غرضیکہ کتنی ہی شاہکار فلمائی گئی کہانیاں صرف کھیلوں کے حوالے سے ہیں۔ دنگل کا بزنس آپ کو معلوم ہے؟ پان سنگھ تومر بطور کردار کتنا مضبوطی سے فلمایا گیا، یہ آپ دیکھ کر جان جائیں گے۔ سلطان میں کس طرح حب الوطنی اور مسلسل کوشش کو موضوع بنایا گیا، کمال ہے۔ میری کوم میں کس طرح کھیلوں میں خواتین کے کردار، ان کی مشکلات اور شادی شدہ خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے جیسے حساس موضوعات کو چھیڑا گیا، یہ اپنی جگہ ایک شاہکار ہے۔ تمام فلمائی گئی کہانیوں کا ذکر چھڑ گیا تو صفحات کم ہوجائیں گے۔

ہمارے پاس ہاکی میں شہباز سینئر و جونیئر، سمیع اللہ، اصلاح الدین، منصور عالم، سہیل عباس جیسے شاندار کردار موجود ہیں لیکن ہم انہیں قومی ہیرو بس نام کا مانتے ہیں۔ کرکٹ میں فضل محمد، عبدالحفیظ کاردار، انتخاب عالم، جاوید میاں داد، عمران خان جیسے کردار اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ میاں داد کے چھکے کو فلمائیں، ریورس سوئنگ کے ماسٹرز دو ڈبلیوز کی جوڑی کو فلمائیں، اسپیڈ اسٹار شعیب اختر پر فلم بنائیں، 92 کی فتح کو پردہ اسکرین پر لائیں، چیمپئنز ٹرافی کی جیت کو فلمائیں۔ اسنوکر میں دیکھیے محمد یوسف کی جیت کہاں گم ہوگئی؟ اسجد علی کی فتوحات کہاں گئیں؟ فٹ بال کی فتوحات نہ سہی، فٹبال بنانے کو ہی موضوع بنالیجیے۔ ہاشم خان سے شروع ہوکر کارلا خان تک اسکواش کی کتنی ہی کہانیاں ہیں، جان شیر، جہانگیر ہیں۔ ارشد ندیم، شبانہ اختر پر فلم بنائیے۔

پاکستان میں بکھرے ہوئی دیگر شعبہ جات کے موضوعات بھی کچھ کم نہیں۔ شاید لکھاری، فلمساز، پروڈکشن ادارے ہوش کے ناخن لیں اور ایسے موضوعات کو فلمانا شروع کریں کہ ہماری فلمی صنعت بھی ترقی کرسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔