خوشیوں میں چوری

شہلا اعجاز  جمعـء 26 مئ 2023

اس بڑے سے شادی ہال میں جینز اور سفید مردانہ شرٹس میں اسکارف باندھے خواتین ویٹرس گھوم پھر رہی تھیں۔ یہ ایک نیا انداز ہے بہت سے لوگ خواتین اور مردوں کے پورشن الگ رکھتے ہیں اور اسی طرح وہ خواتین کو مہمانوں کی تواضع کی خاطر مامور کرتے ہیں۔

کھانے بوفے سسٹم کی بجائے اب مہمانوں کی میزوں پر ہی رکھے جاتے ہیں جو ایک اچھا سلسلہ تو ہے لیکن اس کے ساتھ ہی خدمت گاروں کی کثیر تعداد بھی ضروری ہے کیونکہ زیادہ مہمانوں میں کم خدمتگار مشکل سے سنبھال سکتے ہیں۔

تقریب ایک منگنی کی تھی خواتین اور مردوں کو ملا کر بہ مشکل ڈیڑھ سو افراد تھے۔ یہاں دلہا والے تو موجود تھے البتہ دلہن والوں کی جانب سے چند افراد شامل تھے کیونکہ وہ دوسرے شہر سے آئے تھے، کھانے کا وقت ہوا تو خواتین میزبانوں نے کھانے لا کر رکھنا شروع کر دیے جو ان کی ڈیوٹی کا حصہ تھے۔

فی میز کے لحاظ سے ایک بریانی، ایک سالن، ایک میٹھی ڈش، ایک کولڈ ڈرنک ایک پلیٹ میں روٹی اور نان، شیر مال وغیرہ اور ایک ڈش میں تکہ۔ اب کھانے والے مطمئن اور کھلانے والے مسرور۔ اصل میزبانوں کی چونکہ پہلی تقریب تھی تو وہ اپنی میں ہی مگن تھے، بہرحال کھانے کا یہ حال تھا کہ برابر والی میز سے کڑاہی ختم ہوئی وہاں لوگ زیادہ تھے تو خاتون دوبارہ لانے کا کہہ کر لے گئی اور اختتام تک نہ لائیں۔

نتیجتاً ان بے چاروں نے چکن تکہ اور بریانی سے ہی پیٹ بھر لیا لیکن مٹن کڑاہی جو کڑاہی میں خاصی قلیل تھی دوبارہ نہ آئی۔ اس کی شکایت آخر میں اس میز کے مہمانوں نے میزبان خاتون سے کی تو انھوں نے مسکرا کر کوئی بہانہ بنا دیا۔

کھانا ختم ہوا تو خواتین میزبانوں نے انتہائی سرعت سے برتن سمیٹنے شروع کر دیے، صاف ستھرے نان، شیرمال اور روٹیاں، میٹھے اور تکے یوں اٹھا رہی تھیں کہ جیسے یہ سارا اب کچرے کی نذر ہوگا بہرحال سارے برتن سائیڈ پر رکھی میز پر دھر دیے گئے۔

مہمان جانا شروع ہوگئے، بحالت مجبوری وہاں رکنا ضروری تھا ایک شلوار قمیض میں ملبوس نوجوان جو غالباً ان ویٹرز کے عملے سے تھا یا نہیں بغور ان برتنوں کا معائنہ کر رہا تھا گویا نظروں ہی نظروں میں تول رہا تھا۔ لائٹیں اب بجھا دی گئی تھیں کم روشنی میں صاف دیکھنا مشکل تھا۔

’’ بوفے میں کھانا زیادہ ضایع جاتا ہے یا ٹیبل پر سرو کرنے میں۔‘‘

ایک خاتون میزبان سے پوچھا گیا۔

’’بوفے میں زیادہ ضایع ہوتا ہے کیونکہ بہت سا کھانا ایک ساتھ رکھا ہوتا ہے اور لوگ بلاوجہ ہی زیادہ زیادہ نکال لیتے ہیں۔ کئی بار ہمارا دل چاہتا ہے کہ منع کریں پھر ڈرتے ہیں کہ مہمان برا نہ مان جائیں کہ ہم ان کے بچوں کو نکال کردیں۔‘‘

جواب معقول تھا۔ سوال کرنے والی نظریں ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں۔

’’کیا چکن تکہ کم تھا۔ ہم نے تو کھایا بھی نہیں؟ ‘‘ دلہا کی والدہ نے پوچھا تھا جنھوں نے اپنے گھر والوں کے ہمراہ آخر میں کھانا کھایا تھا۔

’’نہیں تو، اب بھی یہاں پڑا ہے بہت سا کھانا۔ یہ دیکھیں ڈشیں بھری ہوئی ہیں۔‘‘

توجہ دلانے پر ان کی نظریں کم روشنی میں پڑے کھانے کے ڈھیر پر پڑیں جہاں تمام کھانا اچھی حالت میں بہ ظاہر بکھری ہوئی صورت لیے تھا۔

’’آپ اپنے گھر والوں کے لیے یہی اٹھا لیں، شاپر میں بھر لیں۔‘‘

پھر شاپرز کی ڈھنڈیا مچی۔ پچاس کلو چکن تکہ ، پچاس کلو مٹن کڑاہی اتنے مہمانوں کے لیے کم نہ تھا جب کہ بریانی اور روٹی، نان، شیرمال وغیرہ کا تو حساب ہی نہ تھا۔

’’یہ سب تو کچرا ہے، اب کچرے میں ہی جائے گا۔‘‘ خاتون میزبان کی کہی بات بازگشت میں گونج رہی تھی، کچرے میں جانے سے بہتر ہے پیٹ میں جائے بس یہی سوچ اس سارے عمل کے پیچھے کارفرما تھی۔

اتنا سارا کھانا کہاں غائب ہو گیا تھا، جب کہ کھانے کو انتہائی کنجوسی سے سرو کیا گیا تھا، اصل میزبان کس قدر سخی اور مہمان نواز ہیں اگر اس بات کا علم نہ ہوتا تو ان پر شک جاتا ، کیوں کہ ان کی جانب سے یہ ہدایات دی گئی ہوں گی۔’’ یہاں کے ویٹر چور ہیں۔

انھوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ان پر نظر رکھنا۔‘‘ یہ بعد کی معلومات تھیں جو پہنچی تھیں، ادھر ادھر کے ذکر کے ساتھ۔تین چار افراد کی مٹن کڑاہی کی قیمت کتنی ہو سکتی ہے یہ مختلف قسم کے ریسٹورنٹس اور ہوٹل والوں سے پوچھیے کہ چکن تکہ کتنے کا ملے گا، ایک عام تندور کی روٹی اور دودھ والی روٹی، شیرمال یا خستہ روٹی کی قیمت کیا ہے، ڈھیروں سلاد کی تو بات ہی کیا ہے۔

ہم اخلاقی طور پر نہایت کمزور ثابت ہوئے ہیں ۔ جو مال بھی مفت میں نظر آتا ہے اسے لوٹ کا سمجھ کر اپنا حق جتا دیتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کے اس کا فائدہ بس تھوڑے سے وقت کے لیے ہی ہے، ہم یہ بھی بھول بیٹھے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ وجہ یہ کہ ہم مسلمانوں کی تمام خصوصیات بھلا بیٹھے ہیں۔

بس یہی بہت ہے کہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں، دنیا بھر کی تمام نعمتیں ہمارے ہی لیے ہونی چاہئیں۔بچپن سے لے کر آج تک شادیاں شادی ہالز میں ہی دیکھتے آئے ہیں۔

پہلے زمانے کی سادگی ہم سے کیا کھوئی ہماری تو دنیا ہی سرے سے بدل گئی، کئی کئی کھانے اور میٹھے کے لوازمات، سلاد، چٹنیاں، اچار اور ٹھنڈی بوتلوں کی یلغار، میٹھے پان، کشمیری چائے، آئس کریم، کیک یہ سب یوں ہماری تقریبات کا حصہ بنتے چلے گئے کہ جیسے بہت ضروری ہوں اور ان کے بغیر تقریبات ادھوری رہ جائیں گی۔

مہنگے مہنگے ہالز اور ان کی فضول حرکات، گانے تماشے اور پھر ایک چند گھنٹوں کے اس فنکشن میں ان تمام غیر ضروری اخراجات کے بعد چوریوں کے تماشے الگ۔جو لوگ مال والے ہیں ان کے لیے بھی مسائل بڑھ گئے ہیں اور جو بے چارے پہلے ہی مسائل کے مارے کسی طرح جوڑ توڑ کر یہ ساری رسومات نبھاتے ہیں۔

ان کے ساتھ چوریاں اور کھانے کی کمی کے مسائل کس کس قدر شرمندگی کا باعث بنتے ہیں اس سے کسی کو کیا غرض۔شادی ہالز میں کھانوں کی چوری کا معاملہ اب سے چند سالوں پہلے بڑے پیمانے پر شروع ہوا، اس سلسلے میں بڑے چھاپے بھی پڑے لوگوں کو پکڑا بھی گیا لیکن لگتا یہ ہے کہ اب کہانی پھر سے ایک بار شروع کی جا رہی ہے۔ ادھر کھانے کی دیگیں ہالز کے کچن پر اتریں ادھر کچھ دیگیں چور دروازے سے پار۔

مہنگائی کا دور دورہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب کچھ بھول کر مادی خواہشات کے پیچھے دیوانہ وار دوڑنا شروع کردیں۔ بدلے میں مہنگے موبائلز، برانڈڈ کپڑے، کاسمیٹکس اور دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے دنیاوی لوازمات کہ اپنے اپنے علاقوں، گاؤں میں جا کر متاثر کریں گے اور اس کے عوض گناہوں کے پہاڑ۔ کس قدر تکلیف دہ سودا ہے توبہ !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔