آتے آتے ہنر آتا ہے گرہ بندی کا

محمد علی عمران خان  اتوار 28 مئ 2023
مصرعوں میں گرہ لگانے کی دلچسپ روایت کے کچھ واقعات ۔ فوٹو : فائل

مصرعوں میں گرہ لگانے کی دلچسپ روایت کے کچھ واقعات ۔ فوٹو : فائل

اردوزبان کا نثری و شعری ادب اپنی ہمہ رنگ اصناف اور ہیئتی تنوع کے باعث دنیا کی دیگر زبانوں میں تخلیق ہونی والے ادب کی نسبت نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔

طلسماتی طرزتحریر، تخیلاتی اثر پذیری، مطالعاتی لطف اور تخلیقاتی ارتقائی تجربات سے تشکیل پانے والی اس کی تحریروں کی جاذبیت اور تازگی ہمیشہ متاثر کن رہی ہے۔

بالخصوص اگر اردو کے شعری ادب کی بات کی جائے تو حمد سے غزل اور نظم معریٰ سے تروینی تک ہر صنف اپنی جگہ نہ صرف تحقیق و تنقید کا مکمل دبستان ہے بلکہ قاری کے شعری ذوق کی تسکین میں کام یابی سے اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔

ان اصناف میں سے کچھ جہاں اپنے آسان پیرائے اور زود فہم عروض کے سبب شعراء میں ہردل عزیز ہیں، وہاں چند اصناف اپنی مشکل پسندی اور محنت طلبی کے سبب طبع شعراء کے لیے آزمائش کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔

انہی دقیق اصناف میں سے ایک ’’فن تضمین نگاری‘‘ ہے۔ تضمین کا مادہ ’’ضمن‘‘ ہے جو شرکت، شمولیت اور اندراج کے معنوں میں مستعمل ہے۔ تضمین نگاری کی ہی ایک ذیلی صنف ’’گرہ بندی‘‘ یا ’’گرہ لگانا‘‘ ہے جو ہمارے آج کے مضمون کا موضوع ہے۔

علم بلاغت کی رو سے اس صنف کا شمار صنائع لفظی میں ہوتا ہے، جب کہ شعری اصطلاحات کے علم کے مطابق ’’گرہ لگانا شعری تخلیق کا ایسا عمل ہے جس میں کسی شاعر کے پہلے سے کہے گئے یا نوتخلیق شدہ مصرعے پر دوسرا مصرعہ اس طرح لگایا جاتا ہے کہ جس مصرعے پر گرہ لگائی جا رہی ہو اس کے تخیل میں ہونے والی با معنی تبدیلی سے اس کی شعری انفرادیت میں اضافہ ہوجائے۔‘‘

برصغیر کی ادبی تاریخ میںگرہ لگانے کی شعری روایت کو پہلے پہل طرحی مشاعروں کے ذریعے رواج دیا گیا۔ عربی میں طرح کے معنی ہیں ’’کسی کے سامنے کوئی چیز پیش کرنا۔‘‘ مشاعرے میں غزل کی زمین (بحر +قافیہ + ردیف) مقرر کرنے کے لیے ایک طے شدہ مصرع کو سب شعراء کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ سب اس زمین کے مطابق اشعار کہیں۔ اس عمل کے ذریعے شعراء کی قادرالکلامی کے ساتھ ساتھ ان کی تخیلاتی پرواز کو بھی پرکھا جاتا تھا۔

ایک طویل عرصے تک شعراء کے ادبی مراتب اور ان کی شاعرانہ حیثیت کے تعین میں ’’گرہ سازی‘‘ کے فن کا خاصا عمل دخل رہا۔ یہاں تک کہ غالبؔ جیسے استاد الشعراء کے ہاں بھی اس کے استعمال کی مثال موجود ہے:۔

؎اپنا تو یہ ہی عقیدہ ہے بقول ناسخؔ

’’آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں‘‘

انوکھے خیال اور کٹھن لفظی درو بست کے ذریعے مشکل سے مشکل ترین مصرعے اس طرح ترتیب دیے جاتے کہ شعراء کی فکری استعداد کو دانتوں پسینہ آجاتا اور بقول امیرؔ مینائی حقیقی معنوں میں ’’تن شاعر میںسیروں لہو خشک ہوتا۔‘‘ بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ گرہ لگانے کے معاملے میں کوئی نوآموز سخن بزعم خود اساتذہ کہلانے والے نام ور شعراء پر بازی لے گیا اور بعض مرتبہ غیرمتوقع طور پر کسی غیرادبی فرد نے ارادی و غیرارادی طور پر کسی طرحی مصرعے پر ایسا بے ساختہ، برجستہ اور موزوں مصرعہ ٹانکا کہ کاملان فن اور صاحبان ذوق جھوم جھوم اٹھے اور مدتوں اس کا شہرہ رہا۔ تقسیم ہند کے بعد طرحی مشاعروں کا رواج اگرچہ اب نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن اب بھی کہیں نہ کہیں اس خاکستر میں کبھی نہ کبھی کوئی چنگاری روشن ہوتی رہتی ہے جس کی بدولت گرہ لگانے کا یہ فن زندہ و تابندہ ہے۔

شعر گوئی کی اس متروک ہوتی ہوئی صنف کے ماہرانہ برتاؤ سے آگا ہی حاصل کرنے اور اس سے لطف اندوز ی کی خاطر صاحبان ذوق کے لیے اس مضمون میں شعراء کی تحریر شدہ، آپ بیتیوں، ادبی یادداشتوں اور تذکروں کی مدد سے مصرعہ آزمائی کے مختلف واقعات کو یکجا کیا گیا ہے تاکہ شعری ادب کے اس باب کو محفوظ بھی کیا جا سکے اور آیندہ آنے والی نسلوں تک نام ورانِ سخن کے اس کمال ہنر کو پہنچایا جا سکے۔

میر انیسؔ کے منجھلے فرزند میر جلیسؔ بھی اپنے خاندانی فن مرثیہ گوئی کی روایت کے امین تھے۔ فکروسخن میں تادم آخر اپنے والد کے نقش قدم پر رہے۔ عمرآخر میں ایک بار انہیں اپنے تئیں ایک ادق مصرعہ پیش کیا گیا اور مصرعہ ثانی کی درخواست کی گئی مقصد کمال سخن کا مظاہرہ کرنا تھا۔ مصرعہ درج ذیل تھا:

؎فرش ِ ماتم ہے بساطِ محفلِ شادی مجھے

میر صاحب نے پہلے تو اپنے بڑھاپے کو بطور عذر پیش کیا، مگر بعدازآں اصرار پر اپنے مرثیائی انداز سخن میں ہی یوں مصرعے کو شعر میں باندھا:

؎حلقۂ احباب میں ہوں مرثیہ خواں میں جلیس ؔ

’’فرشِ ماتم ہے بساطِ محفلِ شادی مجھے‘‘

نواب سعادت علی خان والیٔ اودھ نے ایک دن تمام درباری شاعروں کو ایک مصرعہ دیا:

؎ اک نظر دیکھنے سے ٹوٹ نہ جاتے تیرے ہاتھ

اور اس پر مصرعہ ثانی لگانے کا حکم دیا۔ سب شاعروں نے زور مارا مگر بات بن نہ سکی۔ بالآ خر انشاء اللہ خان انشائؔ نے مصرعہ پر گرہ لگا کر شعر کو یوں مکمل کیا:

’’اک نظر دیکھنے سے ٹوٹ نہ جاتے تیرے ہاتھ‘‘

لیلٰی اتنا تو نہ تھا پردۂ محمل بھاری!!!

استاد ذوق، ؔنواب الٰہی بخش کے پاس بیٹھے غزل پر اصلاح دے رہے تھے، جس کا ایک مصرع یہ تھا:

؎کون روتا ہے یہ لگ کر باغ کی دیوار سے

اتنے میں ایک سوداگر نواب صاحب کی خدمت میں آیا، انہوں نے اس کی لائی ہوئی چیزوں میں سے ایک اصفہانی تلوار پسند کی اور استاد کی طرف دیکھ کر فرمایا:

؎اس ضعیفی میں یہاں تک شوق ہے تلوار سے

استاد ذوق نے لمحہ بھر تامل کیا اور پھر مصرع لگا کر شعر موزوں کردیا:

؎سر لگا دیں ابروئے خمدار کی قیمت میں آج

’’اس ضعیفی میں یہاں تک شوق ہے تلوار سے‘‘

بادشاہِ دہلی کے ولی عہد مرزا فخر الدین بہادر چاندنی رات میں ایک مرتبہ تالاب کے کنارے کھڑے چاندنی کی بہار دیکھ رہے تھے۔ استاد ذوق ؔبھی پاس کھڑے تھے۔ یکلخت مرزا فخر کی زبان سے یہ مصرع نکلا:

؎چاندنی دیکھے اگر وہ مہ جبیں تالاب پر

مرزا فخرو نے کہا’’استاد!کیا صاف مصرعہ ہوا ہے‘‘، استاد ذوق مدعا سمجھ گئے اور بولے ’’مصرعۂ ثانی حاضر ہے‘‘:

؎تابِ عکسِ رُخ سے پانی پھیر دے مہتاب پر

شاہ نصیرالدین حیدر، شیخ ناسخ ؔکے ممدوح تھے۔ ایک مرتبہ ناسخ ؔکے ہمراہ دریا کی سیر کے لیے اپنے محل سے برآمد ہوئے تو ناسخ ؔکو مخاطب کر کے کہا،’’استاد!! میں نے ایک مصرعہ کہا ہے:

؎مثل موتی کے ہمیشہ رہے زندان میں ہم

دوسرا مصرعہ لگا دیجیے۔ شیخ صاحب نے فوراً دوسرا مصرعہ لگا کے شعر یوں مکمل کیا:

؎نکلے دریا سے تو پھر جا کے پڑے کان میں ہم

’’مثل موتی کے ہمیشہ رہے زندان میں ہم‘‘

شیخ ناسخ ؔایک دن کسی سوداگر کی کوٹھی میں گئے۔ سوداگربچہ جو دولت حسن کا بھی سرمایہ دار تھا، سامنے لیٹا تھا مگر کچھ سوتا جاگتا تھا۔ آپ نے دیکھ کر فرمایا:

؎ہے چشمِ نیم باز عجب خوابِ ناز ہے

یہ مصرعہ تو ہو گیا مگر دوسرا مصرع جیسا جی چاہتا تھا ویسا نہ ہوتا تھا۔ گھر آئے تو اسی فکر میں غرق تھے۔ اتنے میں خواجہ وزیر آگئے۔ انھوں نے خاموشی کا سبب پوچھا۔ شیخ صاحب نے بیان فرمایا۔ اتفاق سے خواجہ صاحب کی طبیعت لڑ گئی اور اس مصرع پر یوں مصرعہ لگایا:

’’وہ چشمِ نیم باز عجب خوابِ ناز ہے‘‘

فتنہ تو سو رہا ہے درِفتنہ باز ہے

لکھنؤ کے بیشتر امیرزادے مرزا رفیع سودا ؔکے شاگردوں میں شامل تھے۔ مالی آسودگی اور فراغت کے باعث طویل وقت تک شعروسخن کی نشست جاری رہتی جس میں بیشتر وقت مصرعہ سازی اور اس پر گرہ بندی کے شغل میں صرف ہوتا۔ مشکل سے مشکل مصرعے تراشے جاتے، دور کی کوڑیاں لائی جاتیں۔ بالائے ستم کہ استاد کی حیثیت میں مرزا سودا ؔکو بھی برابر اس مشق سخن میں شریک ہونا پڑتا۔ اسی طرح کی ایک نشست میں ایک شریف زادے نے بر سبیل امتحان استاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’استاد! مصرعہ عرض ہے، سوچتا ہوں کیونکر شعر میں ڈھلے گا؟‘‘ ٓاور بہ آوازبلند مصرعہ پڑھا:

؎اے سنگ نازکی میں تو کامل نہ ہو سکا

استاد نے لمحہ بھر توقف کیا اور بولے:

؎شیشہ گداز ہو کے بنا دل نہ ہو سکا

’’ اے سنگ نازکی میں تو کامل نہ ہو سکا‘‘

اردو ادب کے پہلے ڈرامے ’’اندر سبھا ‘‘ کے مصنف اور شاعرامانت لکھنوی کی شاعرانہ استعداد اور استادانہ مہارت کی آزمائش کی خاطر ایک بار ایک مصرعہ پیش کیا گیا:

؎ عجب تماشا ہے آتش سے آب نکلا ہے

امانت ٹھہرے پرانے استاد جونہی مصرعہ نظروں کے سامنے آیا تو پڑھا اور پڑھ کے مسکرائے اور اس طرح شعر مکمل کیا:

پسینہ اس کے رخ آتشیں سے ہے جاری

’’عجب تماشا ہے آتش سے آب نکلا ہے‘‘

حکیم معشوق علی خان جوہر ؔاپنے زمانے کے باکمال شاعر، اول اول غالب کے شاگرد اور بعد ازآں اساتذہ فن میں شمار کیے جانے لگے۔

ان کے حلقۂ احباب میں ان کے زمانے کے تقریباً تمام نامی گرامی شعراء شامل تھے، جن سے گاہے خط و کتابت کے ذریعے اور گاہے دوبدو کی ملاقاتیں برابر جاری رہتیں۔

ایک مرتبہ جب حیدرآباددکن کے سفر کے دوران وہاں کے وزیراعظم سر مہاراجا کشن پرشاد ؔکے ہاں قیام پذیر تھے تو ان کے اعزاز میں ہر روز کہیں نہ کہیں شعروسخن کی محفل ضرور سجتی، جس میں وہ خوب چہکتے اور اپنے سخن وری کے جوہر کا کھل کے اظہار کرتے۔ اسی نوعیت کی ایک محفل میں کہ جب گرمیٔ سخن عروج پر تھی مہاراجا پرشاد نے حکیم صاحب کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا،’’حکیم صاحب! ذرا مصرعہ دیکھیے گا:

؎ اِدھر دل شاد ہوتا، اُدھر ناشاد ہوتا ہے

اور مصرعہ پہ گرہ لگانے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا ’’مادر زاد‘‘ کا قافیہ نہ بھولیے گا۔ حکیم صاحب اس اچانک حکم پر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر اسی زمین میں کم و بیش گیارہ اشعار کی غزل فی البدیہہ پیش کر کے محفل لوٹ لی۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں:

؎چمن میں ہر طرف شورِ مبارکباد ہوتا ہے

کوئی بلبل اسیرِ پنجہِ صیاد ہوتا ہے

تصور بھی دل ویراں میں اب آتا نہیں ان کا

کوئی اجڑا ہوا گھر بھی کہیں آباد ہوتا ہے

غم و شادی بیاہ پہ آتے جاتے ہیں زمانے میں

’’اِدھر دل شاد ہوتا، اُدھر ناشاد ہوتا ہے‘‘

ازل سے یہ اسیرِ دامنِ شمشاد آئی ہیں

گلو میں قمریوں کے طوق مادر زاد ہوتا ہے

تسلیمؔ لکھنوی کے ہاں معمول کی ایک بیٹھک میں قدردانوں کے ساتھ ان کے شاگردوں کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ ایک شاگرد نے استاد کو متوجہ کرتے ہوئے عرض کی،’’ایک دو روز سے ایک مصرعہ ذہن میں موجود ہے مگر حسب خواہ دوسرا مصرعہ ترتیب نہیں پا رہا۔‘‘ استاد نے مصرعہ طلب کیا تو شاگرد بولا:

؎خنجر تھے ہم بھی اک تہہ خنجرلیے ہوئے

استاد نے مصرعہ سن کے دیگر شاگردوں کی طرف دیکھا گویا نظروں ہی نظروں میں مصرعہ ثانی کو موزوں کرنے کا حکم جاری کیا۔ سب مصروف مشق سخن ہوئے۔ چند ثانیے بعد ان کے شاگرد علامہ اصغر حسین اصغرؔ نے استاد سے اذن سخن مانگا اور درج ذیل موزوں کردہ اشعار پیش کر کے استاد کی دعائیں اور حاضرین کی بے تحاشا داد سمیٹی:

؎اسرار عشق ہے دل مضطر لیے ہوئے قطرہ ہے بے قرار سمندر لیے ہوئے

قاتل نگاہ یاس کی زد سے نہ بچ سکا

’’خنجر تھے ہم بھی اک تہہ خنجرلیے ہوئے‘‘

ہم پی پلا کے ختم بھی کر دیں گے زاہدو

بیٹھے رہو گے تم مئے کوثر لیے ہوئے

معروف ادیب، شاعر اور اردو زبان و بیان کے حوالے سے سند کا درجہ رکھنے والے شمس العلماء سید باقر شمس لکھنوی نے شعر و ادب کی ایک محفل میں موجود شعراء کی ضیافت طبع کی خاطر ایک مصرع پیش کیا اور اس پر گرہ لگانے کی دعوت دی۔ مصرع کچھ اس طرح تھا:

؎ تو پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں

یوں تو اپنے تئیں سبھی شعراء نے اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا مگر تین شعراء کے مصرعوں کو سب سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ پہلی گرہ خود سید باقر شمس نے لگائی:

؎حنا نے گھٹ کے کیا ناخنوں کو دو ناخن

’’تو پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں‘‘

مائل ؔلکھنوی نے کچھ اس طرح اس پر طبع آزمائی کی:

؎بلائیں رات کو پیہم جو لی ہیں ابرو کی

’’تو پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں‘‘

جب کہ نظم ؔطباطبائی نے مذکورہ مصرعے کو کچھ اس طور سے برتا:

؎لکھا جو کرتا ہوں میں اس کے ناخنوں کی ثناء

’’تو پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں‘‘

معروف ادبی ماہنامے نقوش میں کے آپ بیتی نمبر میں چوہدری جلیل احمد آرزو لکھنوی سے متعلق اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ایک بار جب وہ شب بھر کے لیے میرے پاس ٹھہرے اور رات دیر گئے تک باتوں کا سلسلہ جاری رہا تو میں نے تازہ دم ہونے کے لیے ان کو چائے بنا کردی، ہنس کر پیالی لی اور مصرعہ پڑھا:۔

؎چشمِ ساقی میں خمار آتے ہی پیمانہ بنا

میں نے داد دی اور کہا کہ حضرت اب اس پر مصرع نہیں لگ سکتا، جو کہنا تھا سب ایک ہی مصرعے میں مکمل ہو گیا۔‘‘ میری بات سن کر خاموش ورہے اور قدرے تامل کے بعد بولے:

’’چشمِ ساقی میں خمار آتے ہی پیمانہ بنا‘‘

ہاتھ انگڑائی کو اٹھے اور میخانہ بنا

سندھ یونیورسٹی ، شعبۂ اردو کے ماہانہ مجلہ تحقیق کے شمارہ ۱۰ میں ’’ایام گزشتہ کے چند اوراق‘‘ کے عنوان سے اپنے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں ’’جن دنوں ہم جونا گڑھ کالج میں زیرتعلیم تھے تو وہاں ایک مشاعرہ منعقد ہوا، مصرع طرح تھا:

؎قدرت خدا کی ہے کہ خزاں ہے بہار میں

چار گھنٹے شعروسخن کی محفل جاری رہی لیکن مشاعرہ جونیجو صاحب کے ہاتھ رہا جو طبعاً مزاح گو شاعر تھے۔ انہوں نے مصرع پر یوں گرہ لگائی:

بیٹھا ہوا رقیب ہے پہلوئے یار میں

’’ قدرت خدا کی ہے کہ خزاں ہے بہار میں‘‘

ناطق ؔلکھنوی اپنے ایک مضمون ’’ہائے لکھنؤ‘‘ میں لکھتے ہیں،’’لکھنؤ میں منعقدہ مرزا مچھو بیگ کے مشاعرے میں ایک مرتبہ خواجہ حیدر علی آتشؔ کے شاگرد شیخ فضل احمد کیف ؔ کا ایک مصرعہ بطور طرح مصرعے کے دیا گیا:

؎میں تری زنجیر کھینچوں تو مری زنجیر کھینچ

اس پر مشاعرے میں شامل بہت سے اعزہ نے کمال گرہیں لگائیں، لیکن میری لگائی گئی گرہ حاصل مشاعرہ رہی:

؎میری وحشت دیکھیے کہتا ہوں اپنے عکس سے

’’میں تری زنجیر کھینچوں تو مری زنجیر کھینچ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔