امریکا، چین اور …

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 27 مئ 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

گزشتہ سال سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی برطرفی کی ذمہ داری امریکا پر عائد کر رہے تھے، وہ ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں میں پاکستانی سفارت کار کا وزارت خارجہ کو بھیجا گیا سائفر لہرا لہرا کر بتاتے تھے کہ امریکا سے امپورٹڈ حکومت کو ملک پر مسلط کیا گیا ہے، اب امریکا سے ان کی حمایت میں آوازیں آرہی ہیں۔

مئی کے پہلے پندرہ دن کے واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو امریکی حکومت، امریکی سینیٹرز اور ایوان نمایندگان کے ارکان پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ترجمان امریکی حکومت نے 17 مئی کو دنیا بھر میں مذہبی آزادی کی صورتحال پر رپورٹ جاری کی تھی۔

امریکی حکومت نے پاکستان کی موجودہ حکومت پر توہینِ مذہب سے متعلق قانون کو عمران خان کے خلاف استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے گزشتہ سال عمران خان پر الزام لگایا تھا کہ عمران خان توہینِ رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے ایک ٹویٹ میں عمران خان پر الزامات لگائے تھے۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت سیاسی مخالفین کے خلاف توہینِ رسالت کا ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے 9 مئی کے ہنگاموں کے دوران انٹر نیٹ سروس بند ہونے کی مذمت کی اور امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ آزادئ صحافت اور عقیدہ کی آزادی پر پابندی جیسے معاملات پر پاکستانی حکومت کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

امریکا کے سابق ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے 9 مئی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں غیر مستحکم صورتحال سے پورا خطہ متاثر ہوگا۔ پاکستانی سیاست دانوں کو اپنے اختلافات فوری طور پر حل کرنے چاہیئیں اور صورتحال کو اتنا خراب نہیں کرنا چاہیے کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں۔

عمران خان نے امریکی کانگریس کے ارکان سے زوم میٹنگ میں کہا کہ ملک میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کانگریس کی ایک رکن کا شکریہ ادا کیا، جنھوں نے عمران خان کی گرفتاری پر بیانات دیے۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں امریکا اور یورپی ممالک سے تعلقات خراب ہوچکے تھے۔

طالبان کے کابل پر قبضہ کے بعد امریکی حکومت ناراض تھی۔ توہین رسالت کے مرتکب کارٹونسٹ کے مسئلہ پر صدر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان کے بیانات سے برطانیہ، فرانس وغیرہ سخت ناراض ہوگئے تھے۔

برطانیہ نے سابقہ حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر یوسف کو ویزہ دینے سے انکارکیا تھا، اس صورتحال میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی۔ بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ کے عہدہ پر تعینات ہوئے۔ اس حکومت کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ روس اور یوکرین میں جنگ شروع ہوگئی۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرین کی حمایت میں پیش کی جانے والی قرارداد کی حمایت نہیں کی تھی۔ اس حکومت نے روس سے تیل کی درآمد کے لیے پیش رفت کی اور روس کا تیل کراچی کی بندرگاہ پہنچ گیا۔ چین سے تعلقات میں مزید بہتری ہوئی۔ سی پیک اور دیگر رکے ہوئے منصوبوں پرکام شروع ہوا۔

اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کا چارج سنبھالا تو پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کے افسروں سے مذاکرات شروع ہوئے۔ آئی ایم ایف نے فوری طور پر بجلی اور گیس میں سبسڈی واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے پٹرول، بجلی اور گیس سے نہ صرف سبسڈی ختم کی بلکہ پٹرول اورگیس کی قیمتوں کو بین الاقوامی مارکیٹ سے منسلک کیا، یوں مہنگائی کا ایسا طوفان آیا کہ افراطِ زرکے پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔

آئی ایم ایف نے یہ تجویز پیش کی کہ گریڈ 17 اور اوپر کے افسروں کے سالانہ گوشواروں کی تفصیلات کو عام کیا جائے۔ آئی ایم ایف کا رویہ مزید سخت ہوا۔ آئی ایم ایف کے افسروں نے اسٹاف لیول معاہدہ کے لیے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے گارنٹی طلب کر لی۔

حکومت نے تگ و دوکے بعد ان دوست ممالک کوگارنٹی دینے کے لیے تیار کیا مگر آئی ایم ایف کے رویے میں فرق نہ آیا۔ حکومت پاکستان نے اس صورتحال پر امریکی حکومت سے رابطہ کیا تو امریکی حکومت نے بار بار صرف یہ مشورہ دیا کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے کیے جائیں، یوں آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے سے معیشت سکڑنے لگی۔

ملک کی برآمدات کم ہوئیں اور روزانہ کی بنیاد پر ڈالرکی قیمت بڑھنے سے اربوں ڈالرکے قرضوں کا حجم بھی بڑھتا چلا گیا۔ آئی ایم ایف کی پالیسوں پر نظر رکھنے والے صحافیوں کا مفروضہ ہے کہ آئی ایم ایف دفاعی اخراجات میں کمی کی منتظر ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو بین الاقوامی انسپیکشن کے لیے کھولنے پر زور دے رہا ہے۔

اس دباؤ سے بچنے کے لیے موجودہ حکومت نے چین کے سائے میں پناہ لینے کی حکمت عملی اختیار کی۔ فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے اسی ماہ چین کا دورہ کیا۔

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی خبر کے مطابق چین پاکستان ریلوے کو 58 بلین ڈالر کی امداد دینے پر غور کر رہا ہے، یہ رقم پاکستان ریلوے خنجراب چین کی سرحد تک ریلوے لائن تعمیر کرنے پر خرچ ہوگی۔

اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باوجود پاکستان اور ایران کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوئے۔ دونوں ممالک نے ایران سے اسمگل ہونے والے سامان کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک بازار قائم کیا، یوں پاکستان کی کمزور حکومت نہ چاہنے کے باوجود امریکا سے دور چلی گئی۔

اس صورتحال میں عمران خان کا بیانیہ تو غلط ثابت ہو ہی رہا ہے اور دوسری طرف بھارت کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ بھارت نے بھی روس اور یوکرین کی جنگ میں امریکا کی حمایت نہیں کی اور اب بھارت ایران سے روس تک ریلوے لائن تعمیر کر رہا ہے مگر امریکا کو بھارت پرکوئی اعتراض نہیں۔ کمزور معیشت اور غیر مستحکم جمہوری نظام کی وجہ سے امریکا، پاکستان کے ساتھ یہ سلوک کر رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔