خانہ پُری؛ ’ڈومیسائل کا فرق‘ ختم کیا جائے!

رضوان طاہر مبین  اتوار 28 مئ 2023
خانہ پُری؛ روزنامہ ایکسپریس

خانہ پُری؛ روزنامہ ایکسپریس

 کراچی: بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ اگر عام حالات میں ان پر روشنی ڈالی جائے، تو شاید اسے اس قدر اہمیت نہ ملے، جتنا مخصوص حالات میں اس مسئلے کے اجاگر ہونے کے بعد مل سکتی ہے۔ اس میں سب سے اہم بحث جو ’سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) کی وجہ سے بہت زیادہ نمایاں ہو رہی ہے وہ ’ڈومیسائل کے فرق‘ کی بحث ہے!

صوبہ سندھ میں تو ’ڈومیسائل‘ کا معاملہ 1970ء کے بعد ہی سے بہت زیادہ حساس نوعیت کا رہا ہے، اور ایک ہی صوبے کے باسی آج بھی ’شہری سندھ‘ اور ’دیہی سندھ‘ کی عجیب وغریب تقسیم کا شکار ہیں، وہ تقسیم جو اور کسی صوبے میں نہیں، لیکن سندھ میں آج تک رائج ہے۔ تاہم باقی ملک میں پنجاب اور چھوٹے صوبوں کی شخصیات کے حقوق یا ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویوں کے حوالے سے یہ ’ڈومیسائل‘ کی تکرار نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے، جس میں برملا یہ شکایت کی جاتی ہے کہ ریاست اور ریاستی اداروں کی جانب سے صوبہ پنجاب سے سلوک نسبتاً نرم ہوتا ہے، جب کہ دیگر صوبوں کے رہنے والوں کے لیے یہ زیادہ سخت اور بے رحم ہوتا ہے۔

یہ الگ ’ڈومیسائل‘ والی باتیں دیگر الفاظ میں بے نظیر بھٹو نے بھی بارہا کی ہے کہ سندھ کے معزول وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دی گئی اور پنجاب کے وزیراعظم نواز شریف کو جلاوطن کیا گیا! اب دوبارہ یہ مسئلہ زبان زدِ عام ہو چکا ہے، مختلف تجزیہ نگاروں سے لے کر صف اول کے سیاست دان بھی اب اپنے بیانات میں اس کا تذکرہ کرنے لگے ہیں، یہاں تک کہ صحافی حامد میر کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں سابق صدر آصف زرداری نے بھی عمران خان کے مقابلے میں اپنے ’کمزور ڈومیسائل‘ کی دُہائی دے ڈالی! حالاں کہ ان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے تھا کہ حضور آپ کا ’ڈومیسائل‘ ضرور کمزور ہوگا، لیکن کبھی کراچی اور حیدرآباد والوں کے ’ڈومیسائل‘ کی ’کم تری‘ کو بھی تو محسوس کیجیے کہ آپ کی پیپلز پارٹی تو گذشتہ 15 برس سے مسلسل بلاشرکت غیرے حکم راں ہے، اُن بے چاروں کا ڈومیسائل تو شاید اس ملک کا ’ناقص ترین‘ ڈومیسائل ہے!

شہریوں کی مستقل رہائش کے حوالے سے بنائی جانے والی سرکاری دستاویز ’ڈومیسائل‘ (Domicile) کی اس بحث کو کراچی کی ’عوامی زبان‘ میں ’جدید دو قومی نظریہ‘ بھی کہتے ہیں، جس کا مطلب بھی ڈومیسائل کے اس دُہرے معیار اور تضادات کی نشان دہی کرنا ہے، جو کہ براہ راست ’قومیت‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی ریاستی قوانین اور مختلف اصول وضوابط کے عملاً اطلاق کا تعین اس بات سے ہوگا کہ آپ کون سی زبان بولتے ہیں یا کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جی ہاں! ’ڈومیسائل کے فرق‘ کی چرچا کا مفہوم بالکل یہی قومیتی فرق ہےکتنی تلخ اور کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک ہی ملک کے شہری ہونے کے باوجود اس قدر کھلا اور واضح نسلی امتیاز برتا جاتا ہے۔

19مئی 2023ءکو لاپتا افراد کے حوالے ’تحریک انصاف‘ کے وکیل اظہر صدیق کی ایک ویڈیو ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ پر بہت زیادہ دیکھنے میں آئی، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’کیا لاہور کو کراچی بنانا ہے؟ جو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں! ’بڑی کوشش کی تھی کہ یہاں لاپتا افراد بنائیں، میں نے یہی کہا کہ عمران ریاض (معروف ٹی وی میزبان) یہیں، اسی سرزمین سے ہے، اِسے لاہور اور پنجاب رہنے دیں کراچی یا وزیرستان نہ بننے دیں۔ عمران ریاض پاکستان کا ایک شہری اور صحافی ہے، اسے جینے کا حق ہے وغیرہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھروں سے غائب کر دیا جائے انھیں لاپتا افراد کی طرف مت لے کر جائیں، یہ لاہور اور پنجاب ہے اسے لاہور اور پنجاب رہنے دیں اسے کراچی نہ بنائیں!‘

اظہر صدیق صاحب نے دو منٹ کی گفتگو میں تین مرتبہ لاپتا افراد کے حوالے سے یہ بات کی کہ ”لاہور کو کراچی نہ بنائیں!“ ساتھ ہی وکیل موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ عمران ریاض یہیں اسی سرزمین کے شہری ہیں، گویا ’کراچی والے‘ تیسری اور چوتھی نسلوں اور 75 برسوں کے بعد بھی ’یہاں‘ کے تصور نہیں کیے جا سکے ہیں! اگر یہ باتیں کوئی عام شہری، یہاں تک کہ کوئی تجزیہ کار، کالم نگار یا ”دانش وَر“ کے نام پر نمودار ہونے والا شخص کر رہا ہوتا، تو شاید کچھ کہہ دیتے کہ وہ ’بے دھیانی‘ میں کہہ گئے یا ان کی زبان پھسل گئی وغیرہ۔ لیکن جناب، یہ بات تو اعلیٰ عدالتوں میں پیش ہونے والے ایک معزز وکیل صاحب کی جانب سے کہی گئی ہے، جو صبح وشام قانون اور انصاف کی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہاں ہم بالکل بھی وکیل صاحب کے بیان پر کوئی تنقید یا نکتہ چینی نہیں کرنا چاہیں گے، کیوں کہ وہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں، جہاں اب شاید یہی ”جدید دو قومی نظریہ“ اتنا سرایت کر چکا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کا وکیل بھی یہ کہنے پر مجبور ہو چکا کہ ’یہ لاہور اور پنجاب ہے، اسے کراچی نہ بنائیں!‘

شاید کراچی اور ’کراچی والے‘ تو اب مکمل طور پر لاوارث ہیں، جن کے لیے یہ طے ہوچکا ہے کہ انھیں پانی، بجلی، گیس اور دیگر بنیادی ترین شہری سہولتوں سے لے کر ’سیاسی آزادی‘ سے محروم رکھنا ہے، اور اس حد تک ’پس پا‘ کرنا ہے کہ نصف صدی تک ملکی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے والا یہ شہر ’یتیموں‘ اور ’لاوارثوں‘ سے بدتر اور ’سیاست‘ سے لاتعلق ہو جائے، اور ایسا ہو چکا ہے۔ اب تو یہ اپنے زخموں پر کراہ بھی نہیں سکتا، اس کی سسکیوں پر بھی پابندی ہے اور آنسوﺅں پر بھی پہرے ہیں۔ یہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر دن دہاڑے لُٹے یا اس کے نوجوان محض ایک سیاسی جماعت سے وابستگی کے ”جرم“ میں برسوں لاپتا رہیں، اب اسے اسی طرح جھکائے اور دبائے رکھنا ہے۔ کیا اس ظلم اور زیادتی پر اس ریاست کی دیگر اقوام اور ان کے باشعور حلقے اور سول سوسائٹی متفق ہوچکی ہے؟ اور اب وہ خود پر آنچ آئے، تو فٹ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ بھئی ہم کراچی والے تو نہیں ہیں، جو ہمیں لاپتا کر رہے ہو اور ظلم کر رہے ہو۔ اس سے زیادہ ’کراچی والوں‘ کے ڈومیسائل کی ’کمزوری‘ اور کیا ہوگی!

ہم جانتے ہیں، آپ کو ہماری یہ باتیں تلخ لگ رہی ہوں گی، لیکن یہ جتنی تلخ ہیں، اس سے زیادہ سچ بھی ہیں اور ایسا سچ، کہ جو شاید اب ڈھنگ سے خبروں اور ٹی وی کی اسکرینوں پر بھی جگہ نہیں پاتا کاش، کراچی اور حیدرآباد سمیت پورے ملک سے ’ڈومیسائل‘ کا یہ خوف ناک امتیاز ختم ہو اور کسی ملک کی کسی بھی قوم پر ”حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو!“

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔