بیرونی سرمایہ کاری، معیشت کے لیے اہم

ایڈیٹوریل  جمعرات 1 جون 2023
فوٹو: نیٹ

فوٹو: نیٹ

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان مضبوط اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات استوار کر کے بیلا روس کے ساتھ اعلیٰ سطح روابط اور دوطرفہ تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے بیلا روس کے وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

بیلا روس کے وزیر خارجہ سرگئی ایلینک نے کہا کہ وہ پاکستان میں گاڑیاں اور ٹریکٹر بنانے کی فیکٹری لگا کر مزید سرمایہ کاری پر غور کر رہے ہیں۔ بیلا روس کے وزیر خارجہ نے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقاتیں کیں۔

پاکستان اور بیلا روس کے درمیان قریبی اور خوشگوار تعلقات قائم ہیں۔ معاشی، اقتصادی، دفاعی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے مواقعے دونوں ممالک کے درمیان موجود ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان، بیلا روس کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کا متمنی ہے، دوسری جانب مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید مستحکم کرنا بیلا روس کی حکومت کی مستقل پالیسی رہی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کے ویزوں کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط سے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔

پاکستان ان دنوں معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ معاشی بحران ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی شدید قلت اور عالمی اداروں کی جانب سے امداد اصلاحات کے ساتھ مشروط کرنے سے پیدا ہوا ہے، کیونکہ پاکستان کی معیشت کا انحصار درآمدات پر ہے اور پاکستان کو ایک بڑے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔

اب پاکستان کو نہ صرف عالمی مالیاتی ادارے بلکہ دوست ملک بھی معاشی اصلاحات اور ٹیکس نیٹ بڑھائے بغیر امداد دینے کو تیار نہیں اور سعودی وزیر خزانہ نے بھی رائے دی ہے کہ اگر پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑانی ہے اور ملک کو ڈالر کمانے کے قابل بنانا ہے تو مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔

معیشت کی سوجھ بوجھ رکھنے والے دانش مندوں کے خیال میں کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے سرمایہ کاری، برآمدات اور ترسیلاتِ زر بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

سرمایہ کاری ان تین عناصر میں ایک اہم عنصر ہے کہ اس سے معاشی ترقی کے بیشتر اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ سرمایہ کاری سے معیشت میں استحکام لایا جا سکتا ہے، ملک میں روزگار کے مواقعے پیدا کیے جا سکتے ہیں، مختلف نوع کی صنعتوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جا سکتا ہے، ملک کی مجموعی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے، جو لوگ پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے جنت قرار دیتے ہیں، وہ بھی درست سوچتے ہیں۔

اِس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ پاکستان کسی بھی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی فیورٹ ملک ہو سکتا ہے کہ یہاں توانائی سے لے کر زراعت، آئی ٹی سے لے کر ہر طرح کی صنعت میں سرمایہ کاری کے وافر مواقع موجود ہیں مگر اس کے لیے ہمیں ملک میں سیاسی، معاشی اور سماجی فضا کو سازگار بنانے کی طرف سنجیدگی سے پیش رفت کرنا ہوگی کیونکہ سازگار ماحول میں ہی سرمایہ کاری کا فروغ ممکن ہو سکتا ہے، اگر ہم دنیا کے کسی ملک بھی میں ہونے والی معاشی ترقی کا تناسب دیکھیں تو اس ملک میں سرمایہ کاری کا داخلی حالات کے ساتھ گہرا تعلق نظر آئے گا۔

کاروباری برادری کے مطابق ملک میں سرمایہ کاری کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں اور ان کو دْور کیے بغیر ہم ملک میں سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور ملک کو معاشی اعتبار سے مضبوط کرنے کے اہداف بھی حاصل نہیں کر سکتے۔

اگرچہ سات دوست ممالک اور چند صنعتوں پر توجہ دی جائے تو ہر ملک سے کئی ارب ڈالر سالانہ کی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے ایک ایکو سسٹم بنانا ہوگا، مگر ہمارے ملک میں سالانہ تین ارب ڈالر سے بھی کم غیر ملکی سرمایہ کاری آتی ہے۔

اس وقت پوری حکومت آئی ایم ایف کے چند ارب ڈالرز کے لیے پریشان ہے۔ پاکستان میں ایک تو باہمی تعاون کا ماحول نہیں ہے۔ ایک وزارت، دوسری وزارت سے اور ایک ادارہ دوسرے ادارے سے تعاون کو تیار نہیں۔ سارا کام ایڈہاک ازم پر چلتا ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سرمایہ کاری کی جگہ بیرونی امداد یا قرض مل جائے۔

ماہرین کے بہ قول معیشت میں اتار چڑھاؤ کے باعث پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے ضرورت سے زیادہ مراعات دینی پڑتی ہیں۔ کم زور مالی پوزیشن کی وجہ سے پاکستان کے لیے آزادانہ خارجہ پالیسی جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ ان حالات میں بانڈز سے ملنے والی رقم سے مانیٹری پالیسی متاثر ہوتی ہے اور بیرونی قرضوں کا دباؤ برقرار رہتا ہے۔

ایسی سرمایہ کاری سے اسٹیٹ بینک اوپن مارکیٹ سے ڈالرز خرید کر ایکسچینج ریٹ میں وقتی طور پر استحکام لانے میں کام یاب ہوسکتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کسی حد تک بڑھ سکتے ہیں۔دوسری جانب برآمدات کے شعبے سے وابستہ افراد جب یہ دیکھتے ہیں کہ آج ڈالر کا یہ ریٹ ہے اور اگر آج میں اپنی ایکسپورٹ پروسیڈز کو مارکیٹ میں نہ لاؤں تو مجھے چند پیسے زیادہ مل جائیں گے تو اس سوچ کے تحت وہ اپنی ایکسپورٹ پروسیڈز کو روک لیتے ہیں۔

درآمدات کے شعبے سے وابستہ افراد بھی ان ہی خطوط پر سوچتے اور فیصلہ کرتے ہیں جس سے طلب اور رسد میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور مارکیٹ میں افراتفری کی سی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔سرمایہ کاروں کا اصل مسئلہ بیوروکریسی کا رویہ ہے۔ اسی پر بوجھ ڈالا جاتا ہے، جو ٹیکس نیٹ میں ہے اور جو نیٹ سے باہر ہے وہ مزے کررہے ہیں۔ بلاشبہ مقامی اور غیر ملکی پرانے اور نئے سب سرمایہ کار مزید سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

بیوروکریسی مقامی اور غیر ملکی سب سرمایہ کاروں کو دفاتر کے چکر ہی لگواتی رہتی ہے اور ان کے ہاتھ پکڑنے اور مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل کو بڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں کچھ ایسی پالیسیاں اور آپریشنل سطح کی پیچیدگیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے ملک کے اندر سرمایہ کاری کے حوالے سے تحفظات جنم لیتے ہیں جس سے اکثر اوقات ملک میں کاروبار سے منسلک لوگ نالاں دِکھائی دیتے ہیں۔

بیرونِ ملک سے آنے والی ممکنہ سرمایہ کاری پر بھی اس کا منفی اثر پڑتا ہے۔ سرمایہ کاری نہ ہونے یا کم ہونے کی بہت سی تکنیکی وجوہات ہیں جن میں کم آمدنی، کمزور مالیاتی منڈی، ٹیکس کے مسائل، غیر رسمی معیشت اور بہت سے قانونی پیچیدگیاں شامل ہیں لیکن اس راہ میں دو بڑے مسائل حائل ہیں اور جن کے حل کے لیے اگر کوشش کی جائے تو رفتہ رفتہ باقی مسائل کے حل کی طرف بھی بڑھا جا سکے گا۔

وہ دو بڑے مسائل سیکیورٹی اور کاروبار کرنے کی آسانی اور سہولت کاری کا میکانزم ہیں۔سیکیورٹی سرمایہ کاری کے لیے پہلی اور نہایت ضروری شرط ہے۔

سیکیورٹی کو دو تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اول یہ کہ سیکیورٹی کا مطلب کہیں بھی لگائے جانے والے سرمائے کا تحفظ ہے، یعنی وہ میکانزم ہے جس کے تحت کسی بھی ملک میں سرمایہ محفوظ ہو اور سرمایہ کار کے مفادات کو یقینی بناتا ہو۔ دوم، یہ کہ اْس ملک میں عمومی طور پر وہاں پر لوگوں کے تحفظ اور امنِ عامہ کی صورتِ حال کیا ہے۔

کوئی بھی سرمایہ دار کسی ایسے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کر ے گا جہاں امن و امان قائم نہ ہو اور جہاں اْس کی جان اور مال کی حفاظت کا مناسب انتظام نہ ہو۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں کاروبار کرنے کی آسانی اور سہولت کاری کا فقدان ہے۔

کاروباری طبقہ سمجھتا ہے کہ اِس ملک میں کاروبار کرنا آسان نہیں ہے۔ کاروبار کے لیے پیچیدہ قوانین، رشوت، بدعنوانی اور کسی مسئلے کے حل کے لیے کوئی موثر پلیٹ فارم نہ ہونا بھی مشکلات کا سبب ہے۔ کوئی بھی شخص جو کسی ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے یا وہاں کاروبار کرنا چاہتا ہے تو وہ چاہے گا کہ اْس کو وہاں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور متعلقہ ادارے اْس کی مدد و معاونت کریں اور ترجیحی بنیادوں پر اْس کے مسائل حل کریں۔

کاروبار کی آسانی کے لیے چند عناصر بہت اہم ہیں، اْن میں سیاسی استحکام، موثر ریگولیٹری فریم ورک، صحت مند مقابلے کی فضا، ہنر مند لوگ، انفرا اسٹرکچر اور کاروبار کرنے والوں کے لیے ایسے قوانین کو رائج کرنا جو اْن کے لیے اپنے کاروبار کو شروع کرنے اور اْسے جاری رکھنے میں معاون ہوں اور یہ سب ریاستی اداروں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔حکومت اور کاروباری طبقہ کاروبار اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اسٹیک ہولڈرز ہیں۔

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کاروباری برادری سے مل کر ایک ایسا موثر فورم تشکیل دے جس میں ملک کے اندر متعلقہ اداروں اور کاروباری طبقے کی نمایندگی ہو۔

یہ فورم ملک کے اندر کاروبار اور سرمایہ کاری کی عمومی فضا کو مثالی بنانے کے لیے فریم ورک بنائے اور ایسے اقدامات کرے جس سے سرمایہ کاروں کے تحفظات دْور ہوں اور ان کا ریگولیٹری فریم ورک پر اعتماد بڑھے۔ بیرون ملک سے سرمایہ کاری صرف اْس صورت میں ممکن ہوگی جب ملک میں بسنے والے کاروبار سے منسلک لوگوں کا نظام پر اعتماد پختہ ہوگا۔

ہمیں بیرونِ ملک دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں کو یقین دلانا ہوگا کہ پاکستان میں ان کے جان و مال محفوظ ہیں، ان کا سرمایہ محفوظ ہے اور ان کی پاکستان میں سرمایہ کاری ان کے لیے منفعت کا باعث ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔